مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کے مطابق علامہ محمد امین شہیدی حوزہ علمیہ قم کے فارغ التحصیل اور پاکستان کے جید علمائے کرام میں سے ہیں، جن کی اتحاد بین المسلمین کے لئے کاوشیں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ آپ سینئر نائب صدر ملی یکجہتی کونسل پاکستان، اسلامی نظریاتی کونسل پاکستان کے سابق رکن، مجلس وحدت مسلمین کے بانی ممبر اور کئی برس تک مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل بھی رہ چکے ہیں، اس وقت " امت واحدہ " کے سربراہ ہیں اور پاکستان کے ہر فورم خصوصا میڈیا پر ملت تشیع کے حقوق کا دفاع کر تے رہتے ہیں۔ مہر نیوز ایجنسی نے ایران میں جاری صدارتی الیکشن کے متعلق آپ سے جو گفتگو کی ہے، وہ قارئین کے پیش خدمت ہے:
مہر نیوز :ایران کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟
میرا خیال ہے کہ اگر ہم انقلاب اسلامی کے بعد ایران میں ہونے والے گزشتہ چار دہائیوں کے الیکشنز کا جائزہ لیں تو حالیہ الیکشن کو بنی صدر کے دور کے حالات سے تشبیہ دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر شہید رجائی جیسی عظیم شخصیت کی شہادت کے بعد حضرت آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای کا الیکشن میں کھڑا ہونا، اگر چہ بعض جہات سے یہ منظر مختلف بھی ہے جیسے اس وقت انقلابی طبقہ اپنے عروج پر تھااور امام خمینی ؒ بھی حیات تھے، انقلابی ولولہ، آگاہی، جذبہ اور بیداری اپنی عروج پر تھی، جنگ بھی اپنی عروج پر تھی اس لئے پوری قوم متحد تھی، لہٰذا اس وقت آیت اللہ خامنہ ای کو فتنوں اوراستکباری سازشوں کے مقابلے میں جیتنے کے حوالے سے پوری قوم کی حمایت حاصل رہی اور اس دور کے الیکشن میں ایران کے تمام دوسرے انتخابات کی نسبت سب سے زیادہ ووٹ کاسٹ ہوئے اور آیت اللہ خامنہ ای نے سب سے زیادہ ووٹ بھی حاصل کئے اور آج تک ان کے ریکارڈ کو کوئی نہیں توڑ سکا۔ آج کے حالات اندرونی اور بیرونی شرائط کے حوالے سے انتہائی اہم ہیں۔
اندورنی طور پر فتنہ پرستوں کے ایک گروہ کو تیار کیا جاچکا ہے اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگیاور نئی نسل کو انقلاب سے دور اور مایوس کرنے کا منطوبہ تیار ہے۔ اس سے پہلے بھی مختلف فتنے اٹھائے جاچکے ہیں اور انقلاب اسلامی کے خلاف دنیا بھر کی تمام پروپیگنڈہ مشنری پوری آب و تاب کے ساتھ متحرک ہے ۔ اس کے علاوہ گزشتہ آٹھ سال میں ایسی حکومت بر سر اقتدار رہی ہے جس کے ثمرات امریکی سمیٹ رہے ہیں، جبکہ ایرانی قوم، انقلاب اسلامی اور ولایت کے ماننے والوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑاہے۔ ایسے ماحول میں آیت اللہ رئیسی کا آگے آنا اور ان کے مقابلے میں کچھ مخصوص لوگوں کا میدان میں اترنا۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ انقلاب اسلامی ایک بار پھر اپنے ثمرات اور برکات سے ایرانی قوم کو نوازنے کے لئے آمادہ ہے۔ اگر آیت اللہ رئیسی جیت جاتے ہیں تو اس کے بعد انقلاب کا ایک نیا جنم اور نئی پیدائش ہوگی ۔چونکہ گزشتہ آٹھ سالوں میں اور اس سے پہلے کے کچھ ادوار میں کافی حد تک لوگ انقلاب کے ثمرات سے محروم رہے، انقلابی نظریات کو کچلنے اور کمزور کرنے کی کوششیں ہوئیں، انقلاب کے راستے کو مخدوش کرنے اور لوگوں میں شکوک وشبہات پھیلانے کے مواقع فراہم کئے گئے، عالمی اور استکباری میڈٰیا نے انقلاب کے چہرے کو مسخ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اگر قاسم سلیمانی جیسے عظیم ترین شہداء کا خون نہ گرتا تو شاید اس وقت انقلاب کے لئے اتنی آسانی سے سنبھلنا آسان نہ ہوتا۔ اب اس صورتحال میں آنے والا الیکشن بتائے گا کہ انقلاب کی عمر کیا ہے اور انشاءاللہ انقلاب اسلامی اس الیکشن کے نتیجے میں مزید مضبوط، طاقتور اور سربلند ہوگا اور عوامی امنگوں پر پورا اترے گا اور دنیا کی استبدادی اور طاغوتی طاقتیں متحد اور یکجا ہوکر انقلاب اسلامی کے خلا ف اپنی ریشہ دوانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن انھیں ماضي کی طرح اس بار بھی شکست اور ناکامی سے دوچار ہونا پڑے گا ۔
ایران کے تیرہویں صدارتیالیکشن میں انقلابی طبقے کا بھی امتحان ہے اور ایران کے باشعور عوام کا بھی امتحان ہے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس امتحان میں کامیاب ہوں گے ۔ ان سات نمائندوں میں جو مرد میدان ہوگا اس مرد میدان کا نام آیت اللہ سید ابراہیم رئیسی ہے ۔ میں اس کو اس حوالے سے بھی دیکھتا ہوں کہ بنی صدر کے بعد فتنے کے اس دور میں جس طرح سے آیت اللہ خامنہ ای نے اس ملک کو اور انقلاب کو سنبھالا تھا اور شہید رجائی کے بعد اس نا گفتہ بہ صورتحال میں ان کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئی تھیں، اسی طرح سے اس انتخابات کے ذریعے لوگ آیت اللہ رئیسی کا تابناک چہرہ دیکھیں گے۔ گزشتہ ادوار میں ان کی قاطعیت، عدلیہ میں کرپشن سے مقابلہ اور کرپشن میں ملوث سیاسی اور غیر سیاسی شخصیات کا پکڑنا اور انکو منطقی انجام تک پہنچانا اور قانون کے مطابق ان سے سلوک کرنا یہ سب آیت اللہ رئیسی کے کارناموں میں شامل ہے ۔اس حوالے سے وہ ان شاء اللہ جیت بھی جائینگے اور جیتنے کے بعد ایک نئے ولولے اور نئی انقلابی روح کے ساتھ ایک نئی حکومت بھی تشکیل دیں گے۔
مہر نیوز : آپکی نظر میں ایران کا صدارتی الیکشن پاکستان کے لیے کتنی اہمیت کا حامل ہے؟
ایران کے اندر جتنی طاقتور، پائیدار، مضبوط، انقلابی، امریکہ دشمن، استعمار ستیز اور نظریاتی شخصیت کی حکومت آئے گی اس سے پاکستان کو یقینا فائدہ پہنچے گا، وہ حکومت پاکستان کے استحکام کا باعث بنے گی اور پاکستان اور ایران کے تعلقات مزید مضبوط اور مستحکم ہوں گے ۔ حکمران جتنے خالص ہوتے ہیں ملکوں کے تعلقات اتنے ہی خالص ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اس وقت امریکیوں کے حوالے سے بڑی مشکلات کا سامنا ہے لیکن چونکہ پاکستان اقتصادی اور سیاسی طور پر کمزور ہے اس لئے ایران کی طرح کھل کر استعمار اور امریکہ کے مقابلے میں من حیث حکومت کھڑا نہیں ہوسکتا، لیکن اگر ان انتخابات میں نظریاتی، انقلابی اور ولایت فقیہ کی پیروکار حکومت آتی ہے تو اس سے میرا خیال ہے گزشتہ حکومت کی نسبت ایران اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مزید استحکام آئے گا اور ایک نئے اور امریکہ مخالف، مغرب مخالف، علاقائی بلاک کی تشکیل میں پیشرفت ہوگی، اسی طرح روس، ایران، چین، پاکستان اور خطے کے بعض دیگر ممالک کے اشتراک سے ایک نئے بلاک کی تشکیل کی راہ ہموار ہوگی اور یہ بلاک مزید طاقت کے ساتھ سامنے آئے گا ۔ اس الیکشن میں آیت اللہ رئیسی جیسی شخصیت کا آنا اور انکا جیتنا بڑا اہم بھی ہے اور پاکستان کے لئے مبارک بھی ہے۔
مہر نیوز: عالمی سطح پر ایرانی صدارتی انتخابات کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے
ایران کے اندر گزشتہ آٹھ سالہ حکومت میں جو بات کھل کر سامنے آئی وہ یہ ہے کہ اس حکومت نے اپنے دونوں ادوار میں امریکیوں سے اور مغربی دنیا سے اپنے رابطے کو استوار کرنے کے لئے انقلابی ویلیوز اور دینی ویلیوز کو پامال کیا اور دیگر ممالک کی طرح سے مفادات کی سیاست کا راستہ اپنایا اور کرپشن کے دورازے کھولے، اپنے زور بازو پر اعتماد کے بجائے مغرب پر اعتماد کو فروغ دیا جس کے نتیجے میں بہت نقصانات ہوئے۔ ایران کے ایٹمی پروگراموں پر پابندی لگی، اسے قدم بہ قدم پیچھے ہٹنا پڑا اور ملک کے اندر دو نظریات کھل کر ایک دوسرے کے سامنے آئے، ایک مغرب پرستوں کا نظریہ جو حکومت کا بھی نکتہ نظر تھا اور دوسرا ان افراد کا نظریہ جو خود کو انقلاب کا امین اور محافظ سمجھتے ہیں ۔ اس حوالے سے یہ الیکشن عالمی طاقتوں کے لئے بھی اہم ہے اور عالمی سطح پہ امریکہ اور دیگر ممالک کی کچھ توقعات ہیں۔ وہ اس حوالے سے بھرپور کوشش کررہے ہیں کہ ایسی حکومت قائم ہو جو ان کی باتوں کو فورا تسلیم کرے، کیونکہ مغرب کو ایران کے ایٹمی پروگرامز کے حوالے سے بڑی امیدیں تھیں کہ صدر روحانی کی حکومت میں انکا پروگرام رول بیک کردیا جائے گا لیکن رہبر معظم کی حکمت عملی ، فراست اور انقلابی طبقے کی بیداری نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ اگرچہ پچھلے ادوار میں اس طرح کے پروگرام کو بہت زیادہ نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، اب امریکہ اس معاہدے میں واپس آنا چاہتا ہے اور اس معاہدے کو دوبارہ عملی شکل دینا چاہتا ہے تو اس اعتبار سے امریکیوں کے لئے انتہائی اہم ہے کہ اس انتخابات میں رئیسی نہ جیتے بلکہ کوئی ایسا فرد آئے جو امریکی اور مغربی مفادات کو تحفظ فراہم کر سکے۔
دوسری طرف خطے کے اندر اسلامی مزاحمتی بلاک نے اس عرصے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی دست پروردہ دہشت گرد تنظيم داعش اور اسرائیل کو شکست دے کر اوریمنیوں کی حمایت کرکے جس طرح کی فضاء قائم کررکھی ہے اس کے نتیجے میں انقلابی طبقات پوری دنیا میں مضبوط ہوئے ہیں ۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے فلسطینیوں سمیت عرب ممالک میں موجود حریت پسندوں کا مورال بلند ہوا ہے اور یہی کیفیت شام اور عراق کی ہے اور یہ سارے کام اس وقت انجام پائے جب ایران خود مشکلات میں گرفتار تھا۔ فلسطینیوں کی ۱۲ روزہ جنگ کی فتح کے نتیجے میں پوری دنیا میں مسلمانوں کا سر فخر سے بلند ہوا ہے۔
اب اگر اس الیکشن میں کوئی انقلابی شخصیت آتی ہے تو اس کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک کو بہت زیادہ قوت ملے گی، دنیا بھر میں پھیلے ہوئے انقلابیوں کو ایک نئی روح حاصل ہوگی اور اسرائیل کو زیادہ نقصان پہنچے گا ۔ اسی طرح خطے کے اندر جو قوتیں انقلاب کا راستہ روکنا چاہتی ہیں، وہ امام زمان (عج) کے ظہور کو اپنے لئے سب سے بڑا چیلنج سمجھتی ہیں ان کو رئیسی جیسی شخصیت کی کامیابی میں اپنی اور اپنے نظریات کی شکست نظر آرہی ہے، اس اعتبار سے دیکھا جائے تو خدا دشمن قوتوں کو اس انتخابات میں رئیسی جیسے شخص کی کامیابی کی صورت میں بہت بڑی ناکامی اور شکست کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہونگے اور ان اثرات کو دنیا دیکھے گی۔ اگر رئیسی صاحب کامیاب ہوتے ہیں تو اس سے پورے خطے پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے اور خطے میں استعماری اور سامراجی طاقتوں کے شوممنصوبے ناکام ہوجائيں گے اور ان کی کمزوریاں اور ان کی تلملاہٹ کھل کر سامنے آجائے گی۔
مہر نیوز: تمام صدارتی امیدواروں کا کہنا ہے کہ ہم آئندہ دور میں ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے تو آپ کی نظر میں پاک ایران تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کونسے اقدامات کی ضرورت ہے؟ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں۔
انتخابات سے پہلے ہر صدر یہ کہتا ہے کہ ہم اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات برقرار کرنے کی بھرپور کوشش کرینگے لیکن ایک انقلابی اور غیر انقلابی، ایک مغرب پرست اور ایک انقلابی اور دینی اقدار کے حامل شخص میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ایک انقلابی شخص کا سارا دارومدار دین کی پالیسی پر ہوتا ہے جبکہ غیرانقلابی اور مغرب سے متاثر لوگ اپنے مفادات کی بنیاد پر اپنی پالیسیاں مرتب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات سے بالاتر ہوکر اسرائیل دشمنی میں انقلابی سب سے آگے ہیں اگرچہ اس کا نقصان ایران کو اٹھانا پڑتا ہے اور وہی طبقہ جب کشمیر کی بات آتی ہے تو انڈیا سے اپنے تمام تر اپنے اقتصادی تعلقات کے باوجود انڈیا کے مقابلے میں کھڑا ہوجاتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں جو مغرب پرست اور دینی اقدار سے محروم لوگ ہیں وہ صرف اپنے اقدار کو دیکھتے ہیں تو اس اعتبار سے اس الیکشن کے بعد میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اگر انقلابی طبقہ، انقلابی اور ولایت فقیہ کا قائل طبقہ میدان میں آتا ہے تو یقینا وہ اپنے نظریات کی بنیاد پر کشمیریوں کی حمایت کے لیے بھی کھل کر سامنے آئے گا اور فلسطینیوں کی حمایت کے لئے بھی کھل کر سامنے آئے گا ۔ اگر کشمیر کے مسئلے پر کوئی ملک پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے تو پاکستان اور اس ملک کے درمیان تعلقات کا بہتر ہونا عام سی بات ہے، لہذا پاک ایران تعلقات کے استحکام میں یہ موارد بہت اہم ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اگر پاکستان کے اندر بھی کوئی آزاد منش حکومت آجائے تو وہ ایران کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات کو مضبوط کرکے ایران اور پاکستان کی معیشت، در آمدات اور برآمدات کی موجودہ فضا میں بہتری لاکر دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے مفادات کا محافظ بناسکتی ہے، یہ کام پاکستانی حکومت اور ایرانی حکومت کی مشترکہ جدوجہد اور مشترکہ مفاہمت سے ہی ممکن ہوسکتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے بھی میرا خیال یہی ہے کہ رئیسی صاحب باقی تمام لوگوں کی نسبت بہتر طور پر یہ کام کرسکتے ہیں۔ ڈاکٹر سعید جلیلی بھی اس حوالے سے روشن فکر اور بہتر شخصیت ہیں اور محسن رضائی صاحب بھی اس حوالے سے نظریاتی شخصیت ہیں وہ بھی بہتر طور پر کام کرسکتے ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں درآمدات اور برآمدات، اقتصادی معاملات کی مضبوطی، خطے میں امن و امان کی بحالی اور خطے کے ممالک کے درمیان عداوتوں اورمخالفتوں کو ختم کرنے کے حوالے سے باہمی طور پر مفاہمت کی طرف آئیں تو اس سے بڑا مثبت اثر پڑے گا اور ان انتخابات میں زیادہ اس چیز کی ضرورت ہے کہ انتخابات کے بعد جوبھی برسر اقتدار آئے ، اسے اپنی توجہ ان امور کی طرف مبذول کرنی چاہیے ۔
مہر نیوز : آپ کی نظر میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر عمل درآمد کیوں نہیں ہورہا اور اس منصوبے کی تکمیل کیسے ممکن ہے؟اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے
پاک ایران پائپ لائن کے حوالے سے عرض کروں کہ یہ مسئلہ اندرونی نہیں، بلکہ ایک بیرونی مسئلہ ہے۔ اگر گیس پائپ لائن شروع ہوجائے تو ایک طرف سے "یو اے ای" دھمکیاں دیتا ہے تو دوسری طرف سے سعودی عرب اور امریکہ دھمکیاں دیتے ہیں کہ ہم تمہاری امداد بند کردیں گے۔ لہٰذا یہ پاکستان کی مجبوری ہے کیونکہ وہ اقتصادی طور پر ایک کمزور ملک ہے اور جو ملک جتنا بھی اقتصادی حوالے سے کمزور ہوتا ہے وہ اتنا ہی دوسروں کی پالیسیوں سے متاثر ہوتا ہے۔لہٰذا اس وقت پاک ایران پائپ گیس لائن کے حوالے سے مسئلہ ایران کا نہیں ہے، بلکہ پاکستان کا بھی نہیں ہے، جبکہ یہ مسئلہ ان عالمی طاقتوں کا ہے جو ایران اور پاکستان کو ایک دوسرے کے قریب آنے سے روکنا چاہتی ہیں، لہذا جس طرح ایران ہمت اور جرئت کا مظاہرہ کرتا ہے پاکستان کے اندر بھی ہماری حکومت جرئت و ہمت کا مظاہرہ کرے تو یہ صورتحال بد ل سکتی ہے اور یہ گیس پائپ لائن کا باقاعدہ آغاز ہوسکتا ہے اور اس منصوبے پر فوری کام شروع بھی کیا جاسکتا ہے لیکن جیسے ہم سب کو پتہ ہے کہ خود اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے "یو اے ای" اور سعودی عرب کی طرف سے ہماری حکومت پر کتنا دباؤ اور پریشر تھا۔ ہمارے قارئین کو پتہ ہے کہ کوالامپور کانفرنس میں شرکت سے روکنے کے لیے سعودیوں اور اماراتیوں نے کس طرح سے ہماری حکومت پر دباؤ ڈالا اور پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اس کانفرنس کے بانی ہونے کے باوجود اس کانفرنس میں نہیں گئے اور تاریخ میں یہ ذلت ہماری پیشانی پر لکھی گئی۔ لہذا معیشت کے حوالے سے ہم اتنے کمزور ہوں تو ایک ایسے گیس پائپ لائن پر سائن کرنا پاکستان کے لیے آسان نہیں ہے اس کے لیے ہمت چاہیے اس کے لیے غلامی اور خوف کی طاقتوں کو توڑنے کی طاقت کی ضرورت ہے اس کے لیے خطے کے عرب بادشاہوں کی طاقتوں کے حصار سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔ جونہی یہ تبدیلی پاکستا ن میں آئے گی پھر پاکستان سے مشکلات کا خاتمہ شروع ہوگا تو اس لیے پاک ایران گیس پائپ لائن کے حوالے سے جو مشکل ہے وہ خطے کے ان ممالک کی طرف سے ہے جنکے زیر اثر پاکستان ہے ۔
مہر نیوز : عالمی طاقتوں کی اکثریت اپنے ملکوں میں شفاف انتخابات نہیں کرا سکتیں، وہ ایرانی صدارتی الیکشن پر حساس کیوں ہوجاتی ہیں؟
ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہے ایرانی عوام نے گزشتہ چالیس سالوں میں تمام تر کٹھن حالات، بین الاقوامی پابندیوں، آٹھ سالہ مسلط کردہ جنگ میں استعماری حملوں اورہتھکنڈوں کے باوجود اپنی حکومت اور اپنے رہبر پر اعتماد کا مظاہرہ کرکے انقلاب کو کمزور ہونے سے بچایا۔ اس کے ساتھ انہوں نے فلسطینی اور عراقی مظلوموں کا ساتھ دیا، یمن اور کشمیر کے مظلوموں کی حمایت کی، شام کے عوام کا ساتھ دیا اور داعش دہشت گردوں کو انہی بہادر عوام اور جوانوں نے شکست سے دوچار کیا۔لہٰذا اسلامی انقلاب کی ویلیوز ہیں جن پر ایرانی عوام کو بھرپور اعتماد ہے اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پارلیمنٹ کے الیکشن میں انہوں نے مغرب پرست عناصر کو اس طرح سے باہر کیا جس طرح سے گھی میں سے مکھی کو نکالا جاتا ہے۔یہ ایرانی عوام کے شعو ر کا امتحان بھی تھا اور اس امتحان میں ایرانی عوام کامیاب بھی ہوئے ۔ لہذا میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی عوام کو اپنے سسٹم اور اپنے نظام پر اعتماد ہے، مغرب کی تمام تر سازشوں کے باوجود انہوں نے کبھی دھوکہ نہیں کھایا اور اب تک اپنے دینی رہبر و راہنما پر مکمل اعتماد کر کے اپنے اعلی اہدا کی سمت ثابت قدمی کے ساتھ گامزن ہیں ، لہٰذا حالیہ انتخابات میں بھی مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود عوام انقلاب کے شانہ بشانہ رہیں گے اور اپنے اس انقلاب کو منطقی نتیجے تک پہنچانے کے لیے تیار رہیں گے۔
مہر نیوز :ایرانی صدراتی الیکشن پر وہ ممالک بھی تنقید کرتے نظر آتے ہیں جن میں صدیوں سے الیکشن کا کوئی نظام ہی نہیں، اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ایرانی صدارتی انتخابات پر عرب ممالک کے بڑے بڑے اعتراضات دیکھ کر ہنسی آتی ہے، جہاں بادشاہت ہے۔ جولوگ سراپا ننگے ہیں وہ لباس والوں پر اعتراض کرتے ہیں۔ ایران میں پچھلے چالیس سالوں سے آئین کے تحت کوئی الیکشن ملتوی نہیں ہوا۔ نجی سطح سے لے کر اوپر کی سطح تک کے فیصلے عوام کی امنگوں کے مطابق ہوئے اور عوام نے بھرپور شرکت کی ۔ جنگ کے سخت ترین حالات میں پارلیمنٹ کو بم سے اڑانے کے باوجود، اسی طرح صدر، وزیر اعظم، چیف جسٹس، ائمہ جمعہ سمیت بڑی بڑی شخصیات کو شہید کرنے کے باوجود الیکشن میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی اب ایسے نظام پر سعودی، اماراتی یا کویتی اگر اعتراض کریں اور الیکشن پر انگلی اٹھائیں جہاں پر استبداد اور ڈکٹیٹر شپ ہے اور امریکیوں کے بٹھائے ہوئے گماشتے حکومت کر رہے ہیں تو ایسی باتوں پر ہنسی آتی ہے، کیونکہ یہ باتیں ساری دنیا میں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ لوگ اب سمجھنے لگے ہیں لہذا ان کے اعتراضات نقش بر آب ثابت ہوں گے اور اس الیکشن یا وہاں کے عوام پر کسی طرح کا اثر ان شاءاللہ نہیں پڑے گا۔
مہر نیوز :آپ اسلامی جمہوریہ ایران میں صدارتی انتخابات اور دوسرے ملکوں میں انتخابات کو کیسے دیکھتے ہیں؟
اسلامی جمہوریہ ایران میں صدراتی انتخابات کے جو معیارات ہیں یا اس کے لیے جو اصول وضع کیے گئے ہیں، اس لحاظ سے اگر ایران کےانتخابات دنیا کے جدید ترین اور ترقی یافتہ ملکوں کے صدارتی انتخابات سے بہت آگے نہیں تو پیچھےہرگز نہیں ہیں۔اگر آپ الیکشن کے لیے وضع شدہ قوانین اور صدارتی امیدواروں کے شرائط اور انکی صلاحیتوں کے حوالے سے دیکھیں تو آپ کو یہ لگے گا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے ایران کے صدارتی انتخاب کا نظام زیادہ بہتر اور مضبوط ہے اور بعض جہات سے دنیا کا کوئی ملک اس نظام کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا۔ اگر امریکہ کے اندر انتخابات ہوتے ہیں تو صدارتی امیدوار مختلف سرمایہ داروں سے پیسے لیتا ہے اور انتخابات میں بے دریغ پیسہ خرچ کرتا ہے ۔ جب وہ صدر بن جاتا ہے تو وہی سرمایہ دار اس صدر کے اختیارات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کرپشن کرتے ہیں اور اپنا پیٹ بھرتے ہیں، لیکن ایران کے اندر ایسے سارے دروازے بند کررکھے ہے لہذا صدارتی امیدواروں کو خود ریاست سپورٹ کرتی ہے، ریاست کے چینلز سپورٹ کرتے ہے اور برابری کی سطح پہ ایک گمنام ترین فرد اور ایک مشہور ترین فرد میں کوئی فرق نہیں رکھاجاتا۔ دونوں کو برابر ٹائم دے کر مناظروں کی صورت میں سوالات کی صورت میں برابری کی سطح پر تشہیر کی جاتی ہے۔ جس سے پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچتا ہے کہ اسی کو عدل اور انصاف کی حکمرانی کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اس اعتبار سے ایرانی صدارتی الیکشن باقی ممالک کے صدارتی انتخابات سے بہت زیادہ بہتر و منصفانہ اور مقبول عام ہے۔
مہر نیوز : ایرانی عوام کے لئے کوئی خاص پیغام؟
ایرانی عوام کے لئے پیغام یہی ہے کہ: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ رہبری اور ولایت فقیہ ہی ایران کی سربلندی کی بنیاد ہے۔ جب تک قوم اس نظرئیے اور اس منصب سے وفادار رہے گی تب تک دنیا بھر کی طاقتیں مل کر بھی اس انقلاب کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ ایرانی قوم نے ماضی میں یہ ثابت کیا ہے اور اس کے بعد بھی انشاءاللہ یہ ثابت کردکھانے کی طاقت رکھتی ہے کہ وہ ولایت کی پیروکار ہے، ولایت فقیہ کو مانتی ہے اور اسلامی نظام کی بقا اور حمایت میں کھڑی ہے۔ یہی ایرانی قوم کا طرہ امتیاز ہے اور اگر اس نے اس امیتاز کی حفاظت کی تو پوری دنیا میں یہ قوم سربلند اور سرافراز رہےگی۔
مہر نیوز : آئندہ آنے والے صدر کے لیے کوئی پیغام؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنے قوم کے لیے درد مند ہو وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے
آئندہ آنے والے صدر کے لیے میرا پیغام یہ ہے کہ گزشتہ چالیس برسوں میں مختلف صدور آئے اور چلے گئے، لیکن جن صدور نے ولایت فقیہ سے اپنا تعلق مراد اورمرید والا بنایا وہ ہمیشہ سرخروبھی رہے اور کامیاب بھی رہے اور اس کی کامیابی میں اضافہ بھی ہوتا رہا ہے۔ اس کے مقابلے میں جن صدور نے اقتدار میں آنے کے بعد اپنے آُپ کو مقتدر سمجھ کر ولایت کے آگے کھڑے ہونے کی اور سینہ تاننے کی کوشش کی وہ بھلا جتنے بھی انقلابی تھے ذلت نے انہیں کہیں کا رہنے نہیں دیا، جس کی متعدد مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایرانی صدر جہاں اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے درد مند ہو وہاں پر وہ امت مسلمہ کے درمیان اتحاد و یکجہتی کے لیے بھی بھرپور جدوجہد کرے، وہ اسلام کی بالادستی اور دین کے بنیادی اقدار اور ویلیوز کی بھی حفاظت کرے اور ساتھ ساتھ ولی فقیہ کا بھی مکمل تابع اور پیرو کار رہے ۔ اگر ایسا ہوا تو کوئی مائی کا لال اس ملک اور اس نظام کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔
آپ کا تبصرہ