10 اپریل، 2025، 5:11 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

نیتن یاہو کا دورہ واشنگٹن، ٹرمپ کی ڈکٹیشن کی بھینٹ چڑھ گیا

نیتن یاہو کا دورہ واشنگٹن، ٹرمپ کی ڈکٹیشن کی بھینٹ چڑھ گیا

صیہونی میڈیا نے نیتن یاہو کے امریکہ کے غیر متوقع دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی ڈکٹیشن کو صیہونی وزیر اعظم کے لئے ایک حیران کن رویہ قرار دیا۔

 مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسرائیلی وزیر اعظم کے دورہ واشنگٹن کی ناکامی کی وجوہات پر صیہونی میڈیا میں بحث چل پڑی ہے۔

جب نیتن یاہو نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کے گرفتاری وارنٹ کو نظرانداز کرتے ہوئے، یورپی یونین کے حکام کے خلاف "طاقت" کا مظاہرہ کرنے کے لیے ہنگری کا سفر کیا تھا، عین اسی وقت امریکی میڈیا نے  اچانک ان کے امریکہ کے غیر متوقع دورے کی خبر دی۔ 

اس سفر کے دوران ایران، غزہ کے مسائل، علاقائی امن، ترکی کو F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت کو روکنے، شام میں اس ملک کے اثر و رسوخ کو روکنے اور میں اسرائیلی اشیا پر عائد ٹیرف پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

 اہم بات یہ ہے کہ نیتن یاہو اور ٹرمپ کی ملاقات کے دوران امریکی صدر   ’’ڈکٹیشن‘‘ کی صورت میں نیتن یاہو پر اپنے مطالبات مسلط کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔

ٹرمپ کا ایرانی جوہری معاملے میں لیبیا ماڈل کو لاگو کرنے سے انکار اور اسرائیل پر عائد ٹیرف میں کمی کو مسترد کرنا نیتن یاہو کے دورہ واشنگٹن کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

نیتن ایران اور امریکہ کے درمیان ممکنہ جوہری مذاکرات نیتن یاہو کے لئے ایک چیلنج ہے جسے روکنے کے لئے سرتوڑ کوشش کی تاہم ٹرمپ نے  مذاکرات سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے صیہونی تجویز مسترد کر دی جو نیتن یاہو کے لئے ایک رسواکن سرپرائز تھا۔

   نیتن یاہو کا واشنگٹن کا دوسرا دورہ

 7 اپریل کو، نیتن یاہو نے ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ بوڈاپیسٹ سے واشنگٹن کا سفر کیا تاکہ امریکی حکام سے براہ راست کچھ اہم دو طرفہ اور علاقائی امور پر بات چیت کی جا سکے۔

 یہ دورہ ایک نازک وقت پر ہوا اور امکان ہے کہ آنے والے مہینوں میں مغربی ایشیا میں جاری پیش رفت پر اس کے اثرات دیکھے جاسکیں گے۔ بنیادی طور پر جب بھی اسرائیلی  وزیر اعظم، وزیر جنگ یا وزیر خارجہ  امریکہ کا سفر کرتے ہیں تو مشرق وسطیٰ اور اس میں موجود علاقائی کرداروں کے لیے ناپسندیدہ واقعات کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔

 نیتن یاہو کا واشنگٹن کا مختصر لیکن متنازعہ دورہ صہیونیوں کی خواہش کے برعکس نتائج دینے لگا ہے۔

غیر یقینی نتائج سے دوچار مذاکرات! 

ٹرمپ کے دور میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے حوالے سے کئی ماڈلز تجویز کئے گئے تاہم برنک مین شپ ماڈل کو اپنایا گیا، جس میں دھمکیوں اور دباؤ بڑھا کر فریق مخالف کو جنگ میں دھکیلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسی پالیسی کا مقصد جنگ تک پہنچنا نہیں ہے، بلکہ "زبردستی" اور "دھمکی" کے عناصر کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے فریق پر سخت شرائط مسلط کرنے کی کوشش ہے۔

تاہم نیتن یاہو ایران کے معاملے میں ایک مختلف ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ انہوں نے امریکی حکام کے ساتھ ملاقات میں، ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے "لیبیا طرز کے مذاکرات " کو پسندیدہ ماڈل قرار دیا۔

ایران کے معاملے میں ناکامی بمقابلہ غزہ کے معاملے میں کامیابی!

 ایران کے معاملے میں نیتن یاہو کی ناکامی کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے غزہ کے مستقبل اور اس پر مکمل قبضے کے معاملے میں نسبتاً کامیابی حاصل کی ہے۔ میکرون، السیسی اور عبداللہ دوم کے درمیان ملاقات کے بعد فرانس، مصر اور اردن کے رہنماؤں نے ٹرمپ کے ساتھ ایک فون کال میں غزہ کی حیثیت کو تبدیل کرنے اور اس کی فلسطینی آبادی کو منتقل کرنے کی مخالفت کا اظہار کیا۔

 اس مخالف نقطہ نظر کے جواب میں، ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ، نیتن یاہو کے ساتھ مل کر، اس پٹی پر مکمل قبضے اور بالآخر اس کے مقبوضہ علاقوں سے الحاق کا ارادہ رکھتے ہیں۔

 یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ اور دیگر اسرائیل نواز ریپبلکنز "گریٹر اسرائیل" کے نظریے کو ایجنڈے میں رکھیں اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے برعکس مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی کے مکمل الحاق کی کوشش کریں۔

 اہم نکتہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں عرب دنیا اور ایران، ترکی اور مصر جیسی فیصلہ کن طاقتوں نے اس مسئلے سے اتفاق نہیں کیا اور دھمکی دی کہ اس طرح کے اقدام سے امریکہ اور صیہونی حکومت کے مفادات کے خلاف ملت اسلامیہ ایک ملک گیر بغاوت کا باعث بن سکتی ہے۔ 

ٹرمپ کا اسرائیل پر اضافی ٹیرف چارج

 مختلف ممالک کے ساتھ غیر ملکی تجارت پر نئے امریکی محصولات کے سرکاری اعلان سے صرف ایک روز قبل، اسرائیلی وزیر خزانہ نے ایک سرکاری بیان جاری کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ ٹرمپ کے دور میں امریکی اشیا کی درآمدات پر محصولات کو صفر فیصد کر دیا گیا ہے۔ اس سے امریکی برآمد کنندگان کے لیے 11 بلین ڈالر کا منافع ہوتا۔ اس فیصلے کے ردعمل میں ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی اقتصادی ٹیم نے نہ صرف اسرائیلی اشیا پر ٹیرف میں کمی نہیں کی بلکہ 17 فیصد ٹیرف کا اعلان کر کے صہیونی سیاست دانوں کو حیران کر دیا۔ 

وائٹ ہاؤس کے اوول آفس میں امریکی اور اسرائیلی رہنماؤں کے درمیان ایک پریس کانفرنس کے دوران، ٹرمپ نے واضح طور پر اسرائیل کو 4 بلین ڈالر کی سالانہ امداد کی بات کی اور اعلان کیا کہ حکومت کی مالی معاونت کی وجہ سے، اس بات کا امکان نہیں ہے کہ اسرائیلی اشیا پر عائد ٹیرف کی سطح میں کوئی تبدیلی کی جائے گی۔ 

ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کے دوران نیتن یاہو کا اداس چہرہ اسرائیل پر عائد ٹیرف کو کم کرنے کے صیہونی منصوبے کی ناکامی کو بیان کرتا ہے۔

اسرائیلی میڈیا کا ردعمل

 نیتن یاہو کے امریکہ کے غیر متوقع دورے کے بارے میں صیہونی میڈیا میں ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا ہے۔

 ٹائمز آف اسرائیل نے نیتن یاہو کی موجودگی میں ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کے باضابطہ اعلان کو  اسرائیلی وزیراعظم کے لیے ذلت آمیز قرار دیا۔

 اسرائیلی اپوزیشن کے سربراہ نیو ڈیموکریسی کے ترجمان Yair Lapid نے کہا کہ یہ ایک اسرائیلی وزیراعظم کے لیے تاریخ کا سب سے ذلت آمیز دورہ تھا، جس کے نتیجے میں لائیو کیمروں کے سامنے اسرائیل کی تذلیل ہوئی اور اسرائیل پر عائد کسٹم ٹیرف میں کمی نہیں ہوئی۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ ٹرمپ نے نیتن یاہو کو صرف ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کیا۔

واشنگٹن اور انقرہ کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے میں نیتن یاہو کی ناکامی۔

 نیتن یاہو اور ٹرمپ کے درمیان زیر بحث ایک اور مسئلہ کو F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت میں ناکامی کے حوالے سے ان کے بیانات پر غور کیا جا سکتا ہے۔

 مڈل ایسٹ آئی کے مطابق، نیتن یاہو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ ترکی کو F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت روک دیں۔ انہوں نے شام میں ترکی کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
تاہم اردگان کے بارے ٹرمپ کے مثبت اور ہمدردانہ بیانات نیتن یاہو پر ناگوار گزرے۔

 امریکی صدر نے اردگان کے بارے میں کہا انہوں نے وہ کام کیا جو 2000 سال میں کسی نے نہیں کیا، انہوں نے شام کا کنٹرول سنبھال لیا! انہوں نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے لیے اپنی آمادگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر نیتن یاہو کو اردگان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے تو اسے حل کرنا چاہیے! اس طرح کے بیانات کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ امریکی صدر وائٹ ہاؤس میں اپنی پہلی مدت کے برعکس، مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے قومی مفادات کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتے ہیں۔

 نتیجہ سخن

آج نسبتاً جس چیز کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ایران اور امریکہ  دو طرفہ تعلقات میں ایک نئے باب کا آغاز کرنے کے درپے ہیں۔ دریں اثنا، اسرائیل اور واشنگٹن میں صیہونی لابی دونوں ملکوں کو براہ راست فوجی تصادم کی طرف لے جانے کی کوشش کر رہی ہے۔

 ایران نے کھلے عام کہا ہے کہ وہ دباؤ اور غیر مساوی حالات میں کبھی بھی مذاکرات کو قبول نہیں کرے گا لیکن وہ تنازعات کے حل کے لیے تیار ہے۔ دوسری جانب ایسا لگتا ہے کہ امریکی حکومت بھی ایران کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے غیر متوقع نتائج کے خدشات کے باعث مذاکرات کی میز یا سفارت کاری کی طرف مائل ہے۔

تاہم کشیدگی کی سطح کو بڑھانے یا کم کرنے کے آپشن کی طرف بڑھنا امریکی فریق کی مرضی پر منحصر ہے۔ دوسرے لفظوں میں گیند امریکی کورٹ میں ہے۔

News ID 1931742

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha