16 اپریل، 2025، 1:50 PM

ترک مبصر کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو:

عمان مذاکرات، تیکنیکی طور پر امریکہ سے زیادہ ایران کی کارکردگی اچھی رہی

عمان مذاکرات، تیکنیکی طور پر امریکہ سے زیادہ ایران کی کارکردگی اچھی رہی

ترک مبصر نے عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایران نے موثر حکمت عملی کے ساتھ مذاکراتی عمل کو آگے بڑھایا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ ہفتے عمان کے دارالحکومت مسقط میں ایرانی اور امریکی وفود کے درمیان ہونے والے بالواسطہ مذاکرات عالمی برادری کی توجہ کا مرکز رہے۔ ایران کے جوہری پروگرام، کشیدگی میں کمی اور پابندیوں کے خاتمے کے ہدف کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں مجموعی طور پر ایران کو امریکہ پر برتری حاصل رہی کیونکہ ایران نے پوری صراحت کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات پر آمادہ نہیں ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ تمام گفتگو صرف ایران کے جوہری پروگرام کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ بین الاقوامی امور کے ماہرین کے مطابق یہ رویہ امریکہ کے مقابلے میں ایران کے مضبوط موقف کو ظاہر کرتا ہے۔

مہر نیوز نے ان مذاکرات کے نتائج کا جائزہ لینے کے مقصد سے بین الاقوامی تعلقات کی ترک خاتون مبصر ڈاکٹر یشیم دمیر کے ساتھ ایک گفتگو کی۔ ذیل میں گفتگو کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے:

مہر نیوز: چونکہ گذشتہ ہفتے ہونے والے مذاکرات کو ایران اور امریکہ دونوں نے مثبت قرار دیا ہے، کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ مذاکرات کے آئندہ ادوار بھی نتیجہ خیز ہوں گے؟ ایرانی ذرائع کا اصرار ہے کہ ایران یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کو کبھی ترک کرنے یا اس کی معطلی کو قبول نہیں کرے گا۔ ان بیانات کی بنیاد پر دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے عمل میں اصل چیلنج کیا ہے؟

یشیم دمیر: عمان میں ہونے والے مذاکرات سابق امریکی صدر باراک اوباما کے دور صدارت کے بعد پہلی براہ راست ملاقات شمار ہوتی ہے۔ اس موقع پر ایران اور امریکہ دونوں نے اعلان کیا ہے کہ جوہری پروگرام سے متعلق گفتگو تعمیری اور مؤثر رہی ہے۔ یہ امر مذاکرات کے مستقبل کے لیے ایک مثبت اشارہ تصور کیا جاسکتا ہے۔ تاہم آئندہ مذاکرات کی کامیابی اس بات پر منحصر ہے کہ دونوں فریق کس حد تک برابری کی بنیاد پر گفتگو اور باہمی مطالبات کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ اس عمل میں اصل چیلنج یہ ہے کہ ایران اپنی یورینیم افزودگی کے پروگرام کو ترک کرنے پر آمادہ نہیں، جبکہ امریکہ اس پروگرام کی مکمل بندش پر اصرار کرتا ہے۔ امریکہ ایران کی جوہری صلاحیت کو محدود کرنا چاہتا ہے۔ بصورت دیگر فوجی کارروائی کے امکان کو بھی زیر غور لانے کا ارادہ رکھتا ہے۔

دوسری طرف ایران اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیاں صرف پرامن مقاصد اور توانائی کی پیداوار کے لیے ہیں، اور وہ یورینیم کی افزودگی کے حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔ لہذا بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا دونوں فریقین جوہری معاملے پر کسی مفاہمت تک پہنچ سکتے ہیں یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے 2018 میں جوہری معاہدے سے یکطرفہ طور پر علیحدگی کے بعد پیدا ہونے والی بداعتمادی نے مذاکرات پر منفی اثر ڈالا ہے۔ وہ اندرونی سیاسی دباؤ جو ٹرمپ حکومت کو کسی معاہدے کے فقدان کی صورت میں درپیش تھے، مذاکرات کے عمل کو مزید پیچیدہ بنا گئے۔

اقتصادی بحران اور بھاری پابندیاں نیز شام میں اسد حکومت کے زوال کے بعد خطے میں ایران کی پوزیشن کی کمزوری جیسی وجوہات نے تہران کو مذاکرات کے سلسلے میں ایک محتاط اور اسٹریٹجک رویہ اپنانے پر مجبور کیا ہے۔ ان عوامل کو دباؤ کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیے جانے کا امکان بھی مذاکرات کی راہ میں ایک اور سنجیدہ رکاوٹ ہے۔ آخرکار دونوں فریقین کو مختصر مدتی فوائد پر توجہ دینے کی بجائے، طویل المدتی استحکام اور تعاون کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔ ایران کو صرف پابندیوں کے خاتمے یا امریکہ و اسرائیل کی فوجی دھمکیوں سے بچنے کو اپنا ہدف نہیں بنانا چاہیے، اور امریکہ کو بھی فوجی دھمکیوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ دھمکی کی زبان کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنا، گفتگو کے عمل کی پیش رفت میں ایک سنجیدہ رکاوٹ ثابت ہوگا۔ لہذا مذاکرات کی کامیابی کے لیے دونوں ممالک کو علاقائی سیکورٹی کے تحفظ اور دو طرفہ تعلقات کی بہتری کی بنیاد پر حقیقت پسندانہ اقدامات اٹھانے چاہییں۔

مہر نیوز: مذاکرات میں دو اہم نکات ہیں: اول، یہ مذاکرات ایران کی درخواست پر بالواسطہ طور پر کیے جا رہے ہیں؛ دوم، گفتگو صرف ایران کے جوہری مسئلے تک محدود جاری رکھی جائے گی۔ بہت سے ماہرین ایران کی ان دونوں درخواستوں کو مذاکرات میں تہران کی برتری کے طور پر دیکھتے ہیں۔ آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟

یشیم دمیر: مذاکرات ایک ایسا عمل ہے جو مسئلہ حل کرنے اور اجتماعی ارادے پر مبنی ہوتا ہے۔ جب دونوں فریقین دھمکی آمیز لہجہ استعمال کریں اور تناؤ کی کیفیت ہو تو عموما براہ راست مذاکرات کی بجائے بالواسطہ مذاکرات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بالواسطہ مذاکرات فریقین کے لیے ایک لچکدار اور سازگار فضا پیدا کرسکتے ہیں تاکہ وہ کسی حل تک پہنچ سکیں۔

ایران اور امریکہ کے درمیان تاریخی تناؤ موجود ہے۔ اس لیے ایران کے نقطہ نظر سے براہ راست مذاکرات کرنا فریق دوم کو امتیاز دینے کے مترادف ہوسکتا ہے جس سے معاشرتی یا سیاسی ردعمل سامنے آسکتا ہے۔ ایران اقتصادی مشکلات کے باوجود امریکہ کے مقابلے میں مزاحمتی موقف اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ مغربی ممالک کے ساتھ تعمیری انداز میں بات چیت کرکے اپنے صلح پسند موقف کو پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی رائے میں یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ ایران مذاکرات میں برتری حاصل کرچکا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ایران نے مذاکرات کے عمل کو کامیاب حکمت عملی کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ تاہم امریکی پابندیاں اب بھی برقرار ہیں اور فریقین کے درمیان بنیادی مسائل پر ابھی تک پائیدار حل سامنے نہیں آیا ہے۔

مہر نیوز: ترکی ان ممالک میں شامل ہے جو ایران کے خلاف پابندیوں کی مخالفت کرتا ہے۔ اس وقت انقرہ کی ایران اور امریکہ کے مذاکرات کے حوالے سے کیا رائے ہے؟ ان مذاکرات کی کامیابی تہران اور انقرہ کے تعلقات پر کیا اثر ڈالے گی؟

یشیم دمیر: انقرہ اپنی خارجہ پالیسی میں ملک اور دنیا میں امن کے اصول کو اپناتے ہوئے ہمیشہ علاقے اور دنیا میں امن کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس سلسلے میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات نہ صرف علاقائی استحکام بلکہ ترکی کی قومی سلامتی کے لیے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ترکی پرامن مقاصد کے لیے جوہری سرگرمیوں کی حمایت کرتا ہے، لیکن جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور پھیلاؤ کے خلاف ہے۔ یہ معاملہ براہ راست ترکی کی سلامتی کے مفادات سے جڑا ہوا ہے۔ دوسری جانب ایران پر عائد اقتصادی پابندیاں ترکی اور ایران کے تجارتی تعلقات پر منفی اثر ڈال رہی ہیں۔ اس لیے ایران اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کی کامیابی نہ صرف علاقائی تنازعات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگی بلکہ ترکی اور ایران کے اقتصادی تعلقات پر بھی مثبت اثر ڈالے گی۔

مہر نیوز: خطے کے موجودہ بحرانوں اور اسرائیل کی ناراضگی کے سایے میں کیا ایران و امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات علاقائی امن کا پیش خیمہ بن سکتے ہیں؟

یشیم دمیر: ایران اور امریکہ کے درمیان جاری مذاکرات ایک جانب امید کی کرن ہیں تو دوسری طرف شدید چیلنجوں سے بھرپور بھی ہے کیونکہ غزہ، لبنان، یمن اور شام میں رونما ہونے والی تازہ تبدیلیوں نے دونوں ملکوں کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کیا ہے۔ یہ وہ عوامل ہیں جو براہ راست مذاکرات کے عمل میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ تاہم ان مذاکرات کے نتیجے میں خطے میں ایک پرامن فضا قائم ہوگی۔ میری نظر میں یہ عمل مکمل طور پر چیلنجنگ ہوگا، اسی وجہ سے فریقین کو چاہیے کہ وہ ان داخلی و بیرونی عناصر سے دور رہیں جو اس عمل کو سبوتاژ کرسکتے ہیں۔

داخلی عوامل کی بات کی جائے تو فریقین کا مفاہمت کی طرف رجحان کسی بھی حل تک پہنچنے کی بنیادی شرط ہے۔ لیکن امریکی صدر کی غیر متوقع سفارتی حکمت عملی ان مذاکرات کو متاثر کرسکتی ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت کی جانب سے ایران کے میزائل پروگرام پر سخت پابندیاں لگانے اور ایران سے خطے میں مزاحمتی گروہوں کی سرپرستی ختم کرنے کے مطالبات ان مذاکرات میں پیچیدگیاں پیدا کرنے والے عوامل میں سے ہیں۔

بیرونی عوامل میں اسرائیل کی ان مذاکرات کے حوالے سے منفی سوچ، ہر قسم کے سمجھوتے کی مخالفت اور ایران کی جوہری تنصیبات کے مکمل خاتمے کا مطالبہ مذاکرات کے عمل کو نہایت دشوار بنا رہا ہے۔ علاوہ ازیں ایک اور بڑی رکاوٹ خلیجی عرب ممالک کی طرف سے مذاکرات کی حمایت کی نوعیت کا غیر واضح ہونا ہے جو اس عمل پر اثرانداز ہو سکتا ہے۔

News ID 1931901

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha