مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی گروپ: ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے ایران کو کمزور کرنے کی کوششیں امریکی صدور کی اولین ترجیح رہی ہیں اور تہران ہمیشہ امریکہ اور صیہونی حکومت کے اہداف کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ رہا ہے۔
امریکی حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ایران کے خلاف کسی بھی فوجی حملے کے واشنگٹن کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے، تاہم وہ مذاکرات کو آگے بڑھانے کے لئے دھونس دھمکی کا سہارا لے رہی ہے۔
اس حوالے سے مہر نیوز کی رپورٹر وردہ سعد نے مغربی ایشیا کے امور کے ماہر ڈاکٹر طلال عتریسی سے گفتگو کی ہے جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے:
مہر نیوز: ایران کے خلاف امریکہ اور صیہونی رژیم کی دھمکیاں اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں، آپ کے خیال میں یہ سلسلہ کہاں تک جائے گا؟
طلال عتریسی: ایران کے خلاف دھمکیوں کی پالیسی اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے آنے والی تمام امریکی حکومتوں نے اپنائی ہے اور یہ دھمکیاں نہ صرف فوجی نوعیت کی ہیں بلکہ بعض اوقات پابندیوں کی شکل بھی اختیار کر چکی ہیں۔
اگرچہ اس حوالے سے امریکہ کے موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اقدامات قدرے مختلف ہیں لیکن ان کا بنیادی مطالبی دیگر امریکی صدرو کے اقدامات سے مختلف نہیں ہے۔ وہ صیہونی رژیم کے گریٹر مڈل ایسٹ کے خواب کو حقیقت بنانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
کیونکہ اسرائیل اکیلا کچھ نہیں کر سکتا اور نہ ہی خطے میں کوئی تبدیلی لا سکتا ہے، غزہ اور لبنان کی جنگیں ظاہر کرتی ہیں کہ تل ابیب کے تمام فیصلے امریکہ کی منظوری اور حمایت سے انجام پاتے ہیں۔
ایران کے خلاف امریکی ممکنہ دباو کی دو صورتیں ہیں: پہلا منظر نامہ یہ ہے کہ مذاکرات ہوں گے، کیونکہ امریکی صدر صرف مالی مفادات اور فوائد کو دیکھتے ہیں اور یہ زیادہ قابل امکان ہے۔
دوسرا منظر نامہ جنگ کا آپشن ہے، جو تمام فریقوں کے لیے مہنگا ہے اور مشرق وسطیٰ کو آگ لگا دے گا، جس سے مادی، اقتصادی اور خاص طور پر پیٹرولیم مارکیٹ کا بڑا نقصان ہو گا۔
اس طرح، میرے خیال میں ٹرمپ پہلے آپشن کا انتخاب کریں گے، اور اگر وہ پہلا آپشن منتخب کرتے ہیں، تو وہ ممکنہ طور پر اپنے سابقہ موقف سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔
مہر نیوز: ایرانی حکام نے جوابی خط میں امریکی صدر کی تجاویز کو کیوں مسترد کیا؟ ان حالات میں تہران براہ راست مذاکرات کو ایک ناقابل قبول مطالبہ کیوں سمجھتا ہے؟ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات میں کیا فرق ہے؟
امریکی خط پر ایران کا ردعمل بالکل واضح تھا، جس میں اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ ایرانی دھمکیوں کے دباؤ میں آکر مذاکرات نہیں کریں گے۔
ایران کی خودمختار پالیسی کا تقاضا ہے کہ وہ کسی بھی طرف سے دھمکیوں کو مسترد کرتے ہیں، خواہ وہ بڑی ریاست ہو یا یورپی یونین یا نیٹو ، لیکن اس کے باوجود، ایرانیوں نے اس خط کے بارے میں سیاسی لچک کا مظاہرہ کیا جسے رہبر انقلاب نے ایک موقع پر "بہادرانہ لچک" قرار دیا تھا۔
ایرانیوں نے جواب میں یہ اعلان کیا کہ وہ کسی بھی خطرے کے پیش نظر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ٹرمپ کو جنگ کے بارے میں سوچنے سے بھی روک سکتے ہیں۔
ایران نے مذاکرات کے خیال کو قبول کیا تاہم اس سلسلے میں دو شرطیں بیان کیں: پہلی یہ کہ مذاکرات میں ایران کی میزائل پاور شامل نہ ہو، نیز، مذاکرات میں ایرانیوں اور خطے میں ان کے اتحادیوں کے درمیان علاقائی تعلقات کو شامل نہیں کرنا چاہیے۔
اگر ان دونوں شرائط کو تسلیم کر لیا جائے تو ایرانی دوسروں پر کوئی چیز مسلط نہ کرتے ہوئے مذاکرات کر سکتے ہیں۔
تیسرے نکتے میں بالواسطہ مذاکرات شامل ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایرانیوں کو امریکہ اور خاص طور پر ٹرمپ انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہے کیونکہ اس انتظامیہ نے 2015 میں طے پانے والے معاہدے کو منسوخ کر دیا تھا۔ بالواسطہ مذاکرات کا مطلب ابتدائی مذاکرات ہیں اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایرانیوں کو اس سلسلے میں کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایران پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی مسائل کے باوجود امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا خواہشمند نہیں ہے۔
ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران دوسرے فریقوں کے ساتھ مذاکرات یا رعایت کرنے میں کوئی جلدی نہیں کرتا۔ یہ براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات کے درمیان بنیادی فرق ہے۔ ہاں، مستقبل میں فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لیے وقت، اعتماد سازی اور اس حقیقت کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہو گی کہ امریکی مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں اور برابری کی بنیاد پر مذاکرات میں شامل ہوں گے۔ اگر ایرانی بالواسطہ مذاکرات میں امریکی سنجیدگی کی تصدیق کرتے ہیں تو پھر وہ اگلے مرحلے میں براہ راست مذاکرات کریں گے۔
مہر نیوز: ایرانی حکام نے پوری قوت اور عزم کے ساتھ امریکی چیلنجوں کا جواب دیا، یہ اس وقت ہے کہ جب ماضی میں ہم نے انہیں اسٹریٹجک مسائل سے نمٹنے میں صبر اور دانشمندی کے ساتھ بات چیت کرتے دیکھا، ایٹم بم بنانے کے امکان کے بارے میں رہبر انقلاب کے مشیر علی لاریجانی کے بیانات شاید امریکی جارحیت کے مقابلے میں ایران کے لیے سب سے چیلنجنگ پوزیشنوں میں سے ایک ہیں۔ اس کے علاوہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈروں نے بھی ملک کے خلاف کسی بھی جارحیت پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ کیا یہ ایک لفظی جنگ ہے یا پھر ایرانی محاذ آرائی کی سطح بلند کرنے کے لئے تیار ہیں؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج ہم علاقائی عدم استحکام کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ شام میں جو کچھ ہوا وہ ان علاقائی پیش رفت کا سب سے اہم موضوع ہے۔ آج شام کی صورت حال غیر مستحکم ہے، اور ترکی اور اسرائیل اور امریکہ کی موجودگی کے درمیان ملک میں تنازعات جاری ہیں جب کہ شام میں جاری صورت حال کے حوالے سے علاقائی ممالک کے تحفظات ہیں۔ عراق اور اردن کے خدشات نے علاقائی صورت حال کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ تنازعہ کئی محاذوں پر جاری ہے، ہر فریق زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
صیہونی حکومت بھی یہی چاہتی ہے، لبنان میں جنگ بندی کے بعد، تل ابیب نے شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کی تاکہ اس ملک کو طاقت حاصل کرنے سے روکا جا سکے اور اسے ایک بار پھر مزاحمتی محور کے لیے مربوط کڑی بننے سے روکا جا سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مزاحمتی محور کے ممالک کو کمزور کرنا امریکہ اور صیہونی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے اور اس محور کے سربراہ کی حیثیت سے ایران ان کی ترجیحات میں سرفہرست ہے۔
شام میں ہونے والے واقعات نے ایران اور مزاحمت کو کمزور کیا ہے اور اس نے اس اہم اسٹریٹیجک پوزیشن کو کھو دیا ہے، لیکن ایران کے مخالف فریقوں کا خیال ہے کہ وہ ایران کے خلاف مزید دباؤ اور دھمکیوں میں اضافہ کر سکتے ہیں، تاکہ شاید ایران علاقائی سطح پر یا اپنے اتحادیوں کی سطح پر کچھ پسپائی اختیار کرے۔
پچھلے 30 سالوں سے ایران کا جوہری پروگرام محاذ آرائی کا سب سے اہم بہانہ رہا ہے، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایران کے ساتھ ان ممالک کا مسئلہ اس کا جوہری پروگرام نہیں ہے۔ بلکہ اس کی وجہ فلسطین کے بارے میں اس ملک کے موقف اور مزاحمتی محور کی تشکیل اور صیہونی رژیم کو علاقائی ممالک سے تسلیم کرنے کی راہ میں ایران کا رکاوٹ بننا ہے۔
ایران آج طاقت کے بہت سے دائرے رکھتا ہے۔ شام میں ایران کی شکست کا مطلب یہ نہیں کہ ایران کمزور ہو گیا ہے۔ ایران نے بیرونی طاقت کا ایک بازو کھو دیا ہے لیکن اندرونی طاقت کی سطح پر وہ پہلے کی طرح برقرار ہے اور اس نے اپنے ہتھیاروں، میزائلوں اور تکنیکی طاقت سے پردہ اٹھایا ہے۔ ایرانی اپنے جوہری ڈھانچے کو تبدیل کرنے کی دھمکی دینے کی طاقت رکھتے ہیں اور فطری طور پر یہ صیہونی حکومت کے لیے تشویش کا باعث ہے کیونکہ حکومت جانتی ہے کہ ایران کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کا مطلب اس علاقے میں اسرائیل کی طاقت کا عبرت ناک خاتمہ ہوگا۔
ایرانیوں نے ان تمام خطرات کو استعمال کیا ہے اور سیاسی شخصیات جیسے علی لاریجانی اور سابق ایرانی وزیر خارجہ کمال خرازی کا موقف اس طاقت کے اظہار کی ایک شکل ہے جو دشمن کو کسی بھی جارحیت کی سوچ سے باز رکھتا ہے۔
مہر نیوز : موجودہ حالات کی روشنی میں، آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا ٹرمپ انتظامیہ ایران کی بالواسطہ مذاکرات کی پیشکش کو قبول کر لے گی؟ ٹرمپ کو ہٹ دھرمی سے کیسے روکا جاسکتا ہے کہ جو ایران کے خلاف فوجی آپشن کے صیہونی بہکاوے میں آگیا ہے؟
ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے پیغام کے بعد بعض شائع شدہ معلومات سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ معاملات بالواسطہ مذاکرات کی طرف بڑھ رہے ہیں اور امریکی صدر بھی اس معاملے سے متفق ہیں۔ فطری طور پر یہ مسئلہ خطے اور دنیا کے لئے ٹرمپ کی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اس طرح بالواسطہ مذاکرات زیادہ تر عمان میں ہوں گے کیونکہ ایران نے اس سلسلے میں عمان کی ثالثی کی تجویز پیش کی ہے۔ جب یہ مذاکرات شروع ہوں گے، جو غالباً طویل عرصے تک جاری رہیں گے، تو صیہونی حکومت دنگ رہ جائے گی۔ یہ ایک اہم نکتہ ہے، کیونکہ اسرائیلی وزیر اعظم جسے ہیگ ٹربیونل نے جنگی مجرم قرار دیا ہے، جنگی منظر نامے کی تلاش میں ہیں اور وہ امریکہ کو ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹنا چاہتے ہیں، کیونکہ وہ تنہا اس منظر نامے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ لہٰذا، اگر ٹرمپ انتظامیہ ایران کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کرتی ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ جنگ کا آپشن کم از کم مختصر مدت کےبلئے ترک کر دیا گیا ہے، اور مذاکرات جتنے طویل ہوں یہ معاملہ بھی اتنا ہی لمبا جائے گا۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ آنے والے ہفتوں میں بالواسطہ مذاکرات شروع ہوں گے اور غالباً اس میں کافی وقت لگے گا، کیونکہ اس میں پیچیدہ معاملات سر اٹھائیں گے۔
سب سے پہلے، کم از کم امریکی حکومت پر اعتماد پیدا کرنا ہوگا، کیونکہ ایران کو موجودہ امریکی حکومت پر کوئی بھروسہ نہیں ہے۔
مہر نیوز: پڑوسی حکومتیں ایران اور امریکہ کے درمیان فوجی تصادم کے امکان پر تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ آپ کے خیال میں متعلقہ ایرانی حکام کے حوالے سے ان ممالک کا موقف کیا ہوگا، اور ان حکومتوں اور عالمی معیشت پر خطے میں کسی بھی بڑی جنگ کے اثرات کیا ہوں گے؟
ایران کی ہمسایہ حکومتوں اور علاقائی ممالک کا امریکہ اور ایران کے درمیان کسی بھی ممکنہ جنگ کے بارے میں فکر مند ہونا فطری ہے، اور ٹرمپ انتظامیہ کی ایران کے خلاف کسی بھی جارحیت کے بارے میں ان کی تشویش یہ ہے کہ اس طرح کی جارحیت کا ردعمل صرف امریکی اڈوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ صیہونی حکومت کو بھی نشانہ بنایا جائے گا اور یہ بالکل واضح ہے، کیونکہ اگر ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کیا جاتا ہے تو پھر اس کے ردعمل میں تل ابیب کو نشانہ بنایا جائے گا، جس سے امریکی اور مغربی حکومتوں کو مزید زک پہنچے گی۔ ایسی کارروائیوں کا اثر امریکی فوجی اڈوں پر حملے سے زیادہ ہوتا ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ایران نے اردن، سعودی عرب، قطر وغیرہ سمیت تمام علاقائی حکومتوں کو پیغامات بھیجے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اگر ان ممالک کے فوجی اڈے یا فضائی حدود ایران پر ممکنہ امریکی حملوں میں استعمال ہوتی ہیں تو یہ ممالک بھی ایران کے خلاف جارحیت میں شراکت دار تصور کئے جائیں گے اور یہ حکومتیں اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں کر سکتیں اور اگر وہ اس جنگ میں شامل ہوئیں تو انہیں بھاری قیمت چکانی پڑے گی اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔
اسی وجہ سے مذکورہ حکومتیں موجودہ صورت حال پر تشویش میں مبتلا ہیں اور خدشہ رکھتی ہیں کہ مستقبل میں ہونے والی ممکنہ جنگ ان کے تیل کے کنوؤں کو آگ لگا دے گی اور یہ سب جنگ چھڑنے کے نتیجے میں ممکن ہے۔
میرے خیال میں یہ تشویش بجا ہے اور ان حکومتوں کو امریکہ کو اس طرح کے حملے کے لیے اپنے اڈے، زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے سے روکنے کی بھرپور کوشش کرنی چاہیے۔
میرا خیال ہے کہ یہ ممالک امریکہ کی طرف سے بالواسطہ مذاکرات کی منظوری کے حوالے سے اٹھائے گئے اشاروں کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ان شرائط سے مطمئن ہیں، کیونکہ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے مذاکرات خطے سے جنگ کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔
امریکہ کو خطے میں کسی بھی جارحیت سے روکنا ان ممالک کے مفاد میں ہے۔
اس وقت پڑوسی ممالک اور ایران کے درمیان علاقائی استحکام کو مضبوط کرنے اور ان ممالک کے اندرونی معاملات میں براہ راست امریکی مداخلت کو روکنے کا بہترین موقع ہے۔
آپ کا تبصرہ