12 اپریل، 2025، 8:46 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

عمان میں مذاکرات کا اسٹیج تیار، ایران کا پلڑا بھاری

عمان میں مذاکرات کا اسٹیج تیار، ایران کا پلڑا بھاری

ایران اور امریکہ کے درمیان عمان میں بالواسطہ مذاکرات شروع ہورہے ہیں۔ ماضی میں امریکہ کی جانب سے معاہدوں کی خلاف ورزی اور غیر سنجیدہ موقف اختیار کرنے کی وجہ سے اخلاقی اور سفارتی سطح پر ایران کا پلڑا بھاری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: امریکی صدر کی جانب سے گذشتہ پیر کی شب وائٹ ہاؤس میں اچانک اعلان نے ایران اور امریکہ کے درمیان معاملات کو ایک نئی سمت میں دھکیل دیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ، جو اس موقع پر اسرائیلی وزیراعظم کی میزبانی کر رہے تھے، نے کہا کہ ہفتے کے روز امریکہ اور ایران کے مابین ایک اہم اور اعلی سطحی نشست منعقد کی جائے گی۔ صدر ٹرمپ نے اپنی روایتی زبان میں ایک بار پھر دعوی دہرایا کہ اگرچہ معاہدہ ایران کے لیے سودمند ہوگا، لیکن اگر بات چیت ناکام ہوئی تو ایران کو سنگین نتائج بھگتنا ہوں گے۔

دوسری جانب ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے الجزائر کے دورے کے دوران سوشل میڈیا پر بیان دیا کہ ایران اور امریکہ کے درمیان اعلی سطحی اور بالواسطہ بات چیت ہفتے کے روز عمان میں ہوگی۔ یہ ایک موقع بھی ہے اور ایک آزمائش بھی۔ گیند اب امریکہ کے کورٹ میں ہے۔

بعد ازاں موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں ایران کی نمائندگی سید عباس عراقچی کریں گے، جب کہ امریکہ کی جانب سے مغربی ایشیا کے لیے صدر ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکاف شرکت کریں گے۔

ٹرمپ کے اس بیان کے فورا بعد ذرائع ابلاغ میں تجزیوں، قیاس آرائیوں اور تبصروں کا طوفان آگیا۔ مغربی ذرائع ابلاغ اور ایران مخالف گروہ بھرپور انداز میں سرگرم ہوئے اور مختلف مواد شائع کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ اسلامی جمہوری ایران نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر اپنے پرانے مؤقف سے پیچھے ہٹتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کا دباؤ قبول کرلیا ہے۔

صدر ٹرمپ کو سرپرائز دینے کا شوق کیوں ہے؟

ایران کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کا پیر کی شب کیا گیا اچانک اعلان کوئی نیا طرز عمل نہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ اسی انداز میں اچانک ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ دعوی کرچکے ہیں کہ انہوں نے ایران کو خط لکھا ہے اور مذاکرات کی خواہش ظاہر کی ہے۔ یہ خط کئی دن بعد ایران کو موصول ہوا۔ اہم اور حساس معاملات میں یہ طرز عمل سفارتی روایات کے برخلاف سمجھا جاتا ہے۔ عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے کلاسیکی اصولوں کے مطابق اس طرح کی غیر متوقع پیشکشیں غیر معمولی سمجھی جاتی ہیں۔ لیکن ٹرمپ نے ہمیشہ کوشش کی ہے کہ وہ دوسروں سے مختلف نظر آئیں اور روایتی ذرائع سے ہٹ کر خود براہ راست میدان میں آکر معاملات کو کنٹرول کریں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ رویہ محض ایک انفرادی انداز نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی کا حصہ ہے، جس کا مقصد عالمی رائے عامہ اور بالخصوص ایرانی عوام پر اثرانداز ہونا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر نے اس قسم کے اقدامات کو سادہ لوحی سے قبول نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ یہ جو امریکی صدر کہتے ہیں کہ ہم ایران سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور خط بھیجنے کا دعوی کرتے ہیں جو ہمیں تو موصول نہیں ہوا، میری نظر میں یہ عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینے کی کوشش ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم مذاکرات چاہتے ہیں، ہم امن چاہتے ہیں، لیکن ایران بات نہیں کرنا چاہتا۔

ٹرمپ کا حالیہ بیان بھی اسی منصوبے کی کڑی ہے، جس کے ذریعے وہ دنیا اور ایران کے اندر یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ امریکہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے، جبکہ اسلامی جمہوری ایران مذاکرات سے فرار اختیار کررہا ہے۔

بالواسطہ مذاکرات پر ایران کی رضامندی دباؤ کے آگے جھکاؤ یا سیاسی تدبیر؟

صدر ٹرمپ کے پیر کی شب دیے گئے بیان کے چند ہی گھنٹوں بعد ایران مخالف میڈیا نے ایک نئی مہم چھیڑ دی کہ اسلامی جمہوری ایران نے ٹرمپ حکومت کے دباؤ اور دھمکیوں کے آگے جھک کر مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ امریکی وزیر خارجہ کے حالیہ مؤقف کو بھی اسی زاویے سے دیکھا جارہا ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ ایران نے امریکہ کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات پر کیوں آمادگی ظاہر کی؟

امریکی اقدامات کا تجزیہ کیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ وہ جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ہمیشہ 2015 کے جوہری معاہدے سے وسیع تر معاہدے کے درپے رہا ہے۔ بالواسطہ مذاکرات کی شکل میں جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششیں پچھلے چند سالوں سے جاری رہی ہیں۔ خواہ وہ صدر حسن روحانی کا دور ہو یا شہید ابراہیم رئیسی کی حکومت ہو۔ اسلامی جمہوری ایران نے ان مذاکرات سے پیچھے ہٹنے کا کبھی ارادہ ظاہر نہیں کیا۔ اصل رکاوٹ ہمیشہ امریکہ کی من مانی اور نامعقول مطالبات رہے ہیں، جن میں جوہری معاہدے سے باہر کے موضوعات کو شامل کیا گیا ہے۔

جنوری 2025 میں جب ٹرمپ دوبارہ وائٹ ہاؤس پہنچے تو انہوں نے ایران سے متعلق ایک باضابطہ دستاویز پر دستخط کیے جس میں ایران پر روایتی الزامات کی فہرست پیش کی گئی، جن میں ایران کی جوہری سرگرمیاں، دفاعی صلاحیت، اور خطے میں اس کی فعالیت شامل تھی۔

ایسے میں عقل و منطق یہی تقاضا کرتی ہے کہ ایران دشمن کے سامنے جھکنے یا نام نہاد مذاکرات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے مضبوطی سے ڈٹ جائے۔ تاہم حالات اُس وقت بدلے جب ٹرمپ اپنے خط میں کچھ نرم لہجہ اختیار کیا۔ ایسا لہجہ اختیار کیا گیا کہ مذاکرات کو جوہری مسئلے تک محدود کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی طرف سے یہ بھرپور کوشش بھی کی گئی کہ دنیا کی رائے عامہ اور خود ایرانی عوام کو یہ باور کروایا جائے کہ موجودہ کشیدگی کا ذمہ دار ایران ہے، اور امریکہ تو صرف مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔

ان حالات میں اسلامی جمہوری ایران نے اس خط کا جواب دینے کا فیصلہ کیا۔ یہ جواب دوہرا پیغام رکھتا تھا:

1) مذاکرات صرف بالواسطہ طرز پر اور صرف جوہری مسئلے پر ہوں گے؛

2) ایران نہ تو دھمکیوں سے مرعوب ہوتا ہے، نہ کسی فریب میں آتا ہے۔

پس، بالواسطہ مذاکرات کی منظوری نہ تو کمزوری کی علامت ہے اور نہ پسپائی کی۔ یہ ایک معقول حکمت عملی پر مبنی اقدام ہے جس کا مقصد دنیا کو ایران کی سنجیدگی دکھانے کے ساتھ ساتھ امریکہ کے دباؤ اور دوغلے پن کا بھی پردہ چاک کرنا ہے۔

مذاکرات اور ایران کی مضبوط پوزیشن

اگرچہ امریکی حکام اور میڈیا اس تاثر کو اجاگر کر رہے ہیں کہ واشنگٹن اس تازہ سفارتی کشمکش میں فرنٹ فٹ پر ہے، لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ اس وقت برتری ایران کے پاس ہے۔ یہ برتری کم از کم تین بنیادی نکات میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے:

1) مذاکرات کا صرف جوہری معاملے تک محدود رہنا

2) مقام کا تعین (یعنی عمان میں)

3) مذاکرات کا بالواسطہ ہونا۔

یہ درست ہے کہ امریکہ نے مذاکرات کے دائرے کو جوہری مسئلے تک محدود کرنے میں کچھ لچک دکھائی ہے، لیکن اس پر خوش فہمی کا شکار ہونا خطرناک ہوگا۔ امریکہ جھوٹ اور وعدہ خلافی کی پرانی عادت رکھتا ہے۔ ماضی میں بارہا دیکھا گیا ہے کہ واشنگٹن نے معاہدے کے بیچ میں نئی شرائط اور غیر متعلقہ مطالبات پیش کیے ہیں—خواہ وہ ایران کا دفاعی نظام ہو یا علاقائی پالیسی۔

بالواسطہ مذاکرات کی نوعیت ایران کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ اگر ایسی کوئی شرط سامنے آئے تو کم سے کم قیمت پر مذاکرات سے علیحدگی ممکن ہو۔ صدر ٹرمپ اور دیگر امریکی حکام کی میڈیا مہم کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ایران کو براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنا چاہتے ہیں جبکہ وہ خود پہلے ہی براہ راست مذاکرات پر رضامند ہوچکے ہیں۔

دو بنیادی انتباہات

یہ حقیقت کہ ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات عمان میں شروع ہو رہے ہیں، اس وقت ایران کے لیے یہ ایک نسبی کامیابی ہے، لیکن دو اہم نکات پر پوری سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی:

1) دشمن کی عادت پر نظر

تاریخ گواہ ہے کہ امریکی حکام ایک استکباری ذہنیت کے ساتھ مذاکرات کرتے ہیں اور کبھی بھی منصفانہ معاہدے پر دل سے آمادہ نہیں ہوتے۔ لہذا کسی بھی قسم کی خوش فہمی یا جوشیلے ردعمل سے مکمل گریز ضروری ہے، خواہ وہ حکومتی سطح پر ہو یا میڈیا اور عوامی سطح پر۔ یہ جذبات دشمن کو غلط پیغام دیتے ہیں اور ایرانی مذاکراتی ٹیم کو غیر ضروری دباؤ میں ڈال سکتے ہیں۔

2) معیشت کی بہتری کا واحد راستہ بیرونی معاہدہ نہیں

اگر مستقبل میں کوئی معاہدہ ہو بھی جائے، تو یہ ماننا کہ وہ ایران کی اقتصادی مشکلات کا حل ہوگا، ایک خام خیالی ہے۔ ایران کی معیشت کی بحالی صرف اس وقت ممکن ہے جب اندرونی سطح پر عوامی اشتراک سے سنجیدہ کوششیں ہوں۔ ماضی کی غلطیوں نے ملک کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ آج ان غلطیوں کو دہرانا کسی طور بھی دانشمندانہ نہیں ہوگا۔ 

صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے میڈیا اور رائے عامہ کو ایک اہم ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اب جب کہ عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا آغاز ہورہے ہیں، یہ نفسیاتی اور میڈیا وار شدت اختیار کرے گی۔ ایسے میں ایرانی حکام پر لازم ہے کہ وہ محض ردعمل دینے والے فریق نہ بنیں، بلکہ بصیرت، جرأت اور تخلیقی حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اتریں۔ انہیں چاہیے کہ نہ صرف دشمن کی چالوں کو ناکام بنائیں بلکہ خود میڈیا بیانیے کے معمار بن کر سامنے آئیں۔

یہاں عوام کی بصیرت بھی انتہائی اہم ہے۔ ایرانی قوم کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ حکومت، خاص طور پر مذاکراتی ٹیم ایک نہایت حساس اور پیچیدہ صورت حال سے دوچار ہے۔ دشمن بھرپور کوشش کرے گا کہ عوام کو حکومت اور مذاکراتی عمل سے بدظن کیا جائے اور شکوک و شبہات کو فروغ دے کر اندرونی اتحاد کو نقصان پہنچایا جائے۔ اگر اس حساس موقع پر شعور اور بصیرت کا مظاہرہ نہ کیا جائے تو دشمن آسانی کے ساتھ حالات کا رخ اپنی جانب موڑ لے گا۔

News ID 1931778

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha