13 اپریل، 2025، 10:03 AM

عرب مبصر کی مہر نیوز کے لیے خصوصی تحریر:

مسقط مذاکرات، ٹرمپ کا امتحان اور ایران کی برتری

مسقط مذاکرات، ٹرمپ کا امتحان اور ایران کی برتری

اس وقت دنیا کی نظریں مسقط پر لگی ہوئی ہیں کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کون سا نیا معاہدہ یا قدم اٹھاتے ہیں؟ البتہ ایک بات طے ہے کہ ایران اپنی خودمختاری پر سودے بازی کرتا ہے اور نہ اپنے قانونی حقوق سے دستبردار ہوتا ہے۔

مہر خبر رساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران اور امریکہ کے درمیان عمان کے دارالحکومت مسقط میں ہونے والے بالواسطہ مذاکرات محض ایک معمولی سفارتی عمل نہیں بلکہ یہ ایک اہم سنگ میل اور سیاسی آزمائش کی حیثیت رکھتے ہیں، خاص طور پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے۔ موجودہ علاقائی اور بین الاقوامی کشیدگی، بالخصوص طوفان الاقصی کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال میں ایران نے خود کو نہ صرف ایک ذمہ دار علاقائی طاقت کے طور پر پیش کیا ہے بلکہ اس نے اپنی خودمختاری، وقار اور پرامن تعمیری کردار کو دنیا پر واضح کیا ہے۔

پابندیوں اور دباؤ کے باوجود ایران نے ٹیکنالوجی، بالخصوص پرامن ایٹمی توانائی کے شعبے میں ترقی کا سفر جاری رکھا ہے۔ مسقط میں ہونے والے مذاکرات اسی کا تسلسل ہے۔ مسقط مذاکرات محض جوہری معاملے کی جزئیات پر گفتگو نہیں بلکہ درحقیقت یہ ایک امتحان ہے کہ کیا ڈونلڈ ٹرمپ، جو یکطرفہ طور پر 2015 کے جوہری معاہدے سے نکل گئے تھے، اب دوبارہ طاقت کی زبان کے بجائے مذاکرات اور احترام کی بنیاد پر بات کرنے کو تیار ہیں؟

اس موقع پر عمان ہمیشہ کی طرح ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر سامنے آیا۔ عمان نے یہ ثابت کیا ہے کہ پائیدار حل دھمکیوں اور پابندیوں سے نہیں بلکہ صرف اور صرف مذاکرات اور افہام و تفہیم سے ممکن ہے۔ ایران ان مذاکرات کو جنگ سے بچنے کی مجبوری نہیں سمجھتا بلکہ اسے ایک موقع سمجھتا ہے کہ وہ دنیا کو دکھا سکے کہ جوہری توانائی کا پرامن استعمال اس کا قانونی اور اخلاقی حق ہے، جیسا کہ این پی ٹی میں تسلیم کیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ تمام غیر جوہری ممالک کو حق دیتا ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی حاصل کرسکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق، ایران اور امریکہ کے درمیان حالیہ مذاکرات سے متعلق افشا شدہ اطلاعات ظاہر کرتی ہیں کہ اس مرحلے کا اصل ہدف ایک عبوری یا ابتدائی معاہدے تک پہنچنا ہے تاکہ مستقبل میں وسیع تر گفت و شنید کے لیے حالات سازگار کئے جاسکیں۔ ایران کا مؤقف ہے کہ وہ دو ماہ کی مہلت جو صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مقرر کی ہے، کسی جامع اور پیچیدہ معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے ناکافی ہے مگر یہ کہ امریکہ سابق معاہدے کی طرف واپس لوٹے۔ اسی لیے تہران ایسی عبوری حکمت عملی تلاش کررہا ہے جو جامع حل کے دروازے کھلے رکھے اور اپنے اصولی حقوق سے بھی دستبردار نہ ہو۔

صدر ٹرمپ کا یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے انخلا ایران کے خلاف دباؤ کی پالیسی کا باقاعدہ آغاز تھا، جسے امریکہ نے اسرائیل اور بعض علاقائی حکومتوں کی حمایت سے آگے بڑھایا۔ تاہم واشنگٹن نے ایران کی مزاحمت اور ثابت قدمی کو درست طور پر نہ سمجھا۔ ایک ایسا ملک جس نے نہ صرف پسپائی اختیار نہیں کی بلکہ اپنے پرامن جوہری پروگرام کو ترقی دی، یورینیم کی افزودگی کی سطح میں اضافہ کیا، اور زیادہ خود اعتمادی کے ساتھ مذاکرات کی میز پر واپس آیا۔

صدر ٹرمپ اب بھی اس وہم میں ہیں کہ خطے میں فوجی سرگرمیوں اور دھمکی آمیز بیانات کے ذریعے ایران کو جھکایا جاسکتا ہے لیکن عملی تجربہ بتاتا ہے کہ جتنا دباؤ بڑھتا ہے، ایران اتنا ہی مضبوطی سے کھڑا ہوتا ہے۔ اسی لیے ایران نے مذاکرات کے لیے واضح شرائط مقرر کی ہیں۔ جو تناؤ ٹرمپ اور ان کے حامی بڑھارہے ہیں، وہ نہ صرف بے نتیجہ ہے بلکہ پورے خطے کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ کسی بھی قسم کی فوجی مہم جوئی اس وقت ایک بڑی تباہی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے، جس کی لپیٹ سے کوئی بھی ملک محفوظ نہیں رہے گا۔ صہیونی حکومت کی اشتعال انگیزی اور غزہ، لبنان اور شام میں جنگی محاذ گرم کرنے کی کوششیں بھی اسی تناؤ کا حصہ ہیں۔ اس کے برعکس ایران نے ایک پختہ اور متوازن سیاسی و سفارتی رویہ اپنایا ہے۔ عالمی اداروں کی نگرانی کے حوالے سے شفاف طرز عمل، مختلف ثالثی و سفارتی اقدامات سے تعاون اور اپنے جوہری پروگرام کی پرامن نوعیت پر مسلسل اصرار۔ یہ سب عالمی برادری کے لیے واضح پیغام ہیں کہ ایران، مذاکرات کا مخالف نہیں بلکہ حامی ہے۔

اقتصادی حوالے سے بھی ایران بخوبی آگاہ ہے کہ پرامن ایٹمی توانائی، آج کے دور میں پائیدار ترقی کا ستون بن چکی ہے، خصوصاً ایسے حالات میں جب روایتی توانائی کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ اسی لیے ایران کے لیے جوہری ٹیکنالوجی کا حصول ایک قومی ضرورت ہے۔ روزگار کی فراہمی، طبی اور صنعتی شعبوں کی ترقی اور عالمی سائنسی انقلاب میں مؤثر طریقے سے حصہ لینے کے لیے جوہری ٹیکنالوجی ناگزیر ہے۔

ایرانی حکام کا ماننا ہے کہ خطے میں استحکام ہتھیاروں کی دوڑ یا سیاسی جبر سے نہیں، بلکہ ملکی خودمختاری کے احترام اور داخلی امور میں عدم مداخلت کے اصول پر مبنی تعاون کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایران جوہری معاہدے کو اس سمت ایک اہم قدم سمجھتا ہے، جس کا مقصد علاقائی سلامتی کے اجتماعی نظام کی تشکیل ہے۔

مسقط مذاکرات ایران کے لیے صرف ایک فنی معاملہ نہیں بلکہ ایک وسیع تر عالمی جدوجہد کا مظہر ہیں؛ ایک طرف وہ قوتیں ہیں جو دنیا پر تسلط اور برتری کے زعم میں بین الاقوامی نظام کو اپنے تابع بنانا چاہتی ہیں، اور دوسری جانب ایران جیسی اقوام ہیں جو بین الاقوامی قانون اور عالمی اقوام کے جائز حقوق پر مبنی توازن کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ یہی نقطہ ٹرمپ کے سوداگرانہ رویے اور ایران کے اصولی مؤقف کے درمیان بنیادی فرق کو اجاگر کرتا ہے۔

ایران کا مؤقف کسی بھی قسم کی ضد یا انکار پر مبنی نہیں، بلکہ وہ ایک منصفانہ، جامع اور قابل عمل معاہدے کے لیے آمادہ ہے۔ بین‌الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی گواہی کے مطابق ایران نے سابق معاہدے کی تمام شقوں پر عمل کیا۔ درحقیقت اس معاہدے کو امریکہ نے توڑا۔ اس لیے کسی بھی نئے معاہدے میں حقیقی اور قابل اعتبار ضمانتوں کی شمولیت ناگزیر ہے، تاکہ کوئی نئی امریکی حکومت دوبارہ وعدہ خلافی نہ کرے۔

موجودہ صورت حال یہ ظاہر کرتی ہے کہ جنگ کا راستہ کسی بھی فریق کے لیے کامیابی کا باعث نہیں بنے گا، بلکہ اس سے عالمی سطح پر اتحاد ٹوٹے گا، سیکورٹی خلا پیدا ہوں گے اور پورا خطہ عدم استحکام کا شکار ہوگا۔ اس کے برعکس اگرچہ مذاکرات دشوار ہیں، مگر اس سے امید کی ایک کھڑکی کھلتی ہے بشرطیکہ وہ عزت نفس اور باہمی احترام پر مبنی ہوں۔

اس وقت دنیا کی نظریں مسقط پر لگی ہیں۔ کیا ڈونلڈ ٹرمپ سابق معاہدے سے بلاجواز انخلا کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ ہوں گے؟ یا وہ ایسا نیا معاہدہ مسلط کرنا چاہتے ہیں جو صرف ان کے معاشی مفادات کو تحفظ دے، چاہے اس کے لیے بین الاقوامی اصولوں کو روندنا پڑے؟ اس سوال کا جواب ابھی واضح نہیں، لیکن ایک بات طے ہے کہ ایران اپنی خودمختاری پر نہ سودے بازی کرتا ہے اور نہ اپنے قانونی حقوق سے دستبردار ہوتا ہے۔ مسقط مذاکرات نہ صرف ایران کی سیاسی برتری کا اظہار ہیں، بلکہ ٹرمپ کے لیے ایک حقیقی امتحان بھی ہیں: کیا وہ نئی حقیقتوں کو تسلیم کرنے کی سیاسی جرات رکھتے ہیں؟ یا وہ اپنی ضد اور جبر کے راستے پر ڈٹے رہیں گے؟

News ID 1931815

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha