مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد: صیہونی رژیم غزہ کی پٹی کے خلاف فوجی کارروائیوں کے ذریعے ایک نئے منصوبے کے درپے ہے۔ نیتن یاہو نے اپنی نئی حکمت عملی میں موراگ محور کو کنٹرول کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔ موراگ راہداری غزہ کی پٹی کے مغرب میں سمندر کے کنارے سے شروع ہو کر مشرق کی جانب صوفا کراسنگ تک جاتی ہے۔ موراگ کوریڈور کا آپریشنل ہونا خان یونس کی رفح سے علیحدگی کا باعث بنے گا۔ جس کے نتائج غزہ کے باشندوں کے لیے مزید نازک صورت حال کا باعث ہوں گے۔
موراگ رہداری پر صیہونیوں کا قبضہ نیتساریم محور پر کنٹرول کے مترادف ہے۔ وہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے پہلے مرحلے کے دوران نیتساریم محور سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن جنگ انہوں نے اس پر دوبارہ قبضہ کر لیا ہے۔
اس حوالے سے مہر نے بین الاقوامی امور کے ماہر اشکان مومبینی سے گفتگو کی ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
مہر نیوز: 12 کلومیٹر طویل موراگ راہداری 2005 سے قبل مقبوضہ صہیونی بستی تھی، جب اسرائیلی حکومت غزہ کی پٹی سے انخلاء کر چکی تھی۔ براہ کرم وضاحت کریں کہ موراگ کوریڈور کا جغرافیائی محل وقوع کیا ہے؟ کہ صیہونی حکومت نے غزہ کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے کے فوراً بعد اس علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا؟
موراگ کوریڈور فلاڈیلفیا راہداری کے متوازی ہے۔ فلاڈیلفیا 14 کلومیٹر جب کہ موراگ کا محور 12 کلومیٹر ہے۔ پناہ گزینوں کے کیمپ موراگ کے قرب و جوار میں واقع ہیں۔ موراگ راہداری اسرائیلی حکومت کے لیے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ قابض فوج اسے حاصل کرکے رفح کے علاقے کو بفر زون میں شامل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ انسانی امداد اور ہتھیاروں کی منتقلی کو روک سکے، اس کا اثر رفح کے رہائشیوں پر بھی پڑے گا۔ درحقیقت صیہونی حکومت غزہ کی پٹی اور رفح کو فلسطینی باشندوں کے لیے ناقابل رہائش بنانا چاہتی ہے تاکہ اس پٹی کے باشندے غزہ چھوڑ کر مصر یا اردن جانے پر مجبور ہو جائیں۔
مہر نیوز: اسرائیلی حکومت نے موراگ کوریڈور کے کتنے حصے پر قبضہ کیا ہے؟ اگر وہ موراگ کوریڈور پر کنٹرول حاصل کر لیتی ہے تو کیا ہو گا؟ غزہ کی پٹی کا کیا ہوگا؟
موراگ کوریڈور کے پانچ سے سات کلومیٹر تک اسرائیلی حکومت نے قبضہ کر رکھا ہے اور وہ اس محور کی بنیاد پر خان یونس کو رفح سے الگ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ تاکہ رفح کے رہائشیوں پر دباؤ ڈال سکے کہ وہ اسے بفر زون سے جوڑ دیں۔
مہر نیوز: میدانی لحاظ سے آپ کا کیا خیال ہے؟
غزہ کے خلاف جنگ کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے، مزاحمت اسرائیلی فوج کے ساتھ تصادم میں داخل نہیں ہوئی ہے، جب کہ صیہونیوں نے بمباری کر کے ایک نیا زون تشکیل دیا ہے۔
مزاحمتی محور نے ہمیشہ مخصوص حکمت عملیاں اپنائی ہیں۔ شہادتوں کو کم کرنا اور غزہ کی پٹی میں شہریوں کو شامل نہ کرنا حماس کے لیے اہم ہے۔
دوسری طرف، نیتن یاہو چوبیس گھنٹے بم دھماکوں اور خیموں پر حملوں سے جنگ کو بڑھانا چاہتا ہے۔ فلسطینی مزاحمت جوابی میں چھاپہ مار کاروائی کے موقع کا انتظار کر رہی ہے۔ قابض فوج نے حماس کو تباہ کرنے کا دعویٰ کیا تھا لیکن غزہ میں قیدیوں کی رہائی کے دن حماس کی بڑی تعداد نیتن یاہو کے سامنے ظاہر ہوئی۔ حماس بھی ارکان بھرتی کرتی رہی ہے۔ حماس کی بھرتی فلسطینیوں میں اس اسلامی مزاحمتی گروپ کی مقبولیت کی عکاسی کرتی ہے۔ صیہونی حکومت جو حماس کی سرنگوں کو تباہ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی، اس مقصد کو بھی حاصل نہیں کر سکی۔ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے پاس غزہ میں لڑنے اور آپریشن کرنے کے لیے کوئی واضح اور منظم حکمت عملی نہیں ہے۔
مہر نیوز: موراگ کوریڈور اور نیتساریم پر قبضے کے درمیان کیا فرق اور مماثلتیں ہیں؟
دونوں کا مقصد فلسطینی مزاحمت پر دباؤ ڈالنا اور استعماری پالیسی کو تبدیل کرنا ہے۔ رفح کے لوگوں اور فلاڈیلفیا اور موراگ رہداری کے درمیان کے لوگوں پر اتنا دباؤ ڈالنا کہ وہ اسے کسی طرح سے مذاکرات میں استعمال کر سکے۔ ایسے منصوبوں کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلے گا۔ مزاحمت غزہ کے لوگوں میں ایک گہری فکر اور تحریک کا روپ دھار چکی ہے۔
مہر نیوز: مقبوضہ علاقوں کے 120,000 سے زائد صیہونیوں نے غزہ جنگ روکنے کے لیے ایک پٹیشن پر دستخط کیے ہیں، نیتن یاہو نے غزہ کے خلاف دوبارہ جنگ کیوں شروع کی ہے؟ کیا داخلی بحران کی اصل وجہ نیتن یاہو ہیں یا دیگر مسائل؟
غزہ کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے کے پیچھے نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی ہے۔ نیتن یاہو کی سیاسی بقا کا انحصار جنگ کے جاری رہنے پر ہے۔ اسے کئی مقدمات اور اندرونی بحرانوں کا سامنا ہے۔ وہ اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں، خاص طور پر قیدیوں کی رہائی اور حماس کی تباہی کے معاملے میں انہیں ذلت اٹھانی پڑی ہے، یہی وجہ ہے کہ کابینہ میں نیتن یاہو کے مخالفین ان کے ساتھ آمنے سامنے ہیں۔ فوج کے ریزرو، حاضر سروس سپاہیوں اور ریٹائر ہونے والوں کے درمیان تناسب بہت زیادہ ہے۔پٹیشن پر نہ صرف مقبوضہ علاقوں بلکہ امریکہ کے 700 مقامات پر دستخط کیے جا رہے ہیں۔ یہ مظاہرے نیتن یاہو کی جنگی پالیسیوں اور صیہونی حکومت کی حمایت میں امریکہ کی تباہ کن پالیسیوں کے بھی خلاف ہیں۔
ہمارے پاس 7 اکتوبر سے پہلے طلبہ کی تحریک نہیں تھی۔ آج ہم ان ممالک میں طلباء کی تحریکیں دیکھتے ہیں جن کی حکومتیں صیہونی حکومت کی حمایت کرتی ہیں۔ اسلامی بیداری عالمی بیداری تحریک چکی ہے۔ جوں جوں جنگ میں شدت آتی جارہی ہے فلسطینی عوام پر ظلم و ستم مزید واضح ہوتا جارہا ہے۔
مہر نیوز: حماس کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ حال ہی میں بہت سننے میں آیا ہے۔ اس معاملے پر حماس کا کیا موقف ہے؟ اور کیا اس پر عمل ہو گا؟
غزہ کے عوام مزاحمت کی حمایت کرتے ہیں اور ایک طرح سے ہتھیار پھینکنے کو اسلحہ کو غداری سمجھتے ہیں۔ تخفیف اسلحہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے جو آج اٹھایا گیا ہے بلکہ برسوں سے صیہونی حکومت نے ناکام ہونے والے ہر منصوبے میں تخفیف اسلحہ کا سہارا لیا ہے۔
مزاحمتی گروپوں نے تخفیف اسلحہ کی مخالفت کی ہے۔ غیر مسلح ہونا مزاحمت کی ریڈلائن ہے اور ایسا نہیں ہوگا۔ مزاحمت روز بروز مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ قبضہ جتنا زیادہ ہوگا، مزاحمت اتنی ہی مضبوط ہوگی۔ قبضے کے خلاف مزاحمت ابھری ہے اور جب تک قبضہ ہے مزاحمت جاری رہے گی۔ یقیناً یہ مزاحمتی محاذ کی فتح ہے۔ مزاحمتی کمانڈروں کی شہادت سے مزاحمت مزید مضبوط ہوگی۔
آپ کا تبصرہ