11 اگست، 2015، 12:12 AM

امام جعفر صادق(ع)

نماز کو ہلکا سمجھنے والے ہم اہلبیت کی شفاعت سے محروم رہیں گے

نماز کو ہلکا سمجھنے والے ہم اہلبیت کی شفاعت سے محروم رہیں گے

حضرت امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: چار خصلتیں انبیاء کے اخلاق کامظہر ہیں:. ۱: نیکی کرنا، ۲: ۔سخاوت۔ ۳: مصیبت پر صبر کرنا۔ ۴: مومن کے حقوق کی رعایت کرنا۔

مہر خبررساں ایجنسی نے تاریخ اسلام کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت امام جعفرصادق (ع) نے فرمایا: نماز کو ہلکا سمجھنے والے ہم اہلبیت کی شفاعت سے محروم رہیں گے اور مزید فرمایا:چار خصلتیں انبیاء کے اخلاق کامظہر ہیں:. ۱:  نیکی کرنا،  ۲: ۔سخاوت۔  ۳:  مصیبت پر صبر کرنا۔  ۴:  مومن کے حقوق کی رعایت کرنا۔

نام ونسب

حضرت امام جعفرصادق (ع) کا  نام جعفر،کنیت ابوعبداللہ اور صادق لقب تھا۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور شھید کربلا حضرت امام حسین علیہ السلام کے پر پوتے تھے۔ سلسلہ امامت کی آٹھویں کڑی اور اھلبیت (ع) میں سے چھٹے امام تھے ۔ آپ کی والدہ حضرت محمد بن ابی بکر کی پوتی تھیں۔

ولادت

83 ھ میں 17 ربیع الاول کو اپنے جد بزرگوار حضرت رسول خدا (ص) کی ولادت کی تاریخ کو آپ کی ولادت ہوئی ۔ خاندان آل محمد (ص) میں اس اضافہ کا انتہائی خوشی سے استقبال کیا گیا۔ بارہ برس آپ نے اپنے جد بزرگوار جضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے زیر سایہ تربیت پائی ۔ واقعہ کربلا کو ابھی صرف بائیس سال گزرے تھےکہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے آنکھ کھولی تو اسی غم و اندوہ کی فضا میں شب و روز شھادت امام حسین علیہ السلام کا تذکرہ اور اس غم میں گریہ و بکا کی آوازوں نے ان کے دل و دماغ پر وہ اثر قائم کردیا تھا کہ جیسے وہ خود واقعہ کربلا میں موجود تھے چنانچہ اس کے بعد ہمیشہ اور عمر بھر امام جعفر صادق علیہ السلام نے جس جس طرح اپنے جد مظلوم امام حسین علیہ السلام کی یاد قائم رکھنےکی کوشش کی ہے وہ اپنے آپ ہی مثال ہے ۔

دور امامت

114 ھ میں امام محمد باقر علیہ السلام کی وفات ہوئی ۔ اب امامت کی ذمہ داریاں امام جعفر صادق علیہ السلام کی طرف عائد ہوئیں اور اس وقت دمشق میں ھشام بن عبدالملک کی سلطنت تھی۔ اس ‍ زمانہ سلطنت میں سیاسی خلفشار بہت زیادہ ہو چکا تھا اس کے باوجود آپ نے ان فرائض کو جو اشاعت علوم اھلبیت (ع) اور نشر شریعت کے قدرت کی جانب سے آپ کے سپرد تھے برابر جاری رکھا تھا ۔

انقلاب سلطنت

بنی امیہ کا آخری دور ھنگاموں اور سیاسی کشمکشوں کا مرکز بن گیا تھا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جلدی جلدی حکومتوں میں تبدیلیاں ہو رہی تھیں ۔ اسی لۓ امام جعفر صادق علیہ السلام کو بہت سی دنیوی سلطنتوں کے دور سے گزرنا پڑا ۔ ھشام بن عبدالملک کے بعد ولید بن عبد الملک پھر یزید بن ولید بن عبدالملک اسکے بعد ابراھیم بن ولید بن عبدالملک اور آخر میں مروان حمار جس پر بنی امیہ کی حکومت کا خاتمہ ہو گیا ۔

امام کے ساتھ بد سلوکیاں

منصور نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی عظمت کا اثر عوام کے دل میں کم کرنے کیلۓ ایک تدبیر یہ کی کہ امام جعفر صادق علیہ السلام کے مقابلہ میں ایسے اشخاص کو بحیثیت فقیہ اور عالم کے کھڑا کردیا جو آپ کے شاگردوں کے سامنے بھی زبان کھولنے کی قدرت نہ رکھتے تھے ۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کو پانچ مرتبہ مدینہ سے دربار شاہی میں طلب کیا گیا جو آپ کے لۓ سخت روحانی تکلیف کا باعث تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ کسی مرتبہ آپ کے خلاف کوئی بہانہ اسے نہ مل سکا کہ آپ کے قید یا قتل کا حکم دیتا ۔ بلکہ اس سلسلے میں عراق کے اندر ایک مدت کے قیام سے علوم اھلبیت (ع) کی اشاعت کا حلقہ وسیع ہوا اور اسکو محسوس کرکے منصور نے پھر امام جعفر صادق علیہ السلام کو مدینہ بھجوا دیا ۔ اس کے بعد بھی آپ ایذا رسانی سے محفوظ نہ رہے یہاں تک کہ ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگا دی گئی ۔ خدا کی قدرت تھی کہ وہ آگ جلدی ہی خاموش ہو گئی اور آپ کے متعلقین اور اصحاب میں سے کسی کو کوئی نقصان نہیں پہونچا ۔

اخلاق و اوصاف

آپ کے اخلاق و اوصاف زندگی کے ہر شعبہ میں معیاری حیثیت رکھتے ہیں ۔ مثلا مہمان نوازی ، خیرو خیرات، مخفی طریقہ پر غربا کی خبر گیری ، عزیزوں کے ساتھ حسن سلوک ، عفو جرائم ، صبر و تحمل وغیرہ ہیں۔ آپ کا قاعدہ تھا کہ آپ مالداروں سے زیادہ غریبوں کی عزت کرتے تھے ، مزدوروں کی بڑی قدر کرتے تھے ، خود تجارت کرتے تھے اور اکثر اپنے باغوں میں بہ نفس نفیس محنت کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ بیلچہ لۓ باغ میں کا م کر رہے تھے اور پسینہ سے تمام جسم تر ہو گیا تھا کسی نے کہا کہ یہ بیلچہ مجھے دے  دیجئے میں یہ خدمت انجام دوں ، امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا طلب معاش میں دھوپ اور گرمی کی تکلیف برداشت کرنا عیب نہیں ہے ۔

اشاعت علوم

تمام عالم اسلام میں آپ کی علمی جلالت کا شہرہ تھا ، دور دور سے لوگ تحصیل علم کے لۓ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ، یہاں تک کہ آپ کے شاگردوں کی تعداد چار ہزار تک پہونچ گئی۔ ان میں فقہ کے علماء بھی تھے ، تفسیر کے متکلمین و ناظرین بھی تھے ، آپ کے دربار میں مخالفین مذھب آ آ کر سوالات پیش کرتے تھے اور آپ کے اصحاب سے ان سے مناظرے ہوتے تھے جن پر کبھی کبھی نقد بھی فرماتے تھے اور اصحاب کو ان کی بحث کے کمزور پہلو بھی بتاتے تھے تاکہ آئندہ وہ ان باتوں کا خیال رکھیں کبھی آپ خود بھی مخالفین مذھب اور بالخصوص دہریوں سے مناظرے فرماتے تھے ۔ علاوہ علوم فقہ و کلام  وغیرہ کے علوم عربیہ جیسے ریاضی اور کیمیا وغیرہ کی بھی بعض شاگردوں کو تعلیم دیتے تھے ۔ چنانچہ آپ کے اصحاب میں جابر بن حیان طرسوسی سائنس اور ریاضی کے مشہور امام فن تھے ، جنھوں نے چار سو رسالے امام جعفر صادق علیہ السلام کے افادات کو حاصل کرکے تصنیف کۓ ۔ آپ کے اصحاب میں سے بہت سے بڑے فقہا تھے ، جنھوں نے کتابیں تصنیف کیں ۔ جن کی تعداد سینکڑوں تک پہونچتی ہے۔

شہادت

حضرت امام صادق (ع) عبدالملک بن مروان [ پانچواں اموی خلیفہ ] کے زمانے میں پیدا ہوئے اور اسکے بعد باقی 8 بنی امیہ خلفاء  اور دو عباسی خلفاء کہ کے ہمعصر تھے جن کا نام ذیل میں ہیں اورحضرت نے ان میں سے اکثر کی طرف سے مصائب اور مظالم برداشت کئے :

1 ۔ ولید بن عبدالملک

2 ۔ سلیمان بن عبدالملک

3 ۔ عمر بن عبدالملک

4 ۔ یزید بن عبدالملک

5 ۔ ھشام بن عبدالملک

6 ۔ ولید بن یزید

7 ۔ یزید بن ولید

8 ۔ مروان بن محمد

9 ۔ ابوالعباس سفاح

10 ۔ منصور دوانقی

حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کا بیان ہے:
    
ایک بار منصور نے میرے والد کو طلب کیا تا کہ وہ انھیں قتل کرے ۔ اس کے لئے اس نے شمشیر اور بساط بھی آمادہ کر رکھی تھی۔ ربیع (جو منصور کے درباریوں میں سے تھا) کو اس بات کا حکم دیا کہ جب ''جعفر بن محمد'' علیہ السلام میرے پاس آئیں اور میں ان سے گفتگو کرنے لگوں تو جس وقت میں ہاتھ کو ہاتھ پر ماروں اس وقت تم ان کی گردن اڑا دینا۔
    امام علیہ السلام وارد ہوئے منصور کی نظر جیسے ہی امام پر پڑی بے اختیار اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا اور امام کو خوش آمدید کہا ۔ اور اس بات کا اظہار کیا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ تا کہ آپ کے قرضوں کو چکادوں۔ اس کے بعد خوش روئی سے امام کے اعزاء و اقارب کے حالات دریافت کرکے ۔ ربیع کی طرف رخ کرکے کہنے لگاتین روز بعد امام کو ان کے اعزا و اقارب کے پاس پہنچا دینا۔
    آخر منصور امام کو برداشت نہ کرسکا جن کی امامت کا آوازہ اور رہبری شہرہ ملتِ اسلامیہ کے گوشہ گوشہ میں تھا۔ شوال ۱۴۸ھ؁ میں امام کو زہر دیا ۔امام علیہ السلام نے ۲۵/شوال کو ۶۵ برس کی عمر میں شہادت پائی .آپ کے جسم اطہر کو قبرستان بقیع میں امام محمد باقر علیہ السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

News ID 1857283

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha