18 نومبر، 2024، 3:31 PM

باکو "Cop29" کی ناکامی؛ صیہونی رجیم کے خلاف عوامی غم و غصے میں اضافہ

باکو  "Cop29" کی ناکامی؛ صیہونی رجیم کے خلاف عوامی غم و غصے میں اضافہ

حالیہ برسوں میں، نوزائدہ ریاستیں بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرتے ہوئے بڑی بین الاقوامی تقریبات کی میزبانی کرکے ملک میں سیاسی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: آذربائیجان کا دار الحکومت باکو ایسے وقت میں ماحولیاتی مسائل کے حوالے سے "کاپ 29" عالمی سربراہی اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے، کہ دنیا مشرقی بحیرہ روم میں طبیعی موجودات کی تباہی کے ساتھ نسل انسانی کے قتل عام کا مشاہدہ کر رہی ہے۔

 صیہونی رجیم کی مسلح افواج نیٹو اور دیگر مغربی ممالک کی حمایت سے کسی قسم کے اخلاقی اصولوں کا احترام  کیے بغیر غزہ اور لبنان میں مسلمانوں کا بڑے پیمانے پر قتل عام  کر رہی ہے، ایسے میں صیہونی رجیم کے صدر اسحاق ہرزوگ کا نام اس بین الاقوامی سربراہی اجلاس میں مدعو کئے جانے والوں میں دیکھا جا سکتا ہے!
  اگرچہ سکیورٹی وجوہات کی بناء پر ہرزوگ کے دورے کی منسوخی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

 اس تجزیاتی رپورٹ میں ہم آذربائیجان میں ہونے والے "Cop 29" اجلاس کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔

 "کاپ 29" کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

 موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی 29ویں سالانہ کانفرنس، جس کا عنوان "کپ 29" ہے، 11 سے 22 نومبر 2024 تک آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں منعقد ہوگی۔

 اس کانفرنس کو موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے سلسلے میں بین الاقوامی تعاون کے لئے ایک بہترین موقع سمجھا جا رہا ہے اور اس کی بنیادی توجہ ترقی پذیر ممالک کے لیے موسمیاتی بحرانوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے مالیاتی طریقوں پر مرکوز ہو گی۔ 

جمہوریہ آذربائیجان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار فوسل فیول پر ہے، جو کہ گرین ہاؤس گیسوں کا بنیادی ذریعہ ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کو بڑھاتا ہے اور اس ملک کی زیر صدارت کانفرنس بھی فوسل پر انحصار کم کرنے کے لیے تیز رفتار اور کثیرالجہتی پالیسیوں کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

 ایندھن پر عالمی برادری اور دیگر حکومتوں کی خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ مناسب اقدامات کے ساتھ وہ اس چیلنج سے عملی فیصلوں کے موقع کے طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔
 29 ویں Cop سربراہی اجلاس میں دنیا کو بڑی بہتری کی ضرورت ہے۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کے میدان میں موجودہ اقدامات ممالک کے وعدوں اور سائنسی اندازوں سے بہت دور ہیں۔ 
 

باکو بین الاقوامی کانفرنسوں کے ذریعے "قومی برانڈ" کو مضبوط بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ 

اس کانفرنس کے میزبان کا انتخاب کونسل کرتی ہے۔ آذربائیجان خاص طور پر وسطی یورپی ممالک کے ساتھ بات چیت کے ذریعے اس کانفرنس کی میزبانی کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس کانفرنس میں شرکاء کی سطح اور تعداد کے لحاظ سے خصوصی پہلو  ماحولیاتی مسائل میں ضروری اقدامات کا جائزہ لینے اور فیصلے کرنے میں ہے؛ یہ ایک نسبتاً اہم کانفرنس سمجھی جاتی ہے، لیکن سیاسی مسائل میں اس کا کوئی فیصلہ کن پہلو نہیں ہوگا۔ 

یقیناً اس کا یہ مطلب نہیں کہ میزبان ممالک اس بین الاقوامی موقع کا غلط استعمال کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پر، باکو نے اس میٹنگ کے موقع کو فرانس پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کیا کہ وہ آرمینیا کی حمایت کرتا ہے اور جسے وہ  آذربائیجان سے باہر باکو کے علاقے میں لوگوں کے قتل کا نام دیتا ہے۔

اس کے علاوہ اس کانفرنس میں بڑے اہداف جیسے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو کم کرنا، ہوا کے درجہ حرارت میں اضافے کو روکنے کے لئے اجتماعی کوشش اور اس نوعیت کے مسائل سربراہی اجلاس میں موجود ممالک کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔

 اب تک 2050 اور 2010 کے اہداف پر غور کیا جا چکا ہے۔ اس کانفرنس میں بنیادی طور پر ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ گرین ہاؤس گیسوں کو کم کرنے اور صاف توانائی کی پیداوار میں سرمایہ کاری کرنے اور جیواشم ایندھن کی کھپت کو کم کرنے کے لیے سرگرم رہیں۔ یہ کانفرنس پانچ اہم شعبوں پر مرکوز ہے جیسے پانی، فطرت، خوراک، ڈیکاربنائزیشن اور موسمیاتی تبدیلیوں سے موافقت۔

 اس اجلاس کے اعلان کردہ اہداف سے قطع نظر، آذربائیجان اس بین الاقوامی کانفرنس کو اپنے "قومی برانڈ" اور "نرم طاقت" کو بین الاقوامی نظام کی سطح پر مضبوط کرنے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مثال کے طور پر، باکو کے مطابق،  "اٹلانٹک کونسل" جیسے باوقار مراکز میں ہونے والے اس اجلاس کی عکاسی نے مغرب اور یورپی ممالک کے موسمیاتی پروگراموں کے ساتھ منسلک ممالک میں باکو کی ساکھ میں اضافہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ، اس بین الاقوامی اجلاس کی میزبانی کرکے، علی یوف نے اروان کو یہ پیغام بھیجا کہ موجودہ حالات میں، برسلز توانائی کی ضرورت کی وجہ سے باکو کا ایک اسٹریٹجک اتحادی بن گیا ہے، اور ایروان جنوبی قفقاز میں علاقائی مسائل سے نمٹنے کے لیے اپنے ساتھی عیسائیوں کی مدد پر انحصار نہیں کر سکتا۔ 

صیہونی حکومت؛ ماحولیات اور انسانیت کی سب سے بڑی دشمن 

صیہونی حکومت اپنے پروپیگنڈوں کے ذریعے دنیا میں ماحولیاتی تحفظ اور پانی کے انتظام کے میدان میں ایک فعال قوت کے طور پر دکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن ان جھوٹے دعووں سے ہٹ کر تل ابیب نے نہ صرف ماحول کے تحفظ کے لیے ایک قدم نہیں اٹھایا ہے بلکہ اس نے فلسطینیوں کے قتل عام کے ساتھ ماحولیات کو بھی براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ 

اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی (UNRWA) نے جون 2024 میں اندازہ لگایا کہ غزہ کی پٹی میں پانی اور صفائی کی سہولیات اور بنیادی ڈھانچے کا 67 فیصد حصہ جنگ کے نتیجے میں تباہ ہوچکا ہے۔ غزہ میں جنگ نے ہر تین دن میں سے پانچ پانی اور سیوریج کے بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ غزہ کی پٹی میں دستیاب کل پانی کا تخمینہ غزہ جنگ سے پہلے دستیاب کل پانی کا تقریباً 10-20 فیصد ہے۔

آکسفیم نے اس کارروائی کو ’جنگی جارحیت‘ قرار دیا ہے۔ اسرائیلی فوج غزہ کی پٹی میں باقی ماندہ ہائیڈرو الیکٹرک پلانٹس کو چلانے کے لیے درکار ایندھن کے داخلے کو روک رہی ہے۔ جنگ کے دوران غزہ کی پٹی میں فی کس پانی کا حصہ 94 فیصد کم ہوا ہے۔ پانی اور بجلی کے بنیادی ڈھانچے کی تباہی اور اسپیئر پارٹس اور ایندھن کے داخلے پر عائد پابندیاں پانی کی پیداوار میں 84 فیصد کمی کا باعث بنی ہیں۔ پانی کے 88% کنویں اور 100% واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس کو شدید نقصان پہنچایا ہے!

 ایسے میں بنیادی سوال یہ ہے کہ اس اجلاس کے مدعوین میں صیہونی حکومت کے سربراہوں کے نام کیوں نظر آئے اور باکو نے اس تقریب کے مسلمان میزبان کی حیثیت سے روئے زمین پر فطرت کے سب سے بڑے دشمن کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیوں نہیں کیا؟

 ہرزوگ کے دورہ باکو کی منسوخی 

 عالمی کاپ 29 باکو کانفرنس کے پانچویں دن کے آخری گھنٹوں میں عبرانی میڈیا نے اس اجلاس میں شرکت کے لیے صیہونی حکومت کے صدر اسحاق ہرزوگ کے آذربائیجان کے دورے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا۔ بظاہر اس صہیونی صدر کی عدم موجودگی کی سیکورٹی وجوہات بتائی گئی ہیں۔

قبل ازیں ذرائع ابلاغ نے اعلان کیا تھا کہ ہرزوگ 100 افراد کے ایک وفد کی سربراہی میں باکو جا رہے ہیں تاکہ غزہ لبنان جنگ کے درمیان صیہونی حکومت کے حق میں بڑے پیمانے پر پروپیگنڈہ شو شروع کر سکیں، لیکن وہ ایسا نہیں کرسکے۔
ماحولیات کے بہانے ایک بین الاقوامی اجتماع میں اسرائیلی جرائم کو چھپانے کی اس کوشش کے خلاف سوشل میڈیا میں عوامی غم و غصے کی شدت نے باکو میں صیہونی حکومت کی موجودگی کے بائیکاٹ کی عالمی مہم کا آغاز کیا۔

اس کے علاوہ باکو ہوائی اڈے پر بم کو ناکارہ بنانے کی خبریں، دنیا بھر میں احتجاجی ریلیاں، اس میٹنگ کے موقع پر گرفتاریوں کا آغاز، بشمول شیعہ عالم سیواش حسینوف، اور ماحولیاتی کارکن کامران ممدالی وغیرہ کی گرفتاری وغیرہ بھی موئثر رہی ہیں۔

آذربائیجان کی میڈیا رپورٹ کے مطابق  اسرائیلی وفد سے کہا گیا ہے کہ وہ خفیہ اور توجہ دلائے بغیر ملاقاتوں میں شرکت کرے اور سڑکوں اور عوامی مقامات پر جانے سے گریز کرے۔

29 ویں کاپ میں صیہونی حکومت کی موجودگی کے خلاف "باکو میں صیہونی سربراہی اجلاس نامنظور" کے عنوان سے ایک غیر سرکاری مہم چلائی گئی اور مختلف ذرائع ابلاغ میں اس کی عکاسی کی گئی۔

بائیکاٹ کی اس مہم کے دوران تقریباً 30 غیر سرکاری تنظیموں نے بھی ایک بیان جاری کیا جس میں صیہونی حکومت کی مذمت اور ورلڈ کاپ 29 اجلاس میں اس کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا گیا۔ 

اس کے علاوہ، ہرزوگ کو آذربائیجان کے صدر کے والد کی سالگرہ کے موقع پر باکو کے دورے کے فوراً بعد اطالوی مجسمہ ساز لورینزو کوئن کے بنائے گئے "ننگی عورت" کے مجسمے کی نقاب کشائی حیدر علییف ثقافتی مرکز میں کرنی تھی۔ تاہم باکو کے مشتعل لوگوں نے مرکز میں گھس کر اس مجسمے کی نقاب کشائی سے پہلے ہی اسے توڑ دیا۔ 

29 ویں COP کے موسمیاتی تبدیلی کے اجلاس کے موقع پر غزہ میں نسل کشی اور باکو میں سالہا سال سے صیہونیوں کی موجودگی کے حوالے سے آذربائیجان کے عوام کی بڑھتی ہوئی بے چینی اور اسی دوران قابض رجیم کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام نے ہرزوگ کو آذری شیعوں کی سرزمین پر جانے سے روک دیا۔ 

عوامی احتجاج اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گیا جب یہ واضح ہوا کہ آذربائیجان کی حکومت نے حالیہ جنگ میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں اور قیدیوں کی یاد میں ایک نمائش تیار کی ہے اور ہرزوگ اس نمائش کا افتتاح باکو میں اپنے دورے کے بعد کرنے جا رہا ہے۔ 

 اس کے بعد ہی "آذربائیجانی یوتھ" کے نام سے ایک نامعلوم گروپ کی تشکیل کی خبریں سننے کو ملی جو حکومت کی اسرائیل نوازی پر تنقید کرتا ہے۔

 اس گروپ نے دھمکی دی ہے کہ جمہوریہ آذربائیجان میں کوئی بھی اسرائیلی محفوظ نہیں ہے اور آنے والے دنوں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ 
غور طلب ہے کہ اس سے پہلے باکو نے آذربائیجان کے شیعوں اور ایران دوست شہریوں کو گرفتار کر کے جنوبی قفقاز میں تل ابیب کی پالیسیوں کی خدمت کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

خلاصہ کلام

حالیہ برسوں میں، نئی قائم شدہ قومی ریاستیں جیسے جمہوریہ آذربائیجان اور متحدہ عرب امارات بین الاقوامی قانونی حیثیت حاصل کرتے ہوئے بڑے بین الاقوامی تقریبات کی میزبانی کرکے اپنے داخلی سیاسی ماحول میں قبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ 

دوسرے لفظوں میں، باکو اور دبئی کے لیے، ایکسپو جیسی تقریبات کا انعقاد یا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنسوں کا انعقاد بین الاقوامی نظام کی سطح پر قومی برانڈ کو مضبوط کرنے کا ایک اچھا موقع ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ صیہونی حکومت بھی ان ممالک میں منعقد ہونے والی تمام تقریبات میں جمہوریہ آذربائیجان یا متحدہ عرب امارات کی طرح قانونی حیثیت حاصل کرنے اور دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ رابطے کے مواقع کو استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے۔

  صیہونی صدر کی اس کانفرنس میں شرکت میں ناکامی عوامی غصے کی وجہ سے ہو یا ترکی کی طرف سے اسرائیلی صدر کے طیارے کو بحیرہ روم سے گزرنے سے روکنا ہو، ہر دو صورتوں میں اس کا ایک ہی مطلب ہے اور یہ ہے کہ غزہ اور لبنان میں نسل کشی کے باعث مسلمانوں کے غم و غصے میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ 

 بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ صیہونی جارح ٹولے کے منظم جرائم نے اس رجیم کو عالمی برادری کی سطح پر اور دنیا کے عوام کی رائے عامہ کی نگاہ میں پہلے سے بھی زیادہ رسوا کر دیا ہے۔

News ID 1928204

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha