مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد: عالمی استکبار نے 1948 میں مسلمانوں کے قبلہ اول قدس شریف کو اس کے باشندوں کے ہاتھوں سے چھین لیا۔ غاصب صیہونی حکومت کے اس غاصبانہ قبضے کے خلاف ابتدائی سالوں سے ہی فلسطین کے مسلمان عوام نے مزاحمت کی جو پوری قوت کے ساتھ جاری ہے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رح) نے بیت المقدس کو غاصب صہیونیوں کے چنگل سے آزاد کرانے کے لئے ایک مزاحمتی تحریک کے طور رمضان کے آخری جمعہ کو "یوم القدس" منانے کی سفارش کی۔
امام خمینی نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے نام اپنے پیغام میں فرمایا کہ میں نے کئی سالوں سے مسلمانوں کو غاصب اسرائیل کے خطرے سے خبردار کیا ہے جس نے ان دنوں فلسطینی بھائیوں اور بہنوں پر اپنے وحشیانہ حملے تیز کر دیے ہیں، خاص طور پر ان کے گھروں اور جنوبی علاقوں میں بمباری کر رہے ہیں۔ میں دنیا کے تمام مسلمانوں اور اسلامی حکومتوں سے کہتا ہوں کہ وہ اس غاصب اور اس کے حامیوں کا مقابلہ کریں۔
بانی انقلاب اسلامی کے پیغام نے مظلوم فلسطینیوں کے دلوں میں امید کی شمع روشن کی۔ امام خمینی (رح) کے نزدیک یوم القدس عالمی دن ہے اور یہ مظلوموں اور مستکبروں کے درمیان تصادم کا دن ہے۔ یہ ان اقوام کی مزاحمت کا دن ہے جو سپر پاور کے خلاف امریکی اور مغربی جبر کا شکار تھیں۔
یوم القدس کی عالمی اہمیت کے بارے میں مہر نیوز نے عراق کی مزاحمتی تحریک کے نمائندے سید عباس موسوی سے گفتگو کی ہے جس کی تفصیلات درج ذیل ہیں:
مہر نیوز: امام خمینی کے حکم سے عالمی یوم القدس، ہر سال رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے، اس سال یہ دن ایسی حالت میں منایا جائے گا جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا منصوبہ پیش کیا ہے۔ ایسی صورت حال میں مزاحمتی محاذ کے لئے یوم قدس کے انعقاد کی کیا اہمیت ہے؟
یوم القدس "بیت المقدس" کی آزادی کے لئے ایک بین الاقوامی دن ہے اور اس کا تعلق عالم اسلام سے ہے۔ عالمی یوم القدس امام خمینی (رح) کے حکم سے منایا جاتا ہے۔ یہ دن عالم اسلام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے ایک اہم دن ہے جس میں غاصب صیہونی حکومت اور اس کے حامیوں کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی جاتی ہے۔
یوم قدس مزاحمتی محور کے لیے بہت اہم دن ہے، کیونکہ یہ فلسطینی مزاحمت کی حمایت کے عزم کو تقویت دیتا ہے، اس دن مجاہدین فلسطین کے دفاع کے لیے اپنے عزم کی تجدید کرتے ہیں۔
ٹرمپ کا فلسطینی عوام کی جبری ہجرت کا احمقانہ منصوبہ مکمل طور پر بے سود ہے اور اس کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔ ایسے حالات میں یوم القدس منا کر فلسطینی عوام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ وہ پراعتماد رہیں اور یہ جان لیں کہ دنیا کے تمام آزاد لوگ ان کے ساتھ ہیں اور مختلد میدانوں میں پوری طاقت کے ساتھ ان کا دفاع کرتے ہیں۔ یوم القدس در قصل غاصب صیہونی حکومت اور امریکہ کے لیے بھی پیغام ہے، کہ وہ دہشت گردی اور نسل کشی کا وحشیانہ کھیل کھیل کر فلسطینیوں کی مزاحمت کو نہیں روک سکتے۔
امام خمینی (رح) کا مزاحمت کی جغرافیائی تشکیل میں کیا کردار تھا؟
امام خمینی (رح) نے ظالموں کے خلاف لڑنے کا عزم بخشا، مزاحمت کے جغرافئے کی تشکیل میں امام راحل کی تحریک وقتی نہیں تھی۔ بلکہ انہوں نے مزاحمتی جغرافیہ کو مکمل طور پر منطقی اور فکری انداز میں قرآن اور سنت کی بنیاد پر تشکیل دیا۔ اس وجہ سے اس مزاحمتی جغرافیہ نے اپنے قیام سے لے کر اب تک بہت اچھے نتائج حاصل کیے ہیں۔
ٹرمپ حکومت میں مزاحمت کا مستقبل کیا ہوگا؟
جب تک حق و باطل کا محاذ موجود ہے جنگ نہ رکی اور نہ رکے گی۔ جو شخص قرآن کی آیات کے ذریعے حق و باطل کے میدان جنگ کی پیروی کرتا ہے، اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معرکہ اپنے بعض مراحل میں بہت شدید ہوگا۔
حال ہی میں طوفان الاقصیٰ کے بعد فلسطین میں جو کچھ ہوا اور اب شام میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔ جب مغرور استعمار کسی قوم پر قابض ہو جاتے ہیں تو وہ مظلوم لوگوں کو خوفناک اذیتوں کا نشانہ بناتے ہیں اور ان کی عورتوں کو قید کر لیتے ہیں۔ لہٰذا بہادر اور دیانتدار نوجوانوں کو ہر میدان میں بیداری اور آگہی سے مسلح ہونا چاہیے، خصوصاً دین اور انسانیت کے دشمنوں کے خلاف جہاد اور مزاحمت کا راستہ اپنانا ہوگا۔
مزاحمتی دھڑے مکمل تیار پر ہیں۔ ہم احمق ٹرمپ اور امریکی حکومت سے ہر چیز کی توقع رکھتے ہیں۔ ہم جنگ نہیں چاہتے، ہم کسی پر حملہ نہیں کرتے، لیکن مقدسات اور مظلوم لوگوں کا بھرپور دفاع کرتے ہیں، اور ہم ظالم استعمار کے دشمن ہیں۔ یہ ہمارا نقطہ نظر ہے اور اسی وجہ سے عراق میں حشد الشعبی قائم کی گئی ہے جو موجودہ حالات اور بالخصوص ٹرمپ کی حالیہ دھمکیوں سے قطع نظر، اپنے نظریاتی راستے پر گامزن رہے گی۔ ہم نے شہید قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس سے عہد کیا ہے کہ حشد الشعبی حالات اور چیلنجز کا مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدم رہے گی۔ ہم اپنے وعدے پر قائم رہیں گے اور مزاحمتی قائدین کے حکم کے مطابق عمل کریں گے، ہم جنگ کے نتائج کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ہم اپنا دینی فریضہ ادا کر رہے ہیں اور نتیجہ یا تو فتح یا پھر شہادت ہے۔
آپ کا تبصرہ