مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، الناز رحمت نژاد: بیت المقدس کی آزادی کا مسئلہ امام خمینی کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل تھا۔
امام نے اسلامی نہضت کے آغاز سے ہی بیت المقدس کے بارے میں واضح موقف اختیار کیا اور یہ موقف ایسے حالات میں تھا جب صیہونی حکومت فلسطین اور بیت المقدس کے مسئلے کو عرب دنیا تک محدود کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
اسلامی انقلاب کے بانی نے ایرانی حکومت سے کہا کہ وہ صیہونی حکومت اور بہائیوں سے اپنے تعلقات منقطع کر دے۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام نے فلسطینی وفد اور یاسر عرفات سے ملاقات میں بیت المقدس کی آزادی کے بارے میں کہا کہ دشمن پر فتح اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے خدا پر توکل کریں، اللہ کی قدرت تمام طاقتوں سے بالاتر ہے۔ نیز انقلاب اسلامی کے ابتدائی ایام میں فلسطینی سفارت خانے نے صہیونی سفارت خانے کی جگہ لے لی۔
یوم القدس کے حوالے سے مہر رپورٹر نے عراق کی اسلامی مزاحمتی تحریک نجباء کے رکن ڈاکٹر فراس الیاسر سے گفتگو کی ہے جسے ذیل میں پیش کیا جارہا ہے:
مہر نیوز: آپ کے نقطہ نظر سے یوم قدس کا فلسفہ کیا ہے اور اس نے مسئلہ فلسطین کو آگے بڑھانے میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
یوم قدس کی بنیاد ان دینی مسائل پر رکھی گئی تھی جن پر امام روح اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا پختہ ایمان تھا۔ اس نقطہ نظر کی اصل تاریخ کے تمام معاشرتی واقعات کا گہرا مطالعہ تھا اور اسے امام راحل کی سیاسی فقہ اور عقیدے کی بنیادوں پر استوار کیا گیا تھا۔
ان اصولوں کے مطابق قدس ملت اسلامیہ کے تاریخی حافظے کا ایک لازمی حصہ ہے۔ امام راحل نے مسلمانوں کو یوم قدس منانے کی دعوت دے کر مسئلہ فلسطین کو ایک نئی زندگی بخشی۔ ایک ایسا مسئلہ جسے عربوں کے دفاع میں ناکامی کی وجہ سے فراموش کیا جا رہا تھا۔
اس لیے عالمی یوم القدس کا احیاء امت اسلامیہ کی اجتماعی زندگی کا بنیادی مسئلہ ہے۔
امام خمینی نے مزاحمتی جغرافیے کی تشکیل میں کیا کردار ادا کیا؟
امام راحل (رح) سے پہلے اس خطے میں کوئی ایسی مربوط قوت نہیں تھی جس کا واضح نظریہ ہو۔
اسلامی انقلاب نے تمام عالمی مساوات کو بدل کر رکھ دیا۔ عالمی نظام میں اس بات کا جائزہ نہیں لیا گیا تھا کہ مزاحمت کا جغرافیہ اتنے وسیع پیمانے اور بلند سطح پر ترقی کرے گا۔
اب مغرب کے حالات اور تجزئے امام خمینی (رح) سے پہلے کے دور کی طرح نہیں تھے۔ خطے میں زبردست بیداری آئی اور امریکی سازشیں تمام لوگوں پر آشکار ہوگئیں۔
امام راحل کی آمد نے نوآبادیاتی یوٹوپیا کی تمام تصویروں کو خاک میں ملا دیا۔
اس سال عالمی یوم القدس ایسے حالات میں منایا جائے گا جب ٹرمپ نے فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی کا منصوبہ پیش کیا ہے، ان حالات میں مزاحمتی محاذ کے لیے یوم القدس کے انعقاد کی کیا اہمیت ہے؟
طوفان الاقصیٰ اور مزاحمت کاروں کی عظیم قربانیوں کے بعد اب مسئلہ فلسطین کو ختم کرنا اس طرح ممکن نہیں رہا جیسا کہ ٹرمپ تجویز کر رہے ہیں۔ امریکہ میڈیا کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو چھوٹا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، کیونکہ وہ فلسطینی مزاحمت کو ختم کرنے یا کمزور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ٹرمپ نے جو تجویز پیش کی وہ فلسطینی مزاحمت اور مزاحمتی محور پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ لیکن وہ اور اس کی لے پالک تمام عرب حکومتیں جانتی ہیں کہ اب صورتحال مشکل ہے۔ مزاحمتی محور نے طوفان الاقصیٰ طوفان آپریشن کی حمایت میں اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کو ثابت کیا ہے، اب ایسے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا آسان نہیں رہا۔ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ فلسطینی مزاحمت کو ختم نہیں کر سکے۔ یوم قدس آنے والا ہے اور مزاحمتی محور اس دن کو اعلی ترین سطح پر منائے گا، کیونکہ اس نے طوفان الاقصی کی حمایت میں قابل فخر موقف اختیار کیا ہے۔"
ٹرمپ انتظامیہ میں مستقبل کی پیش رفت خاص طور پر حشد الشعبی کی صورت حال کیسے ہوگی؟
الحشد الشعبی اب عراقی آئین کے دائرہ کار میں ایک نظریاتی اور قانونی قوت ہے اور اس وقت عراق اور خطے میں ایک اہم طاقت کے عنصر کے طور پر ابھر رہی ہے۔ امریکہ نے کئی بار حشد الشعبی کو کمزور یا تحلیل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن عوام کے ارادے، عراق کی اسلامی مزاحمتی قوتوں اور مذہبی اتھارٹی نے اس مقصد کو حاصل ہونے سے روک دیا ہے۔
ہاں، ٹرمپ اقتصادی اور سیاسی دباؤ کے ذریعے عراق کو اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن یہ عراق کے انقلابی جذبے کو متاثر نہیں کر سکتے، کیونکہ آج عراقی مجاہدین بہترین امکانات رکھتے ہیں اور عراقی مزاحمت بھی طاقت کے مہرے رکھتی ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ اس صورت حال میں عراق کے ساتھ نمٹنے میں محتاط رہے گا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اگر حالات خراب ہوئے تو اس کے اڈوں کا کیا حال ہو سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ