مہر نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، طوفان الاقصیٰ کے آغاز سے ہی یمنیوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کا اعلان کیا اور صیہونیوں کے خلاف میدان نبرد میں کود پڑے۔
یمنی مقبوضہ علاقوں پر حملے کرنے کے ساتھ صیہونی رژیم کی معیشت کی اہم شریانوں کو کاٹ کر دباؤ ڈالنے میں کامیاب ہوگئے۔
اس سلسلے میں ایران میں متعین یمن کے سفیر "ابراہیم الدلمی" کا انٹرویو پیش کیا جا رہا ہے:
مہر نیوز: استبدادی نظام کے خلاف یمنی عوام کی مزاحمت کے بنیادی عوامل کیا ہیں؟ کیا یہ مزاحمت صرف حالیہ جنگ کا نتیجہ ہے یا پھر اس کی جڑیں عوامی تاریخ اور ثقافت میں پیوستہ ہیں؟
سب سے پہلے، میں مہر نیوز کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا کہ مجھے یہ موقع فراہم کیا، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یمن میں رونما ہونے والے واقعات ثقافتی اور تاریخی ارتکاز کا نتیجہ ہیں اور ان کی ابتداء قرآن مجید کے تعلیمی مکتب سے ہوئی ہے، جس کا مقصد بنیادی طور پر اسلامی جذبہ پیدا کرنا اور لوگوں کی تربیت کرنا ہے تاکہ وہ عظیم ذمہ داریوں کو سنبھال سکیں۔
یمنیوں نے اس وقت جو حماسہ تخلیق کیا ہے وہ اسی قرآنی تربیت اور اجتماعی تزکیہ نفس کا نتیجہ ہے۔
یہ مکتب اسلامی امت کے اصل دشمن کو پہچاننے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ امت اسلامیہ کو دوسروں سے خطرہ ہے اور اس کے بہت سے ضدی اور مضبوط دشمن ہیں، لہٰذا اسے ہمیشہ اپنے آپ کو جسمانی اور ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے تاکہ عالمی استعمار کے زیر انتظام اس نئے استکباری حملے کا مقابلہ کر سکے۔
مہر نیوز: امریکہ کی سرپرستی میں مغربی ممالک یمنی قوم کے ساتھ برسوں سے جاری جنگ میں ناکام رہے ہیں۔ حالیہ جارحیت کے نئے دور میں، وہ کن اہداف کے درپے ہیں اور کیا وہ ان مقاصد کو حاصل کر پائیں گے؟
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ یمن کے خلاف امریکی صیہونی جارحیت کئی سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ بلاشبہ یہ جارحیت مختلف شکلوں میں سامنے آئی ہے، بعض اوقات اس نے عرب اتحاد کے نام سے اپنے آپ کو ظاہر کیا، جس نے حالیہ برسوں میں یمن پر وسیع حملے کیے، اور پھر یہ امریکی برطانوی اتحاد میں نمودار ہوئی، جس کے نتیجے میں غزہ جنگ کے حوالے سے یمن کا موقف اور غزہ میں فلسطینی قوم کی حمایت کی گئی۔ تاہم طوفان الاقصیٰ نے مزاحمتی محور میں اتحاد پیدا کیا، اس بابرکت آپریشن کے بعد صیہونی دشمن نے غزہ کی پٹی پر حملہ کیا اور پھر لبنان پر حملہ کیا حتیٰ کہ ایران پر بھی حملہ کیا۔ اس نے سکیورٹی حصار کو مزاحمتی محور سے چھیننے کے لیے یمن پر بھی حملے کئے، تاہم مزاحمتی محور نے بھی امریکی صہیونی منصوبے کے خلاف ان تمام میدانوں میں اپنی تیاری کا مظاہرہ کیا۔
مہر نیوز: انصار اللہ نے صیہونی رژیم پر حملے کرکے غزہ کے مظلوم عوام کی حمایت میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، یہ حمایت کب تک جاری رہے گی؟ کیا یمن صیہونی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے کوئی خاص حکمت عملی رکھتا ہے؟
فوجی کارروائیوں کے حوالے سے یمنی مسلح افواج نے صیہونی اہداف اور مقبوضہ علاقوں کے خلاف ڈرون، میزائل اور سمندری کارروائیاں کی ہیں، یمن نے تل ابیب سمیت ایلات کی بندرگاہ کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
اس کے علاوہ یمنی فورسز نے صیہونی بحری جہازوں کو سزا دی جو صیہونی حکومت کی بندرگاہوں کی طرف بڑھ رہے تھے اپنے ڈرون اور میزائل حملوں کے ذریعے انہیں بحیرہ احمر میں پیش قدمی سے روک دیا اور یمن کی کاروائیاں غزہ کی ناکہ بندی کے خاتمے تک جاری رہیں گی۔
مہر نیوز: مزاحمتی محاذ کے مستقل چیلنجوں میں سے ایک نفوذ اور نرم جنگ کا مسئلہ ہے۔ یمن اپنے سیاسی، فوجی اور میڈیا کے ڈھانچے میں دشمن سے وابستہ عناصر کے اثر و رسوخ کو کیسے روکتا ہے؟
شیطانی محور نرم جنگ کے ذریعے یمن کے ثقافتی اور میڈیا ڈھانچے کو تباہ کرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہا ہے۔
اور ہم یمن کے اندر سیکورٹی اور سماجی سطح پر ان حملوں کے خلاف کھڑے ہیں، اور یمن کی سیکورٹی سروسز نے بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور ہم بہت سے امریکی، صیہونی، برطانوی اور بدقسمتی سے یمن میں سعودی اور اماراتی نیٹ ورک کو شناخت کرکے تباہ کر چکے ہے۔ صنعاء میں امریکی سفارت خانے اور اس کے مقامی ملازمین یا اقوام متحدہ سے وابستہ کچھ تنظیموں کے ذریعے مختلف طریقوں سے نفوذ بڑھانے کی کوشش کی گئی تاہم یمن کی انٹیلی جنس سروسز نے ان کارروائیوں کے دوران بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اور دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔
مہر نیوز: ایران اور یمن کے تعلقات حالیہ برسوں میں مضبوط ہوئے ہیں، آپ عسکری، اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں اس تعاون کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ کیا دونوں ممالک کے درمیان نئے معاہدے ہو رہے ہیں؟
صنعاء اور تہران میں دونوں ملکوں کے سفارتخانے باہمی تعاون سے اقتصادی، سیاسی، عسکری تعلقات کو مضبوط بنانے کے لئے بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دونوں ممالک دشمن کے حملوں کی زد میں ہیں، اس لیے انہیں مختلف ثقافتی، تعلیمی، اقتصادی شعبوں میں اپنے تعلقات کو وسعت دینا چاہیے۔ دونوں ممالک پابندیوں کے شکار ہیں، اس لیے انہیں ایک مشترکہ منڈی کے ذریعے اقتصادی سرگرمیوں کو آگے بڑھانا چاہیے تاکہ دونوں ملکوں کی مشترکہ محرومیوں کی تلافی ہوسکے۔ بہت سی یمنی مصنوعات ہیں جو ایرانی مارکیٹ میں فراہم کی جا سکتی ہیں اور اسی طرح یمنی مارکیٹ بہت سی ایرانی اشیاء متعارف کرائی جا سکتی ہیں۔
گزشتہ برسوں کے دوران ان تعلقات کے دائرہ کار میں بہت سے منصوبے بنائے گئے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل قریب میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعلقات کو مضبوط بنانے کے مزید مواقع میسر آئیں گے۔
مہر نيوز: بعض مسلمان ممالک انسانی اور دینی اصولوں کے برخلاف صیہونی رژیم کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان ممالک کے لئے آپ کا کیا پیغام ہے؟
میں امت اسلامیہ کو خبردار کر رہا ہوں کہ اب اسے بیداری کا ثبوت دینا ہوگا، وہ امت جو ان تمام سازشوں اور فلسطین، لبنان یا کسی اور جگہ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تمام جرائم کے سامنے خاموش رہی۔ اللہ نے اس امت پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کی ہے۔ امت مسلمہ پر آج ایک تاریخی ذمہ داری آن پڑی ہے،
عالم اسلام میں رونما ہونے والے واقعات اور ان جرائم کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے پر مسلمانوں کو خدا کی عدالت میں جوابدہ ہونا پڑے گا۔
امت اسلامیہ کو خدا کی طرف لوٹنا چاہیے اور الہی اور قرآنی ثقافت کا احیاء کرنا چاہیے جو امت کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے، مستکبروں کا مقابلہ کرنے اور انسانی معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کی دعوت دیتی ہے۔
ملت اسلامیہ کم از کم فلسطین کاز کی حمایت کے لئے میڈیا اور اسی طرح مالی اور عسکری میدان میں اپنی ذمے داریاں پوری کرے۔
آپ کا تبصرہ