مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے کہا ہے کہ صہیونی کابینہ کے وزرا کے درمیان دن بدن اختلافات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان اختلافات کی وجہ سے صہیونی معاشرہ اور حکومت کو بڑا بحران درپیش ہے۔
طوفان الاقصی کے بعد پہلے روز سے ہی نتن یاہو نے اس جنگ کو زندگی اور موت سے تعبیر کرنا شروع کیا تاکہ صہیونیوں کی عمومی حمایت حاصل کی جائےاور حملے کے اہداف آسانی سے حاصل ہوجائیں۔ انہوں نے جنگی کابینہ تشکیل دی جس میں یواو گیلانت، بنی گینتز اور گاری آئزنکوت جیسے فوجی جنرل کو بھی شامل کیا۔ مختلف خیالات اور نظریات کے حامل افراد کو شامل کرنے کا مقصد اتحاد کی فضا قائم کرنا تھا اور اختلافات کو کم سے کم کرنا تھا۔ لیکن نتن یاہو کی تدبیر الٹی پڑگئی اور جلد یہ کابینہ داخلی اختلافات کا شکار ہوگئی ہے۔ غزہ میں اہداف حاصل کرنے میں فوج کی شکست نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
مشکلات اسی تک محدود نہ رہیں بلکہ سیاسی، دفاعی اور اقتصادی طور پر اسرائیل کو مشکلات پیش آنا شروع ہوا۔ عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا جس سے عالمی برادری کی نظر میں صہیونی حکومت مزید بے آبرو ہوگئی۔
جنگی کابینہ کے اراکین میں اختلافات بڑھنے لگے۔ فوجی سربراہ جنرل آئزنکوت نے مطالبہ کرنا شروع کیا کہ حکومت غزہ کی جنگ کے حوالے سے جھوٹے دعووں کا سلسلہ بند کرے۔ انہوں نے صہیونی یرغمالیوں کی آزادی کے لئے حماس کے ساتھ فوری مذاکرات اور قیدیوں کے تبادلے کا مطالبہ کیا۔
اسی طرح جنگ کے 100 دن گزرنے کے بعد جنگی کابینہ کے رکن بنی گینتز نے بھی نتن یاہو مخالف مظاہرین کے اجتماع میں شرکت کرکے حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
نتن یاہو نے اپنے سیکریٹری کو حکم دیا کہ گیلانت کو کابینہ کے اجلاس میں شرکت سے روک دے اس طرح گیلانت نے احتجاجی طور پر اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔
دوسری طرف گیلانت اور انتہاپسند وزیر بن گویر کے درمیان بھی لفظی جنگ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ گیلانت کابینہ کے اجلاس میں وزیراطلاعات پر بھی تنقید کی۔ صہیونی ذرائع کے مطابق گیلانت کا غم و غصہ اس قدر زیادہ تھا کہ انہوں نے مخالف اراکین بھی حملہ کیا اور اجلاس کے دوران جھڑپ ہوسکتی تھی۔
گیلانت نے دھمکی دی تھی کہ کابینہ میں امن برقرار کرنے کے لئے فوج کے خصوصی دستے گولان یونٹ کے جوانوں کو بلایا جائے گا۔
صہیونی جنگ کابینہ کے اندر اس قدر کشیدگی اور اختلافات کی بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں
1۔ طوفان الاقصی میں شکست اور نتن یاہو کی طرف سے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار
غزہ کے خلاف جنگ کا اعلان صہیونی معاشرے میں بڑے شگاف کا باعث بنا ہے جس سے حکمرانوں اور عوام کے آپس میں گہرا شگاف پڑگیا ہے۔ جنگ طویل ہونے کے ساتھ یہ اختلافات بھی مزید گہرے ہوگئے۔
جنگ کے ابتدائی دنوں میں نتن یاہو نے سوشل میڈیا پر بیانات میں حالات اور بحران کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا جس سے صہیونی حکومتی ایوانوں میں اختلافات شروع ہوگئے۔ نتن یاہو نے طوفان الاقصی کے ابتدائی نقصانات کا ذمہ دار فوجی رہنماوں کو قرار دیا۔ انہوں نے دفاعی اداروں کی طرف سے حماس کے اچانک حملوں کے بارے میں پیشگی خبر دینے کی تردید کی۔
2۔ نتن یاہو اور گیلانت کے ذاتی اختلافات
نتن یاہو اور گیلانت کے درمیان پہلے سے ہی اختلافات موجود تھے۔ یہ اختلافات اس وقت عروج پر پہنچ گئے جب نتن یاہو نے اعلی سیکورٹی حکام کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں گیلانت کو داخلے کی اجازت دینے سے انکار کیا۔ اس فیصلے کے بعد صہیونی جنگی کابینہ میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔
نتن یاہو نے پارٹی کے اندر گیلانت کے اثرروسوخ کو کم کرنے کی کوشش شروع کی۔
نتن یاہو نے داخلی سیکورٹی جیسے اہم معاملات اپنے بنیادی ہم فکر افراد کو دینا شروع کیا۔
صہیونی وزیراعظم نے فلسطین میں ہونے والی سرگرمیوں کے حوالے گیلانت کے اختیارات کو محدود کرکے انتہاپسند وزیر اسموتریچ کے حوالے کیا۔
گیلانت کو عدالتی اصلاحات کی کمیٹی کے عہدے سے برخاست کردیا۔
صہیونی مبصرین کے مطابق نتن یاہو ذاتی رجحانات کی بنیاد پر غزہ کے خلاف جنگ کو آگے بڑھارہا ہے۔ جس کی وجہ سے غزہ کی جنگ نہ فقط شکست ہورہی ہے بلکہ کابینہ میں اختلافات شدید تر ہورہے ہیں۔
3 دائیں بازو اور بائیں بازو کے درمیان اختلافات
صہیونی مبصرین کے مطابق اسرائیل میں دائیں بازو اور بائیں بازو کی جماعتوں کے درمیان گہرے اختلافات موجود ہیں۔ دائیں بازو کی جماعتیں انتہاپسندانہ افکار کے تحت اہداف کے حصول کی کوشش میں ہیں جبکہ بائیں بازو کی جماعتیں اعتدال اور جمہوری طریقے سے اہداف کا حصول چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے بعض شخصیات نے یہودیوں کے تقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے یرغمالیوں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرنا شروع کیا جبکہ بعض ہر قیمت پر یہودی آبادکاری کو جاری رکھنے کی ضد میں ہیں۔
4۔ طوفان الاقصی میں شکست کی وجوہات جاننے کی تحقیقات
صہیونی فوجی سربراہ نے طوفان الاقصی میں اسرائیل کی شکست کی وجہ جاننے کے لئے سابق فوجی سربراہ شاول موفاز کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس کے لئے نتن یاہو اور گیلانت سے مشورہ نہیں کیا گیا۔
جنگی کابینہ کے اجلاس میں جنرل ہالیوی پر سخت تنقید کی گئی تاہم گیلانت نے ان کی حمایت کی۔ نتن یاہو بخوبی جانتے ہیں کہ اس کمیٹی کی تحقیقات کے نتیجے میں ان کو اور فوجی سربراہان کو مورد الزام ٹھہرایا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ ان سے استعفی کی اپیل بھی کی جائے۔
نتن یاہو اس تحقیقاتی کمیٹی سے اس وجہ سے راضی نہیں ہے کہ کمیٹی کے سربراہ شاول موفاز کے ساتھ قدیمی خصومت رکھتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ تحقیقاتی کمیٹی اس وقت تشکیل دی گئی ہے جبکہ غزہ کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔
5۔ جنگ کے بعد غزہ کی حکمرانی کا مسئلہ
صہیونی کابینہ اور امریکہ کے درمیان غزہ میں جنگ ختم ہونے کے بعد تشکیل پانے والی مجوزہ حکومت کے حوالے سے اختلافات موجود ہیں۔
امریکہ جنگ کے بعد اسرائیلی فورسز کی غزہ سے واپسی چاہتا ہے۔ امریکہ غزہ میں بھی فلسطینی اتھارٹی کی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تاکہ غرب اردن اور غزہ کی حکومت کے درمیان یگانگت وجود میں آئے۔ امریکہ غزہ میں امدادی اشیاء کی فراہمی کی حمایت کرتا ہے۔ گیلانت امریکی تجاویز سے اتفاق کرتے ہیں تاہم نتن یاہو ان اقدامات کی مخالفت کرتے ہیں۔
6۔ نتن یاہو اور دائیں بازو کے رہنماوں کا اتحاد
نتن یاہو جنگ کے بعد بھی طویل مدت کے لئے دائیں بازو کے رہنماوں کی حکومت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں جس کی سربراہی بن گویر اور اسموتریچ جیسے انتہاپسند رہنما کرر ہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں گیلانت کی موجودگی وقتی ہے اور جنگ کے بعد کابینہ سے ان کو نکال دیا جائے گا اسی لئے اجلاسوں میں دائیں بازو کے رہنماوں کی رائے کو ترجیح دی جاتی ہے۔
نتن یاہو مقبوضہ علاقوں کے صہیونیوں کی حمایت حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں جس کے لئے حماس کو غزہ سے ختم کے ہدف پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہے۔ جنگ طویل ہونے کے باوجود جنگ بندی پر راضی نہیں ہیں۔ غزہ کو اسرائیلی کنٹرول میں لینے پر تاکید کررہے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کو بھی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ غرب اردن اور غزہ کے درمیان شگاف پیدا کی جارہی ہے۔ فلسطینیوں کو ہجرت اور نقل مکانی پر مجبور کیا جارہا ہے۔ سخت ترین حالات میں صہیونی آبادکاری کا منصوبہ جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
ان حالات میں صہیونی حکومت مخصوصا کابینہ کے درمیان داخلی اختلافات کی آگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ فریقین میں سے کوئی بھی جنگ میں ہونے والے نقصانات کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہے لہذا تیسرے مرحلے میں بھی یہ کشیدگی برقرار رہے گی۔
آپ کا تبصرہ