مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: طوفان الاقصی نے صہیونی حکومت کے سیاسی، اقتصادی، دفاعی اور انتظامی ڈھانچے میں زلزلہ برپا کردیا ہے۔ مبصرین کے مطابق طوفان الاقصی نے یوم کیپور کی طرح اسرائیل کے سیاسی ماحول میں ہلچل مچادیا ہے جب 1973 میں اسرائیل کو عرب ممالک پر فتح ملنے کے باوجود ابتدائی نقصانات کی وجہ سے گولڈا مائیر اور بائیں بازو کے دوسرے رہنماوں کو شدید سیاسی جھٹکا لگا اور دائیں بازو کے انتہاپسندوں کو تقویت ملی۔
مبصرین کے مطابق غزہ میں طویل مدت جنگ بندی کے بعد نتن یاہو اور دوسرے رہنماوں کے خلاف ٹرائل شروع ہوسکتا ہے جس میں کابینہ کے اراکین اور اعلی فوجی افسران کو شامل تفتیش کیا جاسکتا ہے۔ اس صورت میں لیکوڈ پارٹی اور دائیں بازو کے رہنماوں کو سخت دھچکہ لگے گا جس کے نتیجے میں دوبارہ بائیں بازو کے رہنما قومی افق پر سامنے آسکتے ہیں۔
عدالتی اصلاحات سے طوفان الاقصی تک
تقریبا ایک سال پہلے نتن یاہو اور ان کے دائیں بازو کے حامی پارلیمانی انتخابات میں 64 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ شروع میں ہی اندازہ لگایا جارہا تھا کہ اس پیچیدہ اتحاد کو مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ عدلیہ میں اصلاحات کے منصوبے کے بعد بائیں بازو کے رہنماوں نے بنی گینتز اور یائیر لاپیڈ کی قیادت میں احتجاج شروع کیا۔ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والوں کی تعداد بعض اوقات ایک لاکھ سے تجاوز کرجاتی تھی۔ حکومتی اہلکاروں نے بھی بعض اوقات ڈیوٹی دینے سے انکار کرتے ہوئے اصلاحاتی منصوبے کے خلاف احتجاج کا ساتھ دیا۔
طوفان الاقصی کے بعد صہیونی حکومت نے عدالتی اصلاحات کا منصوبہ منسوخ کرنے کا اعلان کیا جس سے حکومت اور اپوزیشن میں جنگ بندی ہوئی البتہ سروے کے مطابق صہیونی عوام نتن یاہو حکومت سے ناراض ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف راغب ہورہے ہیں۔
چینل 12 کے مطابق 2024 میں بھی نتن یاہو حکومت کی مقبولیت میں مسلسل کمی آرہی ہے۔ اس وقت اپوزیشن رہنما بنی گینتز کی جماعت کو 37 سیٹیں حاصل ہیں، جبکہ نتن یاہو کی لیکوڈ پارٹی کی سیٹوں کی تعداد 16، یائیرلاپیڈ14، لیبرمین9، آریہ درعی 9، بن گویر 8، گولڈ کنوف 7، اسموتریچ 6 اور منصور عباس کی قیادت میں عرب جماعت کی سیٹوں کی تعداد 5 ہے۔ سروے کے مطابق اس وقت انتخابات ہونے کی صورت میں بنی گینتز 69 سیٹیں حاصل کرسکیں گے جو نتن یاہو حکومت کی عدم مقبولیت کی دلیل ہے۔
موجودہ صہیونی کابینہ کے اقتدار میں رہنے یا اقتدار ختم ہونے میں بڑا کردار سعودی عرب کے ساتھ صہیونی حکومت کے تعلقات کا بھی ہوگا۔ عالم اسلام میں صہیونی حکومت کے خلاف موجود نفرت کی وجہ سے سعودی عرب آسانی کے ساتھ تل ابیب سے تعلقات قائم نہیں کرسکتا ہے۔ امریکہ میں بھی انتخابات قریب ہونے کی وجہ سے جوبائیڈن نے سیاسی مفادات کی خاطر اسرائیل پر جنگ بندی اور خودمختار فلسطین کے قیام کے بیانیے پر زور دینا شروع کیا ہے اسی وجہ سعودی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ایک بڑی شرط خودمختار فلسطینی حکومت کا قیام ہے۔ دوسری طرف صہیونی پارلیمنٹ نے 99 ووٹوں کی بھاری اکثریت کے ساتھ فلسطینی ریاست کے قیام کو مسترد کردیا ہے۔
نتن یاہو ذاتی طور پر سعودی عرب کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کے لئے پرجوش ہیں تاہم بن گویر اور اسموتریچ جیسے انتہا پسند رہنماوں نے اس عمل کو مزید پیچیدہ بنایا ہے چنانچہ بن گویر نے دھمکی دی ہے کہ اگر سعودی عرب اور واشنگٹن کے دباو میں آکر خودمختار فلسطینی ریاست کے قیام کو تسلیم کیا جائے تو کابینہ سے استعفی دیا جائے گا اور اس کے نتیجے میں نتن یاہو کی حکومت سقوط کرے گی۔
دوماہہ جریدے فارن افئیرز کے مطابق نتن یاہو حکومت نے طوفان الاقصی کے سو دنوں میں تین ایٹم بم کے برابر ہتھیار استعمال کیا ہے جس کی وجہ سے غزہ کے 70 فیصد مکانات تباہ اور 85 فیصد آبادی بے گھر ہوئی ہے۔ بعض مبصرین کے مطابق نتن یاہو حماس کی مکمل نابودی تک حملے جاری رکھنا چاہتے ہیں تاکہ اپنی حکومت کو بچایا جاسکے تاہم زمینی حقائق کے مطابق نتن یاہو حکومت کے سقوط کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ جنگ بندی کے بعد فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی تشکیل پاسکتی ہے جو تحقیقات کے بعد طوفان الاقصی میں ناکامی کے ذمہ دار افراد کا تعین کرے گی۔ اس صورت میں بنی گینتز، نفتالی بینٹ اور یوسی کوہن جیسے رہنما وزیراعظم بننے کے امیدوار ہوں گے۔
آپ کا تبصرہ