مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فیدان کا حالیہ دورۂ ایران علاقائی سیاست کے تناظر میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا جا رہا ہے۔ گزشتہ اتوار وہ تہران پہنچے اور وزیرخارجہ سید عباس عراقچی، صدر مسعود پزشکیان، قومی اسمبلی کے اسپیکر محمد باقر قالیباف اور قومی سلامتی کونسل کے سربراہ علی لاریجانی سے ملاقاتیں کیں۔
ان ملاقاتوں میں علاقائی تعاون، جنگ بندی کی کوششوں، اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے خطرے پر تفصیل سے گفتگو ہوئی۔ یہ دورہ 12 روزہ جنگ کے بعد کسی بھی ترک اعلی سطحی وفد کا ایران کا سب سے اہم دورہ تصور کیا جا رہا ہے۔ ترکی میں ماضی میں شام کے حوالے سے ایران کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے، لیکن اب ہاکان فیدان نے شام سمیت خطے میں مشترکہ تعاون کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
اسی سلسلے میں ترک خاتون ماہرامور خارجہ یشیم دمیر سے گفتگو کی گئی جس میں انہوں نے اس دورے کی اہم جہتوں کی وضاحت کی۔
ہاکان فیدان کا دورۂ ایران 12 روزہ جنگ کے بعد کسی بھی ترک حکومتی وفد کا تہران کا سب سے اہم دورہ سمجھا جا رہا ہے۔ فیدان اور وزیر خارجہ سید عباس عراقچی کی ملاقاتیں زیادہ تر علاقائی تعاون پر مرکوز تھیں۔ ان ملاقاتوں میں یوکرین کی جنگ، غزہ میں جنگ بندی، شام اور لبنان کی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔ بظاہر یوں لگتا ہے کہ یہ ملاقات زیادہ تر سیاسی اور علاقائی پہلوؤں پر مرکوز تھی۔ آپ اس کو کس طرح دیکھتی ہیں؟
ہاکان فیدان کا دورہ ایران اور ترکی کے درمیان پرانے علاقائی اختلافات پر بات چیت اور 12 روزہ جنگ کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی نئی طاقت کی صورتحال کا جائزہ لینے کی ایک اہم کوشش تھی۔ اگرچہ مذاکرات میں اقتصادی موضوعات بھی شامل تھے، لیکن اصل توجہ خطے کی سکیورٹی اور سفارتکاری پر رہی۔ تجارت میں رکاوٹیں دور کرنا، نئی سرحدی گزرگاہیں کھولنا اور ریلوے رابطے مضبوط کرنا ایسے اقدامات ہیں جو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو زیادہ فعال بنانے کے لیے ضروری ہیں۔ ایران کی جانب سے ترکیہ کے شہر وان میں نیا قونصل خانہ کھولنے کا فیصلہ اور قدرتی گیس کے معاہدے میں توسیع بھی توانائی کے شعبے میں دیرپا تعاون کی طرف اشارہ ہے۔
اس دورے کی خاص اہمیت اس بات میں ہے کہ دونوں ممالک نے بڑے علاقائی مسائل پر کھل کر گفتگو کی جن میں فلسطین اور غزہ کی موجودہ صورتحال، شام اور لبنان میں جنگ بندی کی کوششیں، اسرائیل کی علاقائی حکمت عملی اور ایران کے جوہری مذاکرات شامل ہیں۔ دونوں ممالک کا اسرائیل کی جارحانہ پالیسیوں کو مشترکہ خطرہ سمجھنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ایران اور ترکی خطے کے بارے میں اپنے خیالات میں ایک دوسرے کے قریب آرہے ہیں۔ ترکی کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی برقرار رکھنے اور مغربی کنارے پر حملوں کے رکوانے پر زور دینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ انقرہ خطے میں ایک فعال اور انسانی کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔ اسی طرح دہشت گردی کے خلاف مشترکہ سوچ اور پی کے کے کے غیر مسلح کرنے جیسے امور کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔
ایران کے لیے یہ دورہ اس وقت اہم ہے جب اس پر معاشی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اسرائیل کے ساتھ کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی اور تجارت کے شعبوں میں ترکی کے ساتھ قریبی تعاون ایران کے لیے صورتحال بہتر بنا سکتا ہے۔ ترکی کے لیے ایران کے ساتھ مضبوط تعلقات بھی بہت اہمیت رکھتے ہیں، خاص طور پر توانائی کی فراہمی، شام اور عراق میں طاقت کے توازن اور دہشت گردی کے خلاف کارروائی کے حوالے سے تہران کے ساتھ قریبی تعاون انقرہ کے لئے نہایت اہم ہے۔ چونکہ ایران کا حماس اور حزب اللہ پر اثر موجود ہے، اس لیے ترکی کی غزہ میں سفارتی کوششیں ایران کے تعاون سے مزید مؤثر ہوسکتی ہیں۔ شام اور لبنان جیسے غیر مستحکم علاقوں میں دونوں ممالک کے درمیان ہم آہنگی ضروری ہے۔ اس دورے سے واضح ہوتا ہے کہ ایران اور ترکی موجودہ علاقائی بحرانوں کے باوجود تعاون کو ترجیح دے رہے ہیں اور خطے میں نئی سکیورٹی حکمت عملی کی تشکیل میں دونوں اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔
شام میں تعیینات ترکی کے نئے سفیر کا فیدان کے وفد کا حصہ ہونا چنانچہ آپ کو علم ہے کہ شام کے مسئلے پر ہمیشہ سے تہران اور انقرہ کے درمیان اختلاف رہا ہے، کیا یہ دورہ شام کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون کی علامت ہے؟
مشرق وسطی کا مستقبل علاقائی ممالک کے درمیان تعاون کے فروغ اور مؤثر سفارت کاری پر منحصر ہے۔ ایران طویل عرصے سے شام کو اپنی قومی سلامتی کے لیے نہایت اہم خطہ سمجھتا ہے۔ اسد حکومت کے بعد ایران کی علاقائی حکمت عملی پر منفی اثر مرتب ہوا ہے اور ساتھ ہی اسرائیل کی نقل و حرکت کے لیے زیادہ مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ 2011 کے بعد کی تبدیلیوں نے نہ صرف شام کا داخلی توازن بگاڑا بلکہ پورے خطے کے جیو پولیٹیکل ڈھانچے کو بدل کر رکھ دیا۔ ایران کے اثر میں کمی اور اسرائیل کے بڑھتے ہوئے کردار نے ترکی اور ایران دونوں کو مجبور کیا کہ وہ شام سے متعلق اپنی پالیسیوں کا ازسرنو جائزہ لیں۔
اگرچہ ترکی اور ایران کے درمیان شام کے معاملے پر طویل عرصے سے اختلافات رہے ہیں، لیکن فیدان کا یہ دورہ اور دمشق میں ترکی کے نئے سفیر کی وفد میں شمولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ دونوں ممالک اس میدان میں زیادہ قریبی تعاون کے خواہاں ہیں۔ اس پیش رفت سے ایران کے شام میں اپنے اثر کو برقرار رکھنے کی حکمت عملی اور ترکی کے سکیورٹی خدشات کے پیش نظر دونوں ملکوں کے درمیان ہمفکری پیدا ہوتی ہے۔
اسرائیل کی شام میں بڑھتی ہوئی سرگرمیاں، اس کے کرد فورسز سے رابطے، شام کو ایران پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا اور کرد خودمختار حکومت کی حمایت کرنا، یہ سب عوامل ترکی اور ایران دونوں کی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرچکے ہیں۔ ترکی شام میں پی کے کے اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے اثر کو کم کرنے کے لیے ایک متبادل سکیورٹی ڈھانچے کا خواہاں ہے۔ اس تناظر میں فیدان کا دورہ دراصل خطے کے لیے ایک نئی سکیورٹی حکمت عملی کی تلاش کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے۔ لہذا اگرچہ اس دورے کو شام کے بارے میں مکمل اتفاق رائے نہیں کہا جاسکتا تاہم یہ ایک مثبت قدم ضرور ہے، جو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ حالات میں انقرہ اور تہران تعاون بڑھانے اور ہم آہنگی مضبوط کرنے کی طرف مائل ہیں۔
اس ملاقات میں اسرائیل کو مشترکہ خطرہ قرار دیا گیا۔ اسرائیل کئی بار ترکی کو بھی دھمکیاں دے چکا ہے۔ آپ اس صورتحال کا کس طرح جائزہ لیتی ہیں؟
ترکی اور اسرائیل کے تعلقات تاریخی طور پر ہمیشہ اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ اگرچہ موجودہ حالات میں دونوں ممالک کے درمیان براہ راست جنگ کا امکان نظر نہیں آتا، لیکن بالواسطہ محاذ آرائی کے امکانات خصوصا شام جیسے علاقوں میں کہیں زیادہ حقیقت کے قریب ہیں۔ اس تناظر میں نفسیاتی جنگ، خفیہ کارروائیاں یا ٹارگٹڈ حملے جیسے مختلف سیناریوز زیر غور آسکتے ہیں۔
ترکی کی نیٹو رکنیت اور امریکہ کے ساتھ اس کے قریبی تعلقات اور دوسری طرف اسرائیل کا واشنگٹن کا اہم اتحادی ہونا ان سب عوامل کو دیکھتے ہوئے پورے پیمانے کی جنگ کا خدشہ بہت کم ہوجاتا ہے۔ موجودہ خطرات زیادہ تر غیر مستقیم اور محدود نوعیت کے تناؤ کی صورت میں ظاہر ہوسکتے ہیں۔
ایسی ملاقاتوں میں فریقین کے انداز اور الفاظ کے انتخاب پر بھی توجہ دینی چاہیے، کیونکہ ان کے رویے اور لہجے ملاقات کی اہمیت کے بارے میں اشارے دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ہاکان فیدان نے ملاقات کے دوران کئی بار عراقچی کو "میرے بھائی" کہا۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ علی لاریجانی نے ٹویٹ میں کہا: "اپنے گھر میں خوش آمدید۔ ایران اور ترکی کے درمیان مزید تعاون کی امید کے ساتھ۔" کیا یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک نئے دور کی شروعات کی علامت ہے؟
یہ سفر اور لاریجانی کا پیغام دراصل ترکی اور ایران کے درمیان قریبی تعاون کے ارادے کا ایک علامتی مظہر ہیں۔ ہاکان فیدان کا عراقچی کو "بھائی" کہہ کر مخاطب کرنا اور لاریجانی کا پیغام، "اپنے گھر میں خوش آمدید، ایران اور ترکی کے درمیان مزید تعاون کی امید کے ساتھ"، دونوں ممالک کے مخلص اور مثبت رویے کی عکاسی کرتا ہے۔ تاریخی طور پر خطے کے ممالک کبھی مقابلہ کرتے رہے اور کبھی تعاون کیا اور بعض اوقات مشترکہ سلامتی اور استحکام کے لیے مل کر کام بھی کیا۔ ترکی اور ایران دونوں خطے میں امن و سلامتی کے اہم کھلاڑی ہیں۔ دونوں طرف کے استعمال کردہ سفارتی انداز سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلقات مثبت سمت میں بڑھ رہے ہیں تاہم یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا کہ یہ تعلقات کا ایک نیا دور ہے، کیونکہ مستقبل کی سمت اس بات پر منحصر ہوگی کہ دونوں ممالک آگے کون سے عملی اقدامات کرتے ہیں۔
آپ کا تبصرہ