مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عراق میں حزب اللہ لبنان اور انصار اللہ یمن کے نام دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہونے سے شدید سیاسی ہلچل اور اندرونی تنقید شروع ہوگئی۔ حکومت نے چند گھنٹوں بعد اسے غلطی قرار دیا، لیکن اس واقعے پر شکوک و شبہات اب بھی باقی ہیں۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سرکاری اخبار میں ایک دستاویز شائع ہوئی جس میں دہشت گردوں کے اثاثے منجمد کرنے والی کمیٹی کے فیصلے کا ذکر تھا۔ اس فہرست میں داعش اور القاعدہ سے وابستہ افراد و اداروں کے ساتھ حزب اللہ اور انصار اللہ کے نام بھی درج تھے۔ اس اقدام نے چند گھنٹوں میں سیاسی فضا کو شدید متاثر کیا اور وسیع ردعمل پیدا کیا۔
ابتدا میں عراقی میڈیا اور پھر عربی چینلز نے اعلان کیا کہ بغداد نے حزب اللہ اور انصار اللہ کے اثاثے منجمد کر دیے ہیں۔ یہ خبر ایسے وقت میں آئی جب عراق امریکی دباؤ، داخلی اختلافات اور نئے وزیراعظم کے انتخاب کے مسئلے سے دوچار تھا۔ اس لیے تجزیہ کاروں نے کہا کہ یہ فیصلہ شاید بغداد کی سکیورٹی پالیسی میں تبدیلی کی علامت ہے۔
اس خبر کے بعد عراق میں سوشل میڈیا پر شدید اعتراضات شروع ہوگئے۔ پارلیمانی نمائندوں اور مزاحمتی حلقوں نے اسے رسوائی اور عراق کی پالیسی سے انحراف قرار دیا۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ عراق حزب اللہ اور انصار اللہ کو دہشت گرد کہتا ہے لیکن قاتلوں کو امن کا علمبردار بناتا ہے اور حکومت سے فوری وضاحت طلب کی۔
اعتراضات بڑھنے پر مرکزی بینک نے بیان جاری کیا اور حزب اللہ و انصار اللہ کے نام شامل ہونے کی خبر کو مسترد کر دیا۔ بیان میں کہا گیا کہ عراق کی منظوری صرف ان افراد و اداروں تک محدود تھی جو براہ راست داعش اور القاعدہ سے وابستہ ہیں، اور دیگر گروہوں کے نام غیر درست نسخے کی اشاعت کی وجہ سے درج ہوئے۔ کمیٹی نے وعدہ کیا کہ فہرست درست کی جائے گی اور ان ناموں کو حذف کردیا جائے گا۔
بیان میں مزید وضاحت کی گئی کہ ملائیشیا کی حکومت نے اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت عراق سے کہا تھا کہ وہ مخصوص فہرست کا جائزہ لے۔ بغداد نے صرف کچھ ناموں سے اتفاق کیا تھا، لیکن سرکاری اخبار میں نظرثانی سے پہلے کا نسخہ شائع ہوگیا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی۔ تاہم یہ وضاحت کئی مبصرین کو قائل نہ کرسکی۔ بعض تجزیہ کاروں نے کہا کہ یہ محض ایک بہانہ ہے تاکہ حکومت دباؤ کے تحت کیے گئے فیصلے سے پسپائی اختیار کر سکے۔
اسی دوران نوری المالکی کی زیرقیادت سیاسی اتحاد نے بھی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس فہرست کو منسوخ کرے۔ اتحاد نے کہا کہ عراق بغیر درست جانچ کے ان گروہوں کے نام سکیورٹی فہرستوں میں شامل نہیں کرسکتا جو خطے کی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ بعض ذرائع نے بتایا کہ داخلی دباؤ اور مسلح گروہوں کے ردعمل کے خوف نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اپنے ابتدائی موقف سے پیچھے ہٹے۔
عربی میڈیا نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ کمیٹی نے یہ اقدام بین الاقوامی تقاضوں اور دہشت گردی کی مالی معاونت روکنے والی قراردادوں کے تحت کیا تھا۔ لیکن عوامی و سیاسی دباؤ کے بعد حکومت نے فیصلہ بدل دیا اور اعلان کیا کہ صرف داعش اور القاعدہ سے وابستہ نام ہی فہرست میں رہیں گے۔
اگرچہ حکومت نے باضابطہ طور پر اس خبر کی تردید کی، لیکن اہم سوالات باقی ہیں مثلا حزب اللہ اور انصار اللہ کے نام ابتدا میں کیوں شامل ہوئے؟ کس ادارے نے یہ غلط نسخہ سرکاری اخبار میں شائع کیا اور یہ غلطی کیسے ہوئی؟ کیا یہ فہرست امریکہ کے دباؤ کے تحت بنائی گئی تھی؟
آخرکار اگرچہ حکومت نے باضابطہ بیان کے ذریعے عقب نشینی اختیار کی لیکن مبصرین نے اسے دباؤ کے بعد پسپائی قرار دیا۔ داخلی اختلافات، مزاحمتی حلقوں کا احتجاج اور عراق کے حساس علاقائی کردار نے حکومت کو مجبور کیا کہ وہ اس فہرست سے پیچھے ہٹے۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ عراق کی داخلی سیاست کس قدر نازک ہے اور کس طرح ایک انتظامی فیصلہ بڑے سیاسی بحران میں بدل سکتا ہے۔ اگرچہ حکومت نے تردید کردی ہے، لیکن یہ معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا اور عراق کے لیے ایک پیچیدہ سکیورٹی و سیاسی چیلنج کے طور پر باقی ہے۔
آپ کا تبصرہ