مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: ایران اور جاپان دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اگرچہ دونوں خطے ایک دوسرے سے فاصلے پر واقع ہیں، تاہم ان کی ثقافتی جڑیں مضبوط اور آپس میں جڑی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ مہمان نوازی کی روایت سے لے کر قدیم روایات کے احترام تک، دونوں معاشروں میں ایسے سماجی اصول پائے جاتے ہیں جو شائستگی، انکساری اور ماضی سے وابستگی کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔
ایران میں جاپان کے سفیر نے ایران میں تعییناتی دوران ہونے والے تجربات بیان کرتے ہوئے ایرانی اور جاپانی عوام کے درمیان گہری ثقافتی مماثلتوں پر زور دیا اور کہا کہ اگرچہ دونوں ممالک جغرافیائی لحاظ سے ایک دوسرے سے بہت دور ہیں، لیکن تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے ان کے درمیان حیرت انگیز قربت پائی جاتی ہے۔
ایران اور جاپان کے درمیان ثقافتی اشتراکات کا جائزہ لینے کے لیے مہر نیوز نے ایران میں جاپان کے سفیر تاماکی تسوکادا سے ایک تفصیلی گفتگو کی جس کا متن ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:
ایران اور جاپان دونوں قدیم تہذیبوں کے حامل ممالک ہیں۔ آپ کے خیال میں ان دونوں کے درمیان سب سے اہم اور نمایاں ثقافتی مشترکات کیا ہیں؟ نیز آپ ایران اور جاپان کے ثقافتی تعلقات کے مستقبل کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
میں واقعی خوش ہوں کہ آپ نے یہ سوال اٹھایا، کیونکہ ایران میں جاپان کے سفیر کی حیثیت سے میں ہمیشہ اپنی دونوں ثقافتوں کے درمیان پائی جانے والی مماثلتوں پر غور کرتا رہتا ہوں۔ میرا خیال ہے کہ ایسے کئی درجے اور زاویے موجود ہیں جن کے ذریعے ہم اپنی ثقافت اور طرز عمل کی مشترکہ خصوصیات کو دیکھ اور سمجھ سکتے ہیں۔
انفرادی سطح پر مثال کے طور پر روزمرہ زندگی میں لوگ ایک دوسرے سے باقاعدہ آداب کے ساتھ سلام و احوال پرسی کرتے ہیں۔ بزرگوں یا مہمانوں کے احترام اور ان کے ساتھ تواضع کے اظہار کے لیے خاص آداب اور انداز اختیار کیے جاتے ہیں۔ آپ کی ثقافت میں تعارف یا مہمان نوازی جیسی روایت موجود ہے، جبکہ ہمارے ہاں بھی غیر ملکی مہمانوں کے استقبال اور خاطر تواضع کا ایک مشابہ طریقہ رائج ہے۔ میں ثقافتی ماہر نہیں ہوں، اس لیے اس موضوع میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتا، لیکن ایک سفارت کار کے طور پر میں ہمیشہ یہ سوچتا رہا ہوں کہ ممالک کے درمیان باہمی تعامل کس طرح انہی تہذیبی اور ثقافتی خصوصیات سے جنم لیتا ہے۔
جاپان اور ایران دونوں گزشتہ ایک سو سے ڈیڑھ سو برس کے دوران روایت سے جدیدیت کی طرف ایک نہایت مشکل مرحلے سے گزرے ہیں۔ مشرق اور مغرب کا تقابل، اور یہ سوال کہ اپنی تاریخ کو موجودہ حقائق کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جائے، دونوں ممالک کے لیے ایک بار بار سامنے آنے والا تجربہ رہا ہے۔ مشرق و مغرب، روایت اور جدیدیت کا یہ سوال دراصل ہمارے طرز زندگی اور رویّوں کی بنیاد بن گیا ہے۔ جب ہم روایت کی بات کرتے ہیں تو آپ نوروز مناتے ہیں یا شب یلدا کی روایت رکھتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں بھی اس نوعیت کی رسومات اور تہوار موجود ہیں۔ اسی لیے میں سمجھتا ہوں کہ رسوم و روایات، طرزعمل، آداب اور نزاکت دونوں معاشروں میں نہایت اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ ایران میں اپنے قیام کے پورے عرصے کے دوران میں مسلسل اسی پہلو پر غور کرتا رہا ہوں۔
حالیہ برسوں میں ایرانی نوجوانوں نے جاپانی اینیمے اور جاپانی زبان میں بڑھتی ہوئی دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ آپ اس رجحان کو کس طرح دیکھتے ہیں اور اسے مضبوط بنانے کے لیے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟
سب سے پہلے، جاپانی حکومت کے نمائندے کی حیثیت سے مجھے اس بات پر بے حد فخر ہے کہ میں ایسے ملک میں خدمات انجام دے رہا ہوں جہاں جاپان کے بارے میں اس قدر مثبت اور دوستانہ احساسات پائے جاتے ہیں۔ میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ ایران اور جاپان کے درمیان اس گرمجوش اور مثبت جذبے کو مزید فروغ دیا جائے۔ ہم اس رجحان کو پسند کرتے ہیں اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سفارت خانہ صرف سہولت دیتا ہے، کسی چیز کو زبردستی نہیں تھوپتا۔ ثقافت حکم سے نہیں پھیلتی، یہ خود بخود فروغ پاتی ہے۔ اگر اسے زبردستی پیش کیا جائے تو لوگ اسے محض تشہیر سمجھتے ہیں۔
اسی طرح ہم فن کے نوجوان طالب علموں یا ڈیزائن میں دلچسپی رکھنے والوں کو یہ ترغیب دینا چاہتے ہیں کہ وہ جاپان میں تعلیم حاصل کرنے کے بارے میں سوچیں۔ جاپان میں بین الاقوامی طلباء کے لیے دروازے کھلے ہیں اور یہاں فنون لطیفہ اور ڈیزائن کے بعض معتبر ترین ادارے سرگرم ہیں جو اینیمے اور سینما کے شعبوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ لہذا یہ وہ میدان ہیں جنہیں ہم مزید متعارف کرانا چاہتے ہیں اور جاپان میں تعلیم کے خواہشمند ایرانی نوجوانوں کو اس جانب دعوت دینا چاہتے ہیں۔
آپ جاپان میں فارسی زبان اور ایرانی ثقافت کی حیثیت کو کس طرح بیان کریں گے؟ جاپانی عوام ایران کی تاریخ اور ثقافتی ورثے سے کس حد تک واقف ہے؟
سب سے پہلے، فارسی یعنی پرشین زبان کے حوالے سے بات کروں تو جاپان میں کئی اعلی یونیورسٹیاں اور تعلیمی ادارے ہیں۔ ان میں سے ایک ٹوکیو یونیورسٹی آف فارن اسٹڈیز ہے، جس میں فارسی زبان کا شعبہ موجود ہے۔ دوسرا یونیورسٹی آف اوساکا ہے، جس میں بھی زبان کے شعبے کے تحت فارسی کورس دستیاب ہے۔ ہمارے سفارت خانے میں موجود کئی سفارت کار ان یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہیں اور فارسی میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان قومی یونیورسٹیوں کے علاوہ بھی کچھ نجی ادارے ہیں جہاں اس قدیم اور اہم تہذیب کو پڑھایا یا تحقیق کی جاتی ہے۔ فارسی سیکھنے والے یا محققین اکثر ایران کے قدیم زمانے میں دلچسپی کی بنیاد پر اس دنیا میں آتے ہیں۔ یہ جدید ایران نہیں، بلکہ قدیم ایرانی تہذیب ہے۔ اس لیے یہ گروہ زیادہ تر علمی نوعیت کا ہوتا ہے۔
پھر بھی، میں سمجھتا ہوں کہ اس عظیم تہذیب کے لیے جاپان میں بہت زیادہ احترام اور تعریف پائی جاتی ہے۔ یہ ایک بنیادی نقطہ آغاز ہے۔ دوسرا گروہ سفارت کار ہیں، جو فارسی کو ہنر کے طور پر استعمال کرتے ہیں تاکہ سفارتکاری اور خارجہ پالیسی کے شعبے میں کام کرسکیں۔ یہی دونوں بڑے گروہ جاپان میں فارسی بولنے اور سیکھنے والے ہیں۔
لیکن میں امید کرتا ہوں کہ اس زبان میں عام دلچسپی بھی بڑھے۔ میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ بہت مشکل زبان ہے۔ میں خود ہر ہفتے اس کے اسباق لے رہا ہوں، لیکن اپنی عمر کے پیش نظر ترقی بہت سست ہے۔ پھر بھی مجھے اس قدیم زبان سے بہت محبت اور دلچسپی ہے اور میں چاہوں گا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس بہت دلچسپ تجربے سے لطف اندوز ہوں۔
ایران اور جاپان کے درمیان سالانہ ثقافتی ہفتہ کس حد تک ایک مستقل پروگرام بنایا جاسکتا ہے؟
اصل میں چند دن پہلے ہی ہم نے اس سال کا ثقافتی ہفتہ مکمل کیا۔ اس سال ہم نے جاپانی فلم اور جدید سینما کو موضوع بنایا۔ پچھلے سال ہمارا موضوع یہ تھا کہ ایرانی فنکار جاپانی ثقافت میں اپنی تخلیق اور مہارت دکھائیں۔ اس سلسلے میں ہم نے ایک ایرانی اوریگامی آرٹسٹ، ایک ایرانی ایکیبانا آرٹسٹ اور دیگر متعلقہ ماہرین کو مدعو کیا۔ ہر سال ہم کسی خاص شعبے یا موضوع کو منتخب کرتے ہیں، اور اس سال کا مرکز جاپانی جدید فلم تھا۔
اگرچہ یہ پروگرام وقتی طور پر مختصر اور محدود ہے، لیکن پچھلے 17 سال سے یہ ایک مستقل ایونٹ رہا ہے۔ ممکن ہے کہ ہم اسے بڑے پیمانے پر عام لوگوں تک پہنچانے میں پوری طرح کامیاب نہ ہوسکے، لیکن ہر سال ایرانی عوام کی اچھی تعداد شرکت کرتی ہے۔ نوجوان سے لے کر بزرگ، ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے اس میں دلچسپی لیتے ہیں۔ خاص طور پر 2019 میں ہم نے جاپان اور ایران کے سفارتی تعلقات کی 90ویں سالگرہ منائی، اور اس موقع پر ایک بڑا ثقافتی پروگرام بھی منعقد ہوا جو تقریباً ایک ماہ جاری رہا۔
اسی طرح، جاپان میں بھی ہر سال تقریبا ایسی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔ 2024 میں ایٹرنل پرشیا نمائش ہوئی، جس میں ساسانی دور سے لے کر موجودہ زمانے تک کے ایرانی فن، دستکاری اور دلچسپ اشیاء پیش کی گئیں۔ 2011 میں جاپان میں گلوری آف پرشیا کے عنوان سے ایک آرٹ نمائش ہوئی، جس میں سِلک روڈ کے ذریعے جاپان اور ایران کے درمیان تجارت ہونے والی تصویریں، مٹی کے برتن اور پورسلین پیش کیے گئے۔
2006 میں جاپان میں ایران کے موضوع پر سب سے بڑی نمائشوں میں سے ایک ہوئی، جسے گرینڈ پرشیا سویلائزیشن کہا گیا۔ اس نمائش میں 200 سے زیادہ اشیاء ایرانی نیشنل گیلری سے جاپان منتقل کی گئیں اور تقریبا ایک سال تک پورے جاپان میں نمائش کی گئیں۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں کہ ایرانی ثقافت اور تہذیب نے جاپان پر کس حد تک اثر ڈالا ہے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ تین سے ڈیڑھ سال بعد یعنی 2029 میں جب سفارتی تعلقات کی سو سالہ تقریبات ہوں، تو ایک بہت بڑی ثقافتی تقریب منعقد کی جائے۔
ایران میں کون کون سے شہر نے آپ کو سب سے زیادہ متاثر کیا، اور آپ ذاتی طور پر کس شہر پسند کرتے ہیں؟
ایران آنے پر سب سے زیادہ حیران کن تجربہ تہران سے تھا، کیونکہ اس سے پہلے میں ایران کبھی نہیں آیا تھا۔ میں نے توقع کی تھی کہ ایران بہت روایتی، شاید کچھ دباؤ والا یا اداس ماحول رکھتا ہوگا۔ لیکن شہر میں چند منٹ کی ڈرائیو کے بعد یہ بالکل حیران کن تجربہ تھا۔
تہران میں ایک طرح کا سیکولر، تقریبا یورپی انداز نظر آیا، شہر میں رونق، انرژی، اقتصادی سرگرمیاں، اور حتی کہ لگژری بھی نظر آئی۔ یہ وہ کچھ نہیں تھا جس کی میں توقع کر رہا تھا۔ اس لحاظ سے، تہران میرے لیے سب سے زیادہ حیران کن شہر تھا۔
جہاں تک سب سے زیادہ متاثر کن یا حیران کن تجربے کا تعلق ہے، مجھے سب سے زیادہ اصفہان نے متاثر کیا۔ شہر کی عظمت، مکمل فن تعمیر، منصوبہ بندی، اور شاندار حسن واقعی لاجواب تھا۔ ساتھ ہی میں اس کی چھوٹی چھوٹی باریکیاں اور زاویوں کی نزاکت سے بھی بہت متاثر ہوا۔ جیسے سورج کی روشنی کس زاویے سے آتی ہے۔ یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر بنایا گیا تھا۔ ہر چیز تقابلی اور ریاضیاتی انداز میں ترتیب دی گئی تھی، جو واقعی متاثر کن تھا۔ لہذا میں یہ کہوں گا کہ تہران اور اصفہان دونوں میرے لیے اہم تجربے ہیں۔ دونوں بالکل مختلف نوعیت کے شہر ہیں، مگر ہر ایک نے گہرا تاثر چھوڑا ہے۔
ایران میں تعییناتی کے دوران آپ کا سب سے یادگار یا دلچسپ تجربہ کیا رہا؟
درحقیقت، اتنے زیادہ تجربات ہیں کہ کہنا مشکل ہے کہ صرف ایک سب سے یادگار تھا۔ لیکن اگر آپ اجازت دیں تو میں دو بہت یادگار تجربات بتاؤں گا۔ ایک میرا تہران کے جنوبی حصے، ری میں واقع جاپانی یا غیر ملکی قبرستان کا دورہ ہے، جہاں جاپانی شہریوں کے لیے ایک چھوٹا سا حصہ مختص ہے جو ایران یا تہران میں فوت ہوئے تھے۔ یہاں تہران میں جاپانیوں کی آٹھ قبریں ہیں، اور زیادہ تر بہت کم عمر کے تھے۔ ان میں ایک دو سالہ بچی بھی شامل تھی جو 1930 کی دہائی میں جاپانی سفارت خانے سے منسلک ایک ڈاکٹر کی بیٹی تھی۔ ایک اور قبر ایک نوجوان لڑکے کی ہے، جس کی عمر اگر مجھے صحیح یاد ہے تو 19 یا 20 سال تھی، یعنی بہت کم عمر۔ وہ ایک یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اس کا والد جاپانی سفارت کار تھا جو اس وقت تہران میں کام کرتا تھا۔ وہ رومانیہ میں تعلیم حاصل کر رہا تھا اور اپنے والدین سے ملاقات کے لیے تہران آیا، لیکن وہاں ٹائفائڈ کے سبب انتقال کرگیا۔ اس کا والد جاپانی تھا اور والدہ کا تعلق رومانیہ سے تھا۔
دوسرا بہت یادگار تجربہ اس سال 12 روزہ جنگ کے دوران ہوا۔ اس وقت میں اپنی چھٹی جاپان میں گزار رہا تھا، لیکن جنگ شروع ہوگئی اور میرے باس نے مجھے ایران واپس آنے کا حکم دیا۔ چوتھے دن میں آذربائیجان کے راستے تہران واپس آیا۔ باکو سے آستارا اور پھر خزر کے کنارے سفر کیا۔ قزوین سے تہران تک تقریبا 10 سے 12 گھنٹے کی ڈرائیو ہوئی۔
یہ بہت دلچسپ تجربہ تھا کیونکہ سب لوگ باہر جا رہے تھے، لیکن میں ان لوگوں میں سے تھا جو الٹی سمت میں آ رہا تھا۔ اس لیے مجھے سڑکوں پر آزادی اور گاڑیوں کی کمی کا فائدہ ملا، سفر بہت آرام دہ اور آسان رہا۔
آپ کا تبصرہ