1 اکتوبر، 2025، 3:07 PM

ترک تجزیہ نگار کی مہر نیوز سے خصوصی گفتگو:

امریکہ کا مقصد مادورو کو اقتدار سے ہٹانا ہے، ونزویلا پر قبضہ ممکن نہیں

امریکہ کا مقصد مادورو کو اقتدار سے ہٹانا ہے، ونزویلا پر قبضہ ممکن نہیں

ترک تجزیہ نگار نے وینزویلا کے خلاف امریکی جارحانہ اقدامات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کا اصل مقصد نیکولاس مادورو کو اقتدار سے ہٹانا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک، آذر مہدوان: امریکہ اور وینزویلا کے درمیان تعلقات حالیہ برسوں میں شدید کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کے خلاف سخت پابندیاں عائد کیں اور انہیں غیر جمہوری حکومت قرار دیا۔ اس صورتحال نے وینزویلا کی معیشت اور عوام کی زندگیوں پر گہرے اثرات مرتب کیے اور خطے میں سیاسی و عسکری کشیدگی کو بڑھایا۔ امریکہ کی جانب سے فوجی کارروائی کے خدشات اور جاسوسی سرگرمیاں بھی تشویش کا باعث بنی ہیں۔ اس تمام صورتحال پر بین الاقوامی برادری میں امریکہ کی پالیسیوں پر تنقید بھی ہو رہی ہے، جہاں کچھ ممالک اسے علاقائی امن کے لیے خطرہ قرار دیتے ہیں اور سفارتی حل کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وینزویلا کی حکومت نے بھی امریکی مداخلت کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے اور کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کی دھمکی دی ہے۔
ونزویلا کے صدر نیکلاس مادورو نے امریکی حکومت کے ردعمل میں کہا ہے کہ شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک، ہم ملک میں امن، خودمختاری اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کوشش کریں گے، اور یہ سنہری اصول میں نے کمانڈر شاویز سے سیکھا ہے۔ حالیہ دنوں میں واشنگٹن اور کراکس کے درمیان کشیدگی نئی سطح پر پہنچ چکی ہے اور ماہرین کے مطابق، دونوں ممالک فوجی تصادم کے دہانے پر ہیں۔

امریکہ نے اگست میں کیریبین سمندر میں اپنے جنگی بیڑے روانہ کیے، جس کی وجہ منشیات کے اسمگلروں کے خلاف کارروائی بتایا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ مادورو پر منشیات کے ایک بڑے اسمگلر گروپ کی قیادت کا الزام عائد کرچکے ہیں۔ اس کشیدگی کے پیش نظر، وینزویلا کے صدر نے ہنگامی حالت نافذ کرنے کا قانونی حکم جاری کیا تاکہ ملک کو کسی بھی امریکی فوجی جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے۔

مہر خبر رساں ایجنسی نے اس معاملے کی تفصیلی جانچ کے لیے معروف ترک سیاستدان، لاطینی امریکہ کے امور کے تجزیہ نگار اور ترکی میں وطن پارٹی کے سابق صدر یونس سونر سے گفتگو کی۔

مہر نیوز: گزشتہ سال مادورو کو انتخابات میں ہرانے کی ناکام کوشش کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ نے کیریبین سمندر میں اپنے جنگی بیڑے تعینات کر دیے ہیں اور اس کارروائی کو منشیات کے اسمگلروں کے خلاف جنگ کے طور پر پیش کیا ہے۔ آپ امریکہ کی وینزویلا کے گرد حالیہ فوجی تحرکات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟

یونس سونر: امریکہ کی منشیات کے خلاف جنگ کے دعوے پر شدید سوال اٹھتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق، جنوبی امریکہ سے شمالی امریکہ اور یورپ کو منتقل ہونے والے منشیات کا صرف ۵ فیصد وینزویلا سے گزرتا ہے۔ اس کے برعکس، جنوبی امریکہ سے شمالی امریکہ جانے والے زیادہ تر منشیات کا راستہ کولمبیا سے گزرتا ہے۔ کولمبیا میں سات امریکی فوجی اڈے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ اڈے منشیات کے خلاف کسی قسم کی فعالیت نہیں کررہے ہیں۔ لہذا، یہ دعویٰ بظاہر ایک بہانہ ہے جسے امریکہ نے نئی جارحیت کے لیے استعمال کیا اور زیادہ تر عوامی رائے کو قائل کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی آبادی کا 20 فیصد لاطینی امریکہ سے تعلق رکھتی ہے اور ہزاروں ونزویلائی اس ملک میں مقیم ہیں۔ ٹرمپ نے اپنے مقصد کو واضح طور پر بیان کیا ہے؛ انہوں نے مادورو کے لیے انعام مقرر کیا اور انہیں منشیات کے کاروبار کا براہِ راست ذمہ دار قرار دیا، اور اعلان کیا کہ اصل مقصد انہیں اقتدار سے ہٹانا ہے۔

میں نے قبل ازیں روی دازا، پارلیمنٹ کے سینئر رکن اور سوشلسٹ متحدہ پارٹی کی خارجہ امور کمیٹی کے رکن، سے ملاقات کی۔ دازا کا کہنا ہے کہ امریکہ کا مقصد حکومت تبدیل کرنا ہے۔ یہ تاثر وینزویلا میں ہر سطح پر موجود ہے؛ چاہے یہ حاکم جماعت ہو یا امریکی حمایت یافتہ اپوزیشن، سب کا خیال ہے کہ امریکہ مادورو کی حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

مہر نیوز: ٹرمپ کی لاطینی امریکہ میں پالیسی کیا ہے؟ اور یہ دعویٰ کہ واشنگٹن کا اس خطے میں بنیادی مقصد روس اور چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنا ہے، کس حد تک درست ہے؟

یونس سونر: اگرچہ بائیڈن کے دور میں امریکی خارجہ پالیسی میں جنوبی امریکہ اہمیت رکھتا تھا، لیکن یہ امریکہ کے ایجنڈے میں سے اہمیت والا پوائنٹ نہیں تھا۔ بائیڈن کے دور میں زیادہ تر ترجیح یورپی یونین کے ساتھ تعلقات، یوکرین تنازع اور خاص طور پر چین کے ساتھ مقابلہ تھا۔ اسی وجہ سے بائیڈن کے دور میں امریکہ نے کچھ حد تک لاطینی امریکہ کو نظر انداز کیا۔ لیکن ٹرمپ کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ پالیسی بدل گئی اور لاطینی امریکہ کے ساتھ تعلقات دوبارہ ایک اہم ترجیح بن گئے۔ ٹرمپ، جو لاطینی امریکہ کو اپنا ذیلی علاقہ سمجھتا تھا، نے اس خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کی 

امریکہ کا سب سے بڑا مقصد لاطینی امریکہ میں دوبارہ کنٹرول قائم کرنا اور خود کو مطلق طاقت کے طور پر مستحکم کرنا ہے۔ اس مقصد کے لیے، خطے کے ممالک کے روس، چین اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات کو کمزور کرنا ایک اہم اقدام ہے۔ ہونڈوراس جیسے چھوٹے ملک میں بائیں بازو کی حکومت کے انتخابات کے بعد، چین کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم کیے گئے اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں شمولیت اختیار کی، جسے امریکہ نے پسند نہیں کیا۔ نتیجتاً، جنوبی امریکہ میں امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے درمیان ممکنہ کشیدگی پیدا ہوسکتی ہے۔

مہر نیوز: وینزویلا اور امریکہ کے درمیان دشمنی کے تسلسل کو مدنظر رکھتے ہوئے، کیا ہم بڑھتی ہوئی کشیدگی اور ممکنہ فوجی تصادم کی توقع رکھ سکتے ہیں؟ جیسا کہ آپ جانتے ہیں، مادورو نے کہا ہے کہ اگر ہمیں مسلح تصادم پر مجبور کیا گیا تو ہم اس کے لیے مکمل طور پر تیار ہیں۔

یونس سونر: امریکی اعداد و شمار کے مطابق، اس وقت وینزویلا کے ساحل کے نزدیک 5 مختلف جنگی جہاز تعینات ہیں اور 4 ہزار فوجی موجود ہیں۔ تاہم، یہ تعداد زمینی حملے کے لیے کافی نہیں، لہذا وینزویلا پر کسی زمینی فوجی حملے کا امکان کم ہے۔ حالیہ حملوں سے امریکہ نے وینزویلا کے خلاف خطرے کو بڑھایا ہے۔ براہ راست تصادم کا امکان کم ہے، لیکن میزائل یا فضائی حملے کا امکان سنجیدہ ہے۔ اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ مسلح کشیدگی جاری رہے گی۔

کولمبیا کا موقف بھی اہم ہے۔ سابقہ حکومتوں میں کولمبیا نے امریکہ کے حامی پالیسیوں کے تحت محطاط طریقے سے ونزویلا کی حمایت کی تھی، لیکن موجودہ صدر گوستاوو پیٹرو نے امریکہ کے خلاف واضح موقف اختیار کیا ہے اور اعلان کیا کہ وہ وینزویلا کے خلاف کسی حملے میں شریک نہیں ہوں گے۔ انہوں نے فلسطین کی آزادی کے لیے امریکہ اور اسرائیل سے بھی مضبوط فوج کے قیام کی تجویز کی حمایت کی۔

نتیجتاً، کولمبیا کا موقف براہ راست تصادم کے امکان کو کم کرتا ہے، تاہم سیاسی کشیدگی اور جزوی جھڑپیں جاری رہیں گی۔ ریچرڈ گرنل، ٹرمپ کے خصوصی نمائندہ برائے وینزویلا، نے مادورو حکومت سے رابطہ کر کے کہا کہ جنگ کے علاوہ بھی سفارتی حل کے راستے موجود ہیں۔

News ID 1935692

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha