مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گزشتہ دنوں ٹی وی پر قوم سے خطاب میں یوکرائن جنگ کے پس منظر اور امریکی کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ نے اپنی مداخلت پسندانہ فطرت اور اسٹرٹیجک مفادات کی بنیاد پر یوکرائن کو اس تباہ کن جنگ میں دھکیلا، مگر اسے کوئی نتیجہ نہیں ملا۔
رہبر معظم نے کہا کہ موجودہ امریکی صدر نے دعوی کیا تھا کہ وہ یوکرائن کا مسئلہ حل کر دیں گے، مگر آج ایک سال بعد امریکی حکومت یوکرائن پر زبردستی اٹھائیس نکاتی منصوبہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ وہ منصوبہ جس کا باعث خود امریکہ بنا۔
تین دنوں میں جنگ بندی، زمینی حقائق سے بالاتر دعوی
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیان کے تجزیاتی جائزے میں اس امر کی نشاندہی کی گئی کہ واشنگٹن نے اپنے مفادات کے تحت روس کا اثر کمزور کرنے کے لیے یوکرین کو جنگ میں دھکیلا۔ امریکہ اور یورپ نے یوکرین کو روس کے مقابل لاکر اسے قربانی کا بکرا بنایا تاکہ ماسکو کو ایک طویل اور نقصان دہ جنگ میں الجھایا جائے، جبکہ یوکرائن کی تباہی ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ نیٹو ممالک نے بارہا یوکرائن کی عسکری طاقت بڑھانے اور اسے نیٹو میں شامل کرنے کی حمایت کی، جبکہ صدر زیلنسکی کی مغرب نواز حکومت نے بھی واشنگٹن اور نیٹو کی بھرپور حمایت پر روس کے ساتھ عسکری محاذ آرائی کو قبول کیا۔ انہی اقدامات نے بالآخر پورے خطے کو شدید عدم استحکام سے دوچار کیا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنی گفتگو میں اس طرف بھی اشارہ کیا کہ موجودہ امریکی صدر نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ تین دن کے اندر یوکرین کی جنگ ختم کر دے گا، مگر تقریبا ایک سال گزر جانے کے باوجود جنگ بدستور جاری ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ٹرمپ نے دعوی کیا تھا کہ وہ زور اور دباؤ کے ذریعے روس اور یوکرائن کے درمیان امن قائم کر دے گا۔ اسی دوران ان کے نائب جے ڈی وینس بڑے اعتماد سے کہا کرتے تھے کہ ٹرمپ روسیوں، یوکرینیوں اور یورپیوں کو بٹھا کر کہیں گے کہ خود آپس میں بیٹھ کر امن معاہدہ طے کریں۔ لیکن وقت نے ثابت کیا کہ یہ دعوے حقیقت سے بہت دور تھے۔
ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان کئی ٹیلی فون کالز ہوئیں، حتی کہ ریاض میں امریکہ اور روس کے اعلی حکام کی ملاقات بھی ہوئی، مگر کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ جب ٹرمپ روس کو قائل کرنے میں ناکام ہوگئے تو انہوں نے یوکرائن اور یورپ پر دباؤ ڈال کر انہیں روس کے ساتھ مذاکرات پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔ ٹرمپ کی یوکرائنی صدر کے ساتھ وہ توہین آمیز ملاقات جس کا نتیجہ زیلنسکی کی وائٹ ہاؤس سے بے دخلی کی صورت میں نکلا، اس بات کا ثبوت تھی کہ یوکرین بحران حل کرنا ٹرمپ کے اندازے سے کہیں زیادہ مشکل تھا۔
ٹرمپ کا 28 نکاتی امن منصوبہ
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنی گفتگو میں ٹرمپ کی جانب سے 28 نکاتی منصوبہ مسلط کرنے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ اب ایک سال بعد وہی شخص اس ملک پر 28 نکاتی منصوبہ زبردستی ٹھونس رہا ہے جسے جنگ میں امریکہ نے خود دھکیلا تھا۔ یہ 28 نکاتی منصوبہ جو امریکہ نے یوکرائن کے سامنے رکھا ہے، دراصل روس کے مفادات کے عین مطابق ہے۔ یہ منصوبہ ایسے وقت میں لایا گیا ہے جب روس میدان جنگ میں آگے بڑھ چکا ہے، اہم یوکرائنی شہروں پر اس کا کنٹرول مضبوط اور اس کی پوزیشن بہت مستحکم ہوچکی ہے۔ اسی لیے ٹرمپ نے یوکرائن یا یورپی ممالک کی رائے معلوم کرنے کے بجائے پہلے روس کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق یوکرائن کے دو اہم اور اسٹریٹجک شہر دونیتسک اور لوہانسک روس کے پاس رہیں گے۔ کریمیا بھی مستقل طور پر ماسکو کے کنٹرول میں رہے گا۔ روس پر عائد پابندیاں بتدریج ختم کی جائیں گی۔ نیٹو کو روس کے ساتھ مذاکرات کر کے اس کی رضامندی حاصل کرنی ہوگی۔ یوکرائن کی نیٹو میں شمولیت کا موضوع مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا اور امریکا اس پورے منصوبے کا ضامن بنے گا۔
اس یکطرفہ منصوبے میں روس کی واحد ذمہ داری یہ ہے کہ وہ یوکرین پر مزید حملے روک دے۔ یہی واحد فائدہ ہے جو اس منصوبے کے تحت یوکرائن کو ملتا ہے۔
یوکرائن جنگ، امریکہ اور نیٹو کی ناکامیوں کا ایک نیا باب
ظاہر ہے کہ نیٹو کے کئی رکن ممالک جن میں برطانیہ، فرانس اور جرمنی شامل ہیں، اس امریکی منصوبے سے متفق نہیں۔ اس کے باوجود یہ بات تقریبا طے ہے کہ نیٹو کو مشرق کی طرف مزید توسیع سے ہاتھ کھینچنا پڑے گا اور یوکرائن کے اہم اور اسٹریٹجک علاقوں پر روس کی بالادستی تسلیم کرنا ہوگی۔ اگر نیٹو اس منصوبے کو قبول کر لیتا ہے، تو یہ فیصلہ تاریخ میں نیٹو کی ایک اور بڑی ناکامی کے طور پر درج ہوگا۔ بالکل اسی طرح جیسے افغانستان پر قبضے کے بعد اسے رسوائی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے بیانات کے مطابق، امریکہ کی شروع کی ہوئی یہ تباہ کن جنگ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکی اور ٹرمپ کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کا ثبوت بن کر سامنے آئی۔ وہی امریکی صدر جو دعوی کرتا تھا کہ وہ تین دن میں یوکرائن کا مسئلہ حل کر دے گا، جنگ مسلط کرنے کے بعد آج 28 نکاتی امن منصوبہ زبردستی پیش کرکے امن قائم کرنا چاہتا ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک یوکرائن میں امن کے آثار بھی دکھائی نہیں دیتے۔
آپ کا تبصرہ