مہر خبررساں ایجنسی_سیاسی ڈیسک: غزہ پر صہیونی حکومت کی جارحیت کے 40 دن پورے ہورہے ہیں۔ اس دوران صہیونی حکومت کی وحشیانہ بمباری اور جارحانہ حملوں کی وجہ سے 11 ہزار سے زائد فلسطینی بے گناہ شہری شہید ہوچکے ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ اگرچہ بے گناہ لوگوں کا قتل عام صہیونی حکومت کی نظر کوئی اہمیت نہیں رکھتا لیکن تعجب مغربی ممالک کے رویے پر ہوتا ہے جو خود کو انسانی حقوق کا علمبردار کہلاتے ہیں۔
غزہ پر جارحیت کے لئے جددید ترین ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود صہیونی فورسز کو انتہائی نقصان اٹھانا پڑرہا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک کی وسیع حمایت حاصل ہونے کے باوجود اسرائیل ان نقصانات سے نہیں بچ پایا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسرائیل اپنے نقصانات کا اعداد و شمار دینے میں حقائق چھپارہا ہے۔ حقیقی اعداد و شمار اس سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔
مہر نیوز کے نامہ نگار نے فلسطین کے حوالے سے پاکستان سے تعلق رکھنے والے معروف محقق اور المصطفی انٹرنیشنل یونیورسٹی ایران کے استاد علامہ ڈاکٹر یعقوب بشوی سے گفتگو کی ہے جو قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
مہر نیوز: عالم اسلام میں فلسطین کی جغرافیائی اور تاریخی کیا حیثیت ہے؟
ڈاکٹر یعقوب بشوی: فلسطین بارہ سو سال تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا ہے۔ خلیفہ دوم کے دور میں ابوعبیدہ جراح کی قیادت میں مسلمانوں نے فتح کیا۔ فلسطین کو مسلمانوں نے یہودیوں کے بجائے عیسائیوں سے قبضے میں لیا ہے۔ جب انہوں نے فلسطین کو مسلمانوں کے حوالے کیا تو باقاعدہ عہدنامہ لکھا کہ کبھی فلسطین یہودیوں کے حوالے نہیں کرنا ہے۔ چنانچہ امام خمینی رح کا فرمان ہے کہ فلسطین اسلام کے بدن کا حصہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فلسطین کی تاریخ میں کبھی یہودیوں کی حکومت نہیں رہی ہے۔ جنگ عظیم اول تک مسلمانوں کے قبضے میں رہا۔ اس کے بعد کچھ عرصے کے لئے دوبارہ عیسائی اس پر قابض ہوگئے لیکن دوبارہ مسلمانوں نے جنگ کے ذریعے فلسطین کو حاصل کیا۔
1948 میں فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ ہوا اس کے بعد سے ابھی تک صہیونی حکومت کا قبضہ ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے بھی فلسطین مسلمانوں کا ہے کیونکہ چاروں طرف مسلمان ہیں۔ اردن، مصر، شام اور لبنان کی سرحدیں اس سے ملتی ہیں۔ فلسطین کے اردگرد کوئی بھی عیسائی ملک نہیں ہے۔ 1948 میں عیسائیوں اور یہودیوں نے مل کر مسلمان ملک کے اندر ایک یہودی ملک تشکیل دیا۔ جس طرح کوئی باہر سے آکر ہمارے گھر پر قبضہ کرے اور اپنا دعوی کرے تو کوئی قبول نہیں کرتا ہے اسی طرح آج فلسطینی عوام اپنے حقوق کا دفاع کررہے ہیں۔ فلسطینیوں نے کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کیا ہے بلکہ اپنے گھر اور ملک کا دفاع کررہے ہیں۔ لیکن مظلوم ہیں کیونکہ طاقت اور دولت دشمنوں کے پاس ہے لہذا فلسطینی اپنے گھر میں بھی مجرم کی طرح رہتے ہیں۔ فسلطینی تاریخ میں بہت مظلوم ہیں جن کو اپنے ملک اور گھر میں سکون سے محروم کیا گیا۔ جن کو اپنے حقوق کے دفاع کے جرم میں دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ یہ دنیا کا اصول ہے کہ جب کسی سے منہ پھیرتی ہے تو اس کا جینا حرام کردیتی ہے۔ آج غاصب صہیونیوں کو مظلوم اور مظلوم فلسطینیوں کو دہشت گرد کے نام سے پکارا جارہا ہے۔
مہر نیوز : قرآن و روایت کی روشنی میں فلسطین کی کیا اہمیت ہے؟
ڈاکٹر یعقوب بشوی: فلسطین انبیاء کی سرزمین ہے۔ الخلیل میں حضرت ابراہیم کی قبر ہے۔ آپ نے اپنے دونوں بیٹوں کو مہاجرت کرکے لے گئے۔ حضرت اسماعیل کو مکہ لے جاکر کعبہ کو ان کے حوالے کردیا۔ جبکہ حضرت اسحاق کو فلسطین لے جاکر مسجد الاقصی کو ان کے حوالے کردیا۔ حضرت مریم نے حضرت عیسی کو فلسطین میں جنم دیا۔ آپ مسجد اقصی میں تھیں اور آواز آئی کہ مسجد سے نکل جائیں۔ قرآن میں فلسطین کی تاریخ تفصیلی طور پر موجود ہے۔ کسی مقام پر ارض مقدسہ کہا تو کسی مقام پر ارض مبارکہ کہا۔ اسی فلسطین میں وادی مقدس طوی موجود ہے جہاں حضرت موسی کو جوتے اتارنے کا حکم ہوا۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیتوں میں باقاعدہ طور پر فلسطین میں پیش آنے والے واقعات کا خاکہ پیش کیا ہے۔ قرآن میں تاکید کے ساتھ بنی اسرائیل کے فساد کو خدا نے بیان کیا ہے۔
انبیاء اور اولیاء کا قتل اور آسمانی کتابوں میں تحریف ان کی کارستانیاں ہیں۔ اسی لئے خدا نے ان کو بندر جیسا قرار دیا ہے۔ قرآن میں خدا کا ارشاد ہوتا ہے کہ یہودی پورے روئے زمین پر فساد پھیلائیں گے۔ پہلا موقع آئے تو پوری زمین پر فساد پھیلائیں گے تو ان کو کوئی روکنے والا نہیں ہوگا تو اس خدا خود اپنے بندوں کو بھیجے گا۔ اس موقع پر بعض مفسرین نے کافر بادشاہوں کو مصداق قرار دیا ہے جو کہ آیت سے منافات رکھتا ہے کیونکہ وہ اللہ کے بندے نہیں تھے۔اللہ کے بھیجے ہوئے بندے فلسطین جاکر یہودیوں کو گھر گھر سے پکڑ کر ماریں گے۔ اس کے بعد دوبارہ اللہ یہودیوں کو قدرت دے گا جس میں مال، اولاد اور دفاعی طاقت شامل ہے۔ اس کے بعد اللہ کا دوسرا وعدہ پورا ہوگا کیونکہ یہودیوں نے زمین پر فساد پھیلایا اور تکبر کیا۔ اس مرتبہ ہمارے بندے فلسطین اور مسجد اقصی سے پکڑ کر یہودیوں کے وجود سے زمین کو پاک کردیں گے جوکہ امام زمان عجل اللہ فرجہ کے ظہور کے ساتھ پورا ہوگا۔
مہر نیوز : طوفان الاقصی کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ اسرائیلیوں کے ستر سالہ مظالم کا ردعمل ہے؟
ڈاکٹر یعقوب بشوی: یہ مکافات عمل ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ اگر اچھا کروگے تو اچھا جواب میں ملے گا اور برائی کا جواب اسی دنیا میں برائی سے ملے گا۔ ستر سالوں سے فلسطینوں کے مال دولت اور جان اور ناموس پر اسرائیلیوں نے رحم نہیں کیا۔
اب اللہ کا قانون حرکت میں آیا ہے اسی لئے فلسطینی عوام اب اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے ہیں۔ ایک دور میں فلسطینی جوان اسرائیلی ٹینکوں پر غلیل سے پتھر مارتے تھے لیکن اب ان کے پاس جدید اسلحہ ہے۔ طوفان اقصی ابھی اس مرحلے کا آغاز ہے۔ اگلے مرحلے میں اسرائیل مکمل نابود ہوجائے گا۔ یہودیوں کو واپس اپنے آبائی ممالک میں جانا ہوگا۔
مہر نیوز : طوفان اقصی کے بعد اسرائیل غزہ میں بربریت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ عالمی طاقتیں اسرائیل کی حمایت کررہی ہیں۔ عالم اسلام میں عوام اور حکمرانوں میں بڑا فرق کیوں ہے؟
ڈاکٹر یعقوب بشوی: عوام کی بیداری اہم ہے۔ ظہور کے وقت مولا کا ساتھ عوام نے دینا ہے۔ اسلامی ممالک کے حکمران استکبار کے مزدور ہیں چنانچہ پاکستانی پارلیمانی نمائندے اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ رسول اکرم کے سامنے ہماری شکایت نہ کرنا کیونکہ ہمارے اندر ظالموں کے خلاف آواز بلند کرنے کی جرئت نہیں ہے۔ عالم اسلام میں صرف ایران ہے جو استکبار سے لڑرہا ہے۔ کسی عرب یا سنی ملک نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔ کسی کے اندر اسرائیل کی مذمت کرنے کی جرائت نہیں ہے۔ غزہ میں بچے شہید ہورہے ہیں۔ غذائی اجناس اور دوائیوں کی قلت ہے لیکن اپنی سرحدیں کھولنے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ ممالک عالم اسلام کے لئے کینسر کی مانند ہیں۔ ان ممالک کے عوام نے ان حکمرانوں کو انتخاب نہیں کیا ہے۔ کچھ ادارے عوام کے نام پر نمائندے منتخب کرتے ہیں۔
آج امریکہ اور اسرائیل اور مغربی ممالک ان کے آقا ہیں جن کے سامنے یہ لوگ بھیک مانگتے ہیں۔ آج قرآن پر عمل نہیں ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے آواز نہیں اٹھ رہی ہے البتہ حزب اللہ جیسی تنظیمیں امریکہ اور مستکبرین سے مقابلہ کرنے کے لئے کافی ہیں۔ حزب اللہ صرف لبنان میں نہیں بلکہ ہر ملک میں ہے۔
ان شاءاللہ ہم زندہ رہیں تو مولا امام زمان عج کے رکاب میں جنگ کریں گے اور مرجائیں تو قبر سے لبیک کہتے ہوئے مولاعج کی نصرت کریں گے۔
آپ کا تبصرہ