مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: تہران میں ایران، چین اور سعودی عرب کے درمیان اعلیٰ سطحی سہ فریقی اجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد بیجنگ معاہدے پر عملدرآمد کے طریقۂ کار کا جائزہ لینا اور باہمی تعاون کو آگے بڑھانا تھا۔ یہ اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب ایران کو مغربی ممالک کی جانب سے اقتصادی پابندیوں اور سفارتی دباؤ کا سامنا ہے، تاہم تہران علاقائی اور عالمی سطح پر متبادل سفارتی فریم ورک کے تحت سرگرم کردار ادا کر رہا ہے۔
ایران، سعودی عرب اور چین کی مشترکہ کمیٹی کا یہ تیسرا اجلاس بیجنگ معاہدے کا تسلسل ہے، جس کے ذریعے تہران اور ریاض کے درمیان سفارتی تعلقات بحال ہوئے تھے۔ اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے مکالمے، اعتماد سازی اور منظم تعاون کو فروغ دیا جائے، جبکہ بیرونی مداخلت سے ہٹ کر علاقائی ممالک خود استحکام کی بنیاد رکھیں۔
اس سہ فریقی فارمیٹ کو محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ مغربی ایشیا میں بدلتے جغرافیائی و سیاسی رجحانات کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کی شمولیت اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ بیجنگ اب محض اقتصادی شراکت دار نہیں رہا بلکہ سیاسی اور سفارتی سطح پر بھی فعال کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے لیے یہ پلیٹ فارم ایک ایسا موقع فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے دونوں ممالک اپنے قومی مفادات اور اسٹریٹجک خودمختاری کو برقرار رکھتے ہوئے مشترکہ خدشات پر بات چیت کرسکتے ہیں۔ مبصرین کے مطابق، یہ اجلاس خطے میں کثیرالجہتی سفارت کاری کے فروغ اور مغربی زیر قیادت ڈھانچوں کے مدمقابل اور متوازی نئے سفارتی امکانات کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
اعلی حکام کی شرکت اور تعاون میں اضافے پر تاکید
اجلاس کی صدارت ایران کے نائب وزیر خارجہ مجید تختروانچی نے کی، جبکہ سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید الخرجی اور چین کے نائب وزیر خارجہ میاؤ دے یو نے اس میں شرکت کی۔ یہ اجلاس اعلی سطحی سفارتی رابطوں کا عکاس تھا جس میں تینوں ممالک نے باہمی احترام اور مشترکہ مفادات کی بنیاد پر آگے بڑھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ بعد ازاں ایک الگ ملاقات میں ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے کو ایران کی خارجہ پالیسی کی بنیادی ترجیح قرار دیا، خصوصا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے استحکام پر زور دیا۔ انہوں نے خطے میں استحکام، کثیرالجہتی تعاون اور بین الاقوامی قانون کی پاسداری کے فروغ میں چین کے تعمیری اور متوازن کردار کو سراہتے ہوئے اسے علاقائی امن کے لیے مثبت پیش رفت قرار دیا۔
چین کی جانب سے اس موقع پر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ وہ تہران اور ریاض کے درمیان سیاسی، معاشی، ثقافتی اور سکیورٹی شعبوں میں تعاون کو وسعت دینے کے لیے مکمل تعاون فراہم کرتا رہے گا۔ سعودی اور چینی وفود نے ایران کی میزبانی اور سفارتی ماحول کو سراہتے ہوئے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ دونوں ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات کو تمام شعبوں میں مزید فروغ دیا جائے، تاکہ اعتماد سازی اور عملی تعاون کے نئے مواقع پیدا ہوں۔
بیجنگ معاہدے پر عملدرامد پر اظہار اطمینان
تہران میں منعقد ہونے والے اس سہ فریقی اجلاس میں اہم علاقائی اور دوطرفہ امور پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔ مذاکرات میں بیجنگ معاہدے پر عملدرآمد کی پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور اس امر پر زور دیا گیا کہ معاہدے کی روح کے مطابق روابط کو تسلسل کے ساتھ آگے بڑھایا جائے۔ تینوں ممالک نے دوطرفہ اور علاقائی تعاون کو مضبوط بنانے، سیاسی ہم آہنگی بڑھانے اور منظم و بامقصد مکالمے کے فروغ کو علاقائی استحکام کے لیے ناگزیر قرار دیا۔
اجلاس میں معاشی، ثقافتی اور قونصلر تبادلوں میں توسیع، خودمختاری کے احترام، باہمی سلامتی اور مغربی ایشیا میں پائیدار امن کے قیام پر مشترکہ عزم کا اعادہ کیا گیا۔ چین کے ثالثی کردار کو سراہتے ہوئے شرکاء نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تنازعات کے پرامن حل، کثیرالجہتی سفارت کاری اور باہمی اعتماد کے فروغ کے بغیر خطے میں دیرپا استحکام ممکن نہیں، اور اسی تناظر میں سہ فریقی تعاون کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ
اجلاس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں ایران اور سعودی عرب کی جانب سے بیجنگ معاہدے کی تمام شقوں پر مکمل طور پر کاربند رہنے کے عزم کا اعادہ کیا گیا۔ دونوں ممالک اقوام متحدہ کے منشور، اسلامی تعاون تنظیم کے چارٹر اور بین الاقوامی قوانین کے مطابق ایک دوسرے کی خودمختاری، علاقائی سالمیت، آزادی اور سلامتی کے احترام کے پابند رہیں گے۔
اعلامیے میں چین کے مسلسل مثبت اور تعمیری کردار کو سراہتے ہوئے کہا گیا کہ بیجنگ نہ صرف فریقین کے درمیان مکالمے کو سہولت فراہم کر رہا ہے بلکہ معاہدے پر عملدرآمد کی نگرانی میں بھی فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ قونصلر تعاون میں ہونے والی پیش رفت کو نمایاں قرار دیا گیا، جس کے نتیجے میں 2025 میں 85 ہزار سے زائد ایرانی حجاج اور 2 لاکھ 10 ہزار سے زیادہ عمرہ زائرین کے محفوظ سفر کی راہ ہموار ہوئی۔
مشترکہ بیان میں اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی کہ ایران اور سعودی عرب کے تحقیقی مراکز، جامعات، میڈیا اداروں اور ثقافتی تنظیموں کے درمیان روابط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان اعتماد سازی اور عوامی سطح پر تعلقات کے فروغ کا مظہر ہے۔ علاوہ ازیں، فریقین نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں یمن بحران کے جامع اور سیاسی حل کی حمایت کا اعلان کیا۔
اعلامیے میں فلسطین، لبنان اور شام میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا اور ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔ اجلاس میں اس امر پر زور دیا گیا کہ ایران، چین اور سعودی عرب کے درمیان سہ فریقی مکالمہ محض علامتی نوعیت کا نہیں بلکہ اس کا مقصد عملی اقدامات کے ذریعے علاقائی استحکام کو فروغ دینا، دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانا اور کثیرالجہتی تعاون کو مزید وسعت دینا ہے۔
علاقائی سیاست پر اسٹریٹیجک اثرات
تہران میں ہونے والا یہ سہ فریقی اجلاس علاقائی استحکام کے حوالے سے نہایت اہم اور اسٹریٹیجک اثرات کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ملاقات اس امر کی واضح نشاندہی کرتی ہے کہ خطے میں اب محض دوطرفہ رابطوں کے بجائے منظم اور کثیرالجہتی سفارت کاری کو ترجیح دی جا رہی ہے، جس کے ذریعے غلط فہمیوں میں کمی، اعتماد سازی اور مستقل و قابل پیش گوئی مکالمے کے لیے ایک مؤثر فریم ورک فراہم کیا جاسکتا ہے۔ چین کی بطور ایک نسبتا غیرجانبدار ثالث شمولیت نے اس عمل پر اعتماد کو مزید مضبوط کیا ہے اور اس امکان کو بڑھایا ہے کہ مذاکرات محض بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی اور قابل پیمائش نتائج سامنے آئیں۔
اس سہ فریقی فارمیٹ میں شمولیت کے ذریعے ایران نے اپنی خودمختاری کا اظہار بھی کیا ہے اور ساتھ ہی علاقائی و عالمی فریقوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تہران تنہائی، دباؤ یا یکطرفہ اقدامات کے بجائے تعمیری سفارت کاری اور مکالمے کو ترجیح دیتا ہے۔ یہ طرزعمل مغربی ایشیا میں طاقت کے توازن اور سفارتی ترجیحات میں بتدریج تبدیلی کی عکاسی کرتا ہے۔
اقتصادی تعاون کے وسیع امکانات
سہ فریقی مذاکرات میں معاشی پہلوؤں کو بھی نمایاں اہمیت دی گئی، جہاں ایران، سعودی عرب اور چین کے درمیان وسیع تر اقتصادی تعاون کے امکانات پر روشنی ڈالی گئی۔ ممکنہ شعبوں میں باہمی تجارت میں توسیع، بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی کے شعبے خصوصا تیل، گیس اور قابلِ تجدید توانائی، لاجسٹکس، اور نجی شعبے کے درمیان روابط کا فروغ شامل ہے۔ ان تمام شعبوں میں تعاون نہ صرف دوطرفہ مفادات کو تقویت دے سکتا ہے بلکہ علاقائی اقتصادی ہم آہنگی میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
چین کا بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں اور علاقائی رابطہ کاری میں وسیع تجربہ ان منصوبوں کی عملی افادیت اور کامیابی کو بڑھا سکتا ہے۔ اس تناظر میں چینی شراکت داری بیجنگ معاہدے پر مؤثر عملدرآمد کے ساتھ ساتھ تینوں ممالک کے درمیان طویل المدتی اقتصادی تعلقات کے استحکام کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرسکتی ہے، جو بالآخر خطے میں ترقی اور استحکام کے عمل کو تقویت دے گی۔
حاصل سخن
تہران میں ہونے والا ایران، چین اور سعودی عرب کا تیسرا سہ فریقی اجلاس علاقائی سفارت کاری اور کثیرالجہتی تعاون سے ایران کی وابستگی کو مزید مضبوط انداز میں اجاگر کرتا ہے۔ بیجنگ معاہدے پر عملدرآمد کی پیروی اور چین و سعودی عرب کے ساتھ قریبی مشاورت کے ذریعے ایران نے واضح پیغام دیا ہے کہ مکالمہ، علاقائی تعاون اور بین الاقوامی ضابطوں کی پاسداری اس کی خارجہ پالیسی کے بنیادی ستون ہیں۔ یہ اجلاس اس حقیقت کی بھی عکاسی کرتا ہے کہ خطے میں پائیدار استحکام محض تصادم یا دباؤ سے نہیں بلکہ عملی، حقیقت پسندانہ اور مستقبل کے حالات پر مرکوز سفارت کاری کے ذریعے ممکن ہے۔
اجلاس نے یہ بات نمایاں کردی کہ خارجی دباؤ اور پیچیدہ علاقائی حالات کے باوجود مغربی ایشیا میں پرامن تعاون اور مشترکہ مسائل کے حل کے لیے قابل عمل راستے موجود ہیں۔ سہ فریقی مکالمے کا یہ تسلسل نہ صرف اعتماد سازی اور باہمی روابط کے فروغ کا ذریعہ بن رہا ہے بلکہ یہ ثابت کرتا ہے کہ علاقائی مسائل کے حل کے لیے علاقائی ممالک کی قیادت میں اور کثیرالجہتی فریم ورک کے تحت آگے بڑھنا ایک مؤثر اور پائیدار حکمتِ عملی ہوسکتی ہے۔
آپ کا تبصرہ