مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: گذشتہ کئی ہفتوں سے لبنانی مقاومتی تنظیم حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی خبریں ذرائع ابلاغ کی زینت بنی ہوئی ہیں۔ لبنانی حکومت نے یہ منصوبہ پیش کیا ہے تاہم لبنانی مقاومت نے بیرونی طاقتوں کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے مکمل انکار کرتے ہوئے حکومتی فیصلہ مسترد کردیا ہے۔
مبصرین کے مطابق حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ لبنانی نہیں بلکہ امریکی اور سعودی منصوبہ ہے۔ جوزف عون، نواف سلام اور کچھ سیاسی و میڈیا شخصیات دراصل امریکہ کے آلہ کار ہیں جو اس منصوبے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ شیعہ اراکین کی کابینہ کے اجلاس سے واک آؤٹ کرنے کی وجہ سے اس فیصلے کو قومی اجماع حاصل نہیں، اس لیے یہ ناقابل عمل ہے۔
ماہرین نے کہا کہ حزب اللہ کا اسلحہ صرف لبنان ہی نہیں بلکہ ایران، فلسطین اور پورے خطے کو صہیونی قبضے سے محفوظ رکھتا ہے، اور لبنان آج بھی خطے کے مسائل میں مرکزیت رکھتا ہے۔ اسی پس منظر میں مہر خبررساں ایجنسی نے "حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی حکمت عملی اور لبنان کا مستقبل" کے عنوان سے ایک بین الاقوامی نشست کا انعقاد کیا جس میں ایرانی، یمنی اور لبنانی ماہرین نے شرکت کی۔
اس نشست میں احمد دستمالچیان (سابق ایرانی سفیر لبنان و اردن)، محمد خواجویی (گروپ مطالعات لبنان، مشرق وسطی ریسرچ سینٹر)، محمد علی حسن نیا (ماہر امورِ عرب)، محمد صرفی (ایڈیٹر روزنامہ تہران ٹائمز)، محمدرضا مرادی (ڈائریکٹر جنرل بین الاقوامی امور مہر نیوز)، زینب فرحات (صحافی، ٹی وی چینل نبا لبنان)، ڈاکٹر علی احمد (ماہر امور سیاسی لبنان) اور احمد عبدالوهاب الشامی (صحافی، المسیرہ چینل یمن) شامل تھے۔ ایرانی ماہرین نے بالمشافہ اور غیرملکی ماہرین نے آن لائن اس نشست میں شرکت کی۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا معاہدہ طائف کی خلاف ورزی ہے
محمدرضا مرادی نے اس نشست میں کہا کہ لبنانی کابینہ نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ ایسے حالات میں پیش کیا ہے کہ ماہرین اسے دو دھاری تلوار سمجھتے ہیں جو ملک کے امن و استحکام کو نشانہ بناسکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات جبکہ جنوب لبنان کے پانچ علاقے اب بھی اسرائیلی قبضے میں ہیں اور وہاں کے شیعہ باشندے صہیونی حملوں کی زد میں ہیں، ایک خطرناک سوچ ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ شیخ نعیم قاسم نے اپنی حالیہ تقریر میں اعلان کیا ہے کہ ہم کربلائی انداز میں لڑیں گے اور مقاومت کا ہتھیار ہماری سرخ لکیر ہے۔ یہ واضح پیغام ہے کہ حزب اللہ کسی بھی قیمت پر ہتھیار نہیں ڈالے گی اور حکومت لبنان کا ایسا فیصلہ ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
مرادی نے کہا کہ ماہرین لبنان کی سلامتی اور استحکام پر شدید تشویش رکھتے ہیں، کیونکہ اگر لبنان کو غیر مستحکم کیا گیا تو اس کے اثرات دیگر علاقوں تک بھی پہنچیں گے۔ حزب اللہ نے صہیونی قبضے کے خلاف جدوجہد کے لیے مسلح ہونے کا فیصلہ کیا ہے اور جب تک قبضہ باقی ہے، اسلحے پر بحث ہی بے معنی ہے۔ اگر کبھی اس پر بات ہو تو وہ صرف ایک جامع دفاعی اسٹریٹیجی کے تحت ہونی چاہیے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ حزب اللہ کو یکطرفہ طور پر غیر مسلح کرنے کا حکومتی اقدام معاہدہ طائف کی صریح خلاف ورزی ہے۔
خطے کے مسائل کو قومی مفاد کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے
محمد صرفی نے افتتاحی تقریر میں کہا کہ عوام کو خطے کے مسائل کے بارے میں مکمل اور درست معلومات کم ملتی ہیں۔ اس طرح کی نشستیں دو اہم پہلو رکھتی ہیں۔ پہلا یہ کہ عام لوگ جو زیادہ واضح اور درست معلومات چاہتے ہیں، وہ ماہرین سے براہ راست سن سکتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ پالیسی بنانے والے اور فیصلہ کرنے والے افراد بھی ان نشستوں سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مسئلہ صرف لبنان تک محدود نہیں بلکہ یہ ایران کا مسئلہ بھی ہے۔ یہ صرف اس وجہ سے نہیں کہ جمہوری اسلامی ایران حزب اللہ کی حمایت کرتا ہے، بلکہ اس لیے بھی کہ مشرق وسطی اور مغربی ایشیا کے حالات ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ طوفان الاقصی کے بعد یہ باہمی ربط اور بھی بڑھ گیا ہے۔ لبنان میں پیش آنے والے واقعات ایران کی قومی سلامتی پر براہِ راست اثر ڈالتے ہیں۔ خطے کے مسائل کو قومی مفاد کے زاویے سے دیکھنا اور انہیں اپنے مسائل سمجھنا انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
قدیم نظام کا زوال اور نئے نظام کی تشکیل
سابق ایرانی سفیر احمد دستمالچیان نے کہا کہ موجودہ نازک حالات میں ضروری ہے کہ خطے اور دنیا کے حالات کو صحیح طرح سمجھا اور بیان کیا جائے۔ تبدیلیوں کی جڑوں کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا تاکہ تجزیے اور حکمتِ عملی میں غلطی نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ ہم اس وقت ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں جس کا نتیجہ پرانے عالمی نظام کا زوال اور نئے نظام کا قیام ہے۔ جیسا کہ تقریباً 80 سال پہلے ہوا تھا، آج بھی ویسی ہی صورت حال دوبارہ سامنے آرہی ہے۔ خطے میں دو بڑے محاذ ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہیں؛ ایک طرف استکبار کا منحوس مثلث (امریکہ، صہیونی حکومت اور بعض عرب ممالک) اور دوسری طرف ایران اور مقاومتی محاذ۔ دونوں فریق اس جنگ کو بقا کا فیصلہ کن معرکہ قرار دیتے ہیں۔ خطے کے مختلف واقعات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر 12 روزہ جنگ مسلط کی جاتی ہے تو وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے سے وابستہ ہے۔ اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات ہوتی ہے اور عراق کی حشد الشعبی پر دباؤ ڈالا جاتا ہے تو اس کا تعلق شام کے حالات سے ہے۔ اعلی سطح پر اس طرح کے منصوبوں کی کوئی بنیاد نہیں، لیکن ایران کے پالیسی سازوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ خطے کی ان تبدیلیوں کو جڑ سے سمجھیں۔
سابق سفیر نے کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا معاملہ نیا نہیں۔ استکباری قوتیں ہمیشہ سے حزب اللہ کے اسلحے پر نظر رکھتی آئی ہیں، جس دن سے اس نے صہیونی قابضین کے خلاف جنگ شروع کی۔ امریکہ، عرب ممالک اور اسرائیل ہمیشہ اس مقصد کے لیے ایک زبان بولتے رہے ہیں۔ لیکن جس طرح اسرائیل نے ایران پر حملہ کرنے اور اس کا نظام گرانے میں بڑی غلطی کی تھی، وہی غلطی حزب اللہ کے معاملے میں بھی دہرائی جارہی ہے۔ حزب اللہ کا اسلحہ عزت اور غیرت کا ہتھیار ہے۔ لبنان کی مزاحمت ایک عوامی تحریک ہے۔
دستمالچیان نے مزید کہا کہ لبنان میں جو بھی واقعہ ہوتا ہے اس کا اثر پورے خطے میں دکھائی دیتا ہے۔ لبنان کا استحکام دراصل پورے خطے کا استحکام ہے، اور اگر لبنان غیر مستحکم ہو تو خطہ بھی غیر مستحکم ہوگا۔ حزب اللہ کا اسلحہ وطن کے دفاع میں اور فوج کی مدد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فوج کبھی بھی حزب اللہ کے اسلحے کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکی۔ دنیا کی فوجیں ایک کلاسیکی نظام رکھتی ہیں جبکہ مزاحمت ایک غیر متوازن مگر مؤثر دفاعی حکمتِ عملی پر عمل کرتی ہے۔ اس لیے یہ سوچ ہی غلط ہے کہ مزاحمتی ڈھانچے کو فوج میں ضم کیا جاسکتا ہے۔
ایران کے سابق سفیر برائے اردن نے زور دیا کہ عرب ملکوں کے سربراہ یہ جان لیں کہ حزب اللہ کا اسلحہ صرف لبنان کے لیے نہیں بلکہ پوری اسلامی امت کے لیے صہیونی حکومت کے مقابلے میں ایک ڈھال ہے۔ اگر یہ اسلحہ چھین لیا گیا تو سب سے پہلے خود عرب ممالک صہیونی حکومت کی توسیع پسندی اور جرائم کا شکار ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی عرب حکمران نجی ملاقاتوں میں تسلیم کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل پر اعتماد نہیں کرتے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا منصوبہ ناقابلِ عمل ہے
محمد خواجویی نے کہا کہ حزب اللہ کے ہتھیار مشرقِ وسطیٰ، بالخصوص لبنان اور شام میں ریاست کی ناکامی کا نتیجہ ہیں۔ جب کوئی ملک بیرونی دشمن کے حملے کا نشانہ بنتا ہے اور وہاں مؤثر فوج موجود نہ ہو تو لوگ اپنے دفاع کے لیے خود ہتھیار اٹھاتے ہیں۔ یہی صورت انقلابِ اسلامی کے بعد سامنے آئی اور یہ تحریک آہستہ آہستہ بڑھ کر ایک منظم تنظیم میں تبدیل ہوگئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ حزب اللہ کے مخالفین کی یہ بات بالکل درست ہے کہ کسی بھی ملک میں اسلحہ صرف فوج کے پاس ہونا چاہیے، اس پر کوئی اختلاف نہیں۔ ایران کے لیے بھی یہ قابلِ قبول نہیں کہ کوئی گروہ ریاست سے ہٹ کر اسلحہ رکھے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے: کیا لبنان کی ریاست اور اس کی فوج نے کبھی یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے عوام کا دفاع کرسکتی ہے تاکہ لوگوں سے کہا جاسکے کہ ہتھیار چھوڑ دو اور دفاع کی ذمہ داری حکومت پر چھوڑ دو؟ گزشتہ چار دہائیوں کے تجربات اس کے برعکس ہیں۔ اسرائیل کے خلاف مزاحمت ہو یا تکفیری گروہوں سے لڑائی، لبنانی فوج نے کبھی فیصلہ کن کردار ادا نہیں کیا۔ جہاں کہیں بھی کوئی کامیابی ملی، وہ حزب اللہ کے ساتھ ہم آہنگی کے نتیجے میں ممکن ہوئی، جیسے مشرقی لبنان کے علاقوں کو داعش سے آزاد کرانا۔ حقیقت یہ ہے کہ لبنانی فوج عوام کے تحفظ کی اپنی اہلیت ثابت نہیں کرسکی۔
مشرق وسطی ریسرچ سینٹر میں لبنانی امور کے ڈائریکٹر خواجویی نے کہا کہ لبنانی فوج حقیقت میں آزاد اور خودمختار نہیں ہے۔ وہ پوری طرح امریکہ کے زیر اثر ہے۔ فوج اگر کوئی چھوٹا سا اسلحہ بھی خریدنا چاہے تو اسے واشنگٹن کی منظوری لینی پڑتی ہے۔ امریکہ اجازت دیے بغیر لبنان کسی ملک سے اسلحہ نہیں لے سکتا۔ امریکی فوجی امداد بھی تحقیر آمیز انداز میں دی جاتی ہے؛ مثال کے طور پر دو ہیلی کاپٹر بھیج کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہیں بڑا تحفہ دیا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ بحث نہیں ہے کہ اسلحہ صرف ریاست کے پاس ہونا چاہیے، بلکہ اصل مقصد حزب اللہ کے ہتھیاروں کو تباہ کرنا ہے۔ اگر حزب اللہ کے ہتھیار لبنانی فوج کے حوالے کردیے جائیں تو خطے میں طاقت کا توازن ختم ہو جائے گا۔ یہ منصوبے اور شرائط دراصل اس لیے تیار کیے گئے ہیں تاکہ صہیونی حکومت کا نیا سکیورٹی نظام مستحکم ہو جائے، وہ فضائی میدان میں کھلی آزادی سے کارروائی کرسکے، اور امریکہ لبنانی فوج کو بھی کبھی یہ اختیار نہیں دے گا کہ وہ حزب اللہ کے ہتھیار اپنے پاس رکھ سکے۔
حزب اللہ خطے کی سلامتی اور طاقت کا کلیدی کردار
نشست سے خطاب کرتے ہوئے محمد علی حسن نیا نے کہا کہ انقلابِ اسلامی سے پہلے، یعنی 1975 تک، لبنان ایک خالص فرقہ وارانہ معاشرہ تھا۔ مختلف طوائف اپنی اپنی شناخت کے ساتھ موجود تھے اور شیعہ اس ملک میں سب سے زیادہ محروم اور تنہا طائفہ تھے۔ شیعوں کے پاس حتیٰ کہ شناختی کارڈ بھی نہیں تھے۔ بہت سی شیعہ خواتین مسیحی اور سنی خاندانوں کے گھروں میں خادمہ کے طور پر کام کرنے پر مجبور تھیں۔ لیکن امام موسیٰ صدر کی آمد، 1982 کی جنگ اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد شیعہ معاشرے نے اپنی حالت بدلنی شروع کی۔ اس عمل میں ایران اور کبھی کبھار حافظ اسد نے بھی شیعوں کی بھرپور مدد کی۔ دوسری طرف، مسیحی اپنی ناکام ریاست کے تجربے کے بعد کمزور ہوگئے، اور دروزی اور شیعہ دونوں نے 1982 تک اپنے آپ کو ازسرِنو منظم کیا۔ حزب اللہ نے طائف معاہدے کی ایک شق کے تحت اپنے اسلحے کو محفوظ رکھا۔ اس معاہدے میں یہ بھی درج ہے کہ جب تک صہیونی دشمن سرزمینوں پر قابض ہے، اس کے خلاف مزاحمت جائز ہے۔
انہوں نے کہا کہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کے کمزور ہونے کے بعد لبنان کا توازن بھی بگڑ گیا۔ طائف معاہدے کے وقت خود شیعہ قیادت، جیسے نبیہ بری اور ولید جنبلاط، اس کے مخالف تھے۔ لیکن سعودی بادشاہ کی درخواست پر حافظ اسد نے انہیں دمشق بلایا اور بات چیت کے بعد وہ راضی ہوگئے۔ حالیہ برسوں میں صہیونیوں نے مجدل شمس کے واقعات کے بعد اپنی حکمت عملی بدلنے کا فیصلہ کیا تاکہ لبنان کے سکیورٹی توازن میں تبدیلی لائی جاسکے۔ امریکہ بھی اسی مقصد کے ساتھ میدان میں آیا تاکہ لبنان کی سیاسی معاملات میں مداخلت کرے۔

عرب امور کے ماہر مزید کہتے ہیں کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل آسان نہیں ہے۔ حزب اللہ کے پاس میزائل اور ڈرون موجود ہیں، اس لیے اس منصوبے کا عملی پہلو اب بھی مشکوک ہے۔ حتیٰ کہ اگر حزب اللہ اپنے ہتھیار فوج کو سونپ بھی دے، تو فوج ان کے استعمال کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ 1974 سے آج تک لبنانی فوج کے پاس صرف امریکی ساختہ ہلکے ہتھیار ہیں، اور کل ملا کر صرف دو ہیلی کاپٹر رکھتی ہے۔ فوج کے پاس نہ ٹینک ہیں، نہ لڑاکا طیارے اور نہ ڈرون۔ دشمنوں کی اصل کوشش یہ ہے کہ حزب اللہ کے ہتھیار تباہ کر دیے جائیں، نہ کہ فوج کے حوالے کرے۔
حسن نیا نے کہا کہ امریکیوں اور سعودیوں کا لبنان کے لیے بنایا گیا منصوبہ قابلِ عمل نہیں ہے۔ لبنان ویسے بھی ایک بکھرا ہوا ملک ہے، بالکل ایسے جیسے کوئی پیزا یا کیک ٹکڑوں میں تقسیم ہو۔ یہ ملک ہمیشہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کا میدانِ کھیل رہا ہے؛ ایران، سعودی عرب، فرانس، امریکہ اور صہیونی حکومت یہاں براہ راست کردار ادا کرتے ہیں۔ شام بھی پہلے سرگرم تھا لیکن بشار الاسد کی حکومت کے ختم ہونے کے بعد اس کا کردار کم ہوگیا۔ قطر نے بھی کبھی کبھار، جیسے 2005 میں، لبنان کے معاملات میں کردار ادا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لبنان میں مختلف قوتوں کے مفادات ٹکرا رہے ہیں۔ حسن نیا کے مطابق، نواف سلام اور جوزف عون نے لاریجانی کے دورۂ لبنان میں کہا کہ ایران کو لبنان کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، لیکن یہ لوگ خود امریکی اور سعودی نمائندوں سے ملاقاتوں میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے اور دیگر داخلی مسائل پر بات کرتے ہیں۔
حزب اللہ اپنا اسلحہ کبھی نہیں چھوڑے گی
علی احمد نے کہا کہ موجودہ لبنانی حکومت چاہتی ہے کہ مزاحمت ختم ہوجائے اور لبنان میں صہیونی قبضہ برقرار رہے۔ موجودہ حکومت مکمل طور پر امریکہ کے زیر اثر ہے، اور جوزف عون امریکی منصوبوں کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جا سکے۔ حکومت کا خیال ہے کہ 1990 کے بعد اور طائف معاہدے کے بعد لبنان میں غیر سرکاری ہتھیاروں کی موجودگی مسائل پیدا کر رہی ہے۔

علی احمد نے بتایا کہ حالیہ جنگ، یعنی غزہ کی حمایت میں حزب اللہ کی شمولیت، ایک سخت اور شدید جنگ تھی۔ صہیونی حکومت نے 18 سال کی کوششوں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل نہیں کیے۔ اگرچہ انہوں نے سید حسن نصر اللہ اور مزاحمت کے سینئر کمانڈروں کو نشانہ بنایا، لیکن حزب اللہ اور مزاحمت لبنان میں قائم رہی۔ حزب اللہ نے سرحدی علاقوں میں صہیونی فوج کی پیش قدمی روکی اور علاقے کو قبضے سے بچایا۔ جنگ بندی ہوئی، لیکن صہیونی حکومت نے اس کی پابندی نہیں کی اور جنوب لبنان اور لیتانی دریا کے جنوب میں شدید حملے جاری رکھے۔
علی احمد کے مطابق، امریکی اور سعودی ہدایات کے مطابق حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ سعودی عرب اس معاملے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے اور انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ نافذ ہوا تو لبنان میں خانہ جنگی بھی ہوسکتی ہے۔ سعودی عرب کا موقف یہ ہے کہ خانہ جنگی اہم نہیں، اصل مقصد حزب اللہ کا اسلحہ ہے۔ امریکی نمائندہ باراک بھی اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
علی احمد نے واضح کیا کہ حزب اللہ کے اقدامات اور فیصلے واضح ہیں: جب تک صہیونی حکومت لبنان پر اپنی جارحیت جاری رکھے، حزب اللہ اپنا اسلحہ کبھی نہیں چھوڑے گی۔ حزب اللہ دفاع کی حکمت عملی پر بات کرنے کے لیے تیار ہے اور یہ دیکھنا ضروری ہے کہ لبنان کو کس طرح مؤثر طریقے سے بچایا جائے اور تمام دستیاب وسائل کیسے استعمال ہوں۔ یہ ضروری نہیں کہ یہ وسائل فوج کے تحت ہوں؛ اہم مقصد لبنان کو صہیونی جارحیت سے محفوظ رکھنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر حزب اللہ بغیر حکمت عملی کے اپنا اسلحہ دے دے، تو جنوب لبنان کے لوگ صہیونی حملوں کے خلاف بے بس رہ جائیں گے اور لبنان کے دفاع کا کوئی طریقہ کار باقی نہیں رہے گا۔ اس صورت میں حزب اللہ ہتھیار نہیں چھوڑے گی۔ صہیونی حکومت کبھی اپنے وعدوں پر عمل نہیں کرے گی اور امریکہ بھی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا کہ اسرائیل لبنان سے پیچھے ہٹے گا۔ ایسے حالات میں دنیا کے کسی بھی عقلمند شخص کے لیے یہ قبول کرنا ناممکن ہے کہ وہ اپنے ہتھیار دشمن کی درخواست پر چھوڑ دے۔
حزب اللہ کا اسلحہ امتِ اسلامی کا شرف ہے
یمنی مبصر احمد عبدالوهاب الشامی نے سورہ نساء کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ ہم اپنے ہتھیار چھوڑ دیں تاکہ حملہ کرسکے۔ یہی صورت حال حزب اللہ کی ہے؛ دشمن لبنان میں مزاحمت کے ہتھیار چھیننا چاہتا ہے۔ اس کے پیچھے امریکہ اور صہیونی حکومت ہیں۔ دشمن لبنان کی مزاحمت کو کمزور کرکے پورے ملک اور خطے پر قابض ہونا چاہتا ہے۔
انہوں نے یاد دلایا کہ حزب اللہ کے ہتھیار ہی تھے جنہوں نے 2000 میں جنوب لبنان کو آزاد کروایا اور 2006 میں صہیونی فوج کا مقابلہ کیا۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا مقصد صرف اس کے ہتھیار لینا نہیں بلکہ فلسطین کے مسئلے کو ختم کرنے اور "گریٹر اسرائیل" کے خطرناک منصوبے کے لیے راہ ہموار کرنا ہے۔
احمد عبدالوهاب الشامی نے کہا کہ امریکہ اور صہیونی حکومت کو آزاد اور شرافتمند لوگوں کے ہتھیار پسند نہیں ہیں۔ یہی ہتھیار حقیقی تحفظ اور سلامتی فراہم کرتے ہیں۔ دشمن اس ہتھیار سے خوفزدہ ہے کیونکہ یہ اس کی بالادستی کو روکتا ہے۔ مزاحمت کا اسلحہ اور ہتھیار چھین لیے جائیں تو دشمن آگے بڑھ جائے گا، اور اگر برقرار رہیں تو ڈیٹرینس قائم رہے گی۔
ان کے مطابق حزب اللہ کا اسلحہ لبنان، فلسطین اور پورے خطے کے مستقبل کا معاملہ ہے۔ یمن کا موقف یہ ہے کہ حزب اللہ کا اسلحہ امتِ اسلامی کا اسلحہ ہے اور یہ شرف کا ضامن ہے۔ حزب اللہ نے 2000 اور 2006 میں امت کی عزت کی حفاظت کی۔ تمام امتِ اسلامی پر یہ فرض ہے کہ وہ حزب اللہ کے ہتھیار کی حفاظت اور حمایت کرے۔
حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ داخلی نہیں ہے
لبنانی صحافی زینب فرحات نے کہا کہ موجودہ لبنانی حکومت کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ داخلی نہیں بلکہ ایک امریکی منصوبہ ہے۔ جوزف عون، نواف سلام اور کچھ سیاسی و میڈیا عناصر امریکی منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ امریکی نمائندہ ٹام باراک نے واضح کہا کہ اگر لبنان یہ منصوبہ نافذ نہیں کرتا تو وہ شام میں موجود جہادی گروپوں کے ساتھ شامل ہو جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس منصوبے کی بنیاد امریکہ ہے، لبنان کی حکومت اس معاملے میں فیصلہ ساز نہیں ہے اور سعودی عرب بھی اس پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ سعودی نمائندہ یزید بن فرحان لبنان میں خاص طور پر اس معاملے کو آگے بڑھا رہا ہے۔ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا یہ منصوبہ دراصل امریکی منصوبے نیو مڈل ایسٹ کا حصہ ہے۔
زینب فرحات نے کہا کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے منصوبے کے بارے میں لبنان کی کابینہ میں اتفاق نہیں ہے کیونکہ شیعہ وزراء اجلاس سے باہر ہوگئے۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ حزب اللہ نے غیر مسلح ہونے کے بارے میں اپنا موقف واضح کر دیا ہے۔ سول نافرمانی، حکومت کی تبدیلی یا پارلیمانی انتخابات کو روکنا وہ تمام اقدامات ہوسکتے ہیں جو حزب اللہ اپنے دفاع میں اختیار کرے۔ البتہ حزب اللہ کسی بھی طرح کے خانہ جنگی یا داخلی لڑائی کے خلاف ہے اور اس کا اسلحہ صرف صہیونی دشمن کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔
آپ کا تبصرہ