مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک- محمد رضا مرادی بین الاقوامی شعبہ مہر نیوز؛ حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے اربعین کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے واضح کردیا کہ مزاحمت کے ہتھیار کسی صورت ترک نہیں کیے جائیں گے۔ ان کا یہ بیان لبنانی سیاسی و سکیورٹی بحران میں ایک اہم موڑ قرار دیا جارہا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ جب تک جارحیت جاری ہے، مزاحمت ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ اگر ضرورت پڑی تو ہم کربلا جیسی جنگ لڑیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ اگر لبنان متحد نہ ہوا تو حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے اور اس کا ذمہ دار تم ہوگے۔
انہوں نے اس موقف کو ایک بنیادی اصول قرار دیتے ہوئے کہا کہ مزاحمتی ہتھیار محض سیاسی آپشن نہیں بلکہ لبنان کے وجود اور بقا سے جڑا ہوا مسئلہ ہیں۔ مقاومت کو غیر مسلح کرنا دراصل ملک کے دروازے دشمن کے سامنے کھولنے کے مترادف ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ حکومت نے پہلے کیے گئے وعدوں کے برعکس اقدامات کیے ہیں، جن میں وزارتی بیان اور صدارتی حلف نامہ شامل ہیں۔ ان دستاویزات میں واضح طور پر قومی دفاع اور سکیورٹی کی حکمت عملی بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے لیکن حکومت نے اچانک مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کی۔ اس اقدام کا مطلب ملک میں شراکتی نظام اور بقائے باہمی کے اصول سے انحراف ہے۔ لبنان جیسے ملک میں جہاں مختلف قبائل اور سیاسی دھڑوں کا نازک توازن ہے، مزاحمت کے بنیادی عنصر کو ہٹانا اصلاح نہیں بلکہ ملک کے بقا کے توازن کو خراب کرنا ہے۔
حزب اللہ کے مخالفین اس موقف کو خانہ جنگی کی دھمکی کے طور پر پیش کر رہے ہیں، لیکن اصل بات یہ ہے کہ شیخ نعیم قاسم نے جنگ کی دھمکی نہیں بلکہ حالات کو نازک رخ پر لے جانے سے انتباہ کیا ہے اور کہا کہ حکومت کے فیصلے کے نتائج ملک کو اندرونی بحران میں دھکیل سکتے ہیں اور اس کی ذمہ داری خود حکومت پر ہوگی، جس نے بیرونی دباؤ کے آگے جھکاؤ دکھایا۔
لبنانی فوج کی بھی حالت نازک ہے۔ ایک طرف وہ حکومت کے فیصلے پر عمل کرنے کی پابند ہے، اور دوسری طرف مزاحمت کے خلاف کوئی عملی کارروائی فوج کو داخلی بحران میں ڈال سکتی ہے، جس سے نہ صرف فوج کی ساکھ متاثر ہوگی بلکہ لبنان مکمل جنگ کی طرف بھی جاسکتا ہے۔
شیخ نعیم قاسم نے کہا کہ خارجی طاقتوں کا اثر بھی واضح ہے۔ پچھلے برسوں میں واضح ہوگیا ہے کہ اسرائیل اپنی فوجی ناکامیوں کو نہیں بھولتا اور ہمیشہ مزاحمت پر دباؤ ڈالنے کے طریقے تلاش کرتا رہا ہے۔ نتن یاہو کی طرف سے لبنانی حکومت کے فیصلے کا کھلا خیرمقدم ظاہر کرتا ہے کہ اس بار تل ابیب نے بیروت کی سرکاری حکومت کو اپنے لیے آلہ کار بنا لیا ہے۔ اسی کے ساتھ امریکہ اور کچھ عرب ممالک نے بھی لبنان کے سیاسی ماحول کو بدلنے اور مزاحمت کو مشکل میں ڈالنے کے لیے دباؤ استعمال کیا ہے۔
ایسے خطرات کے مقابلے میں حزب اللہ بیک وقت دو پیغام دینا چاہتی ہے۔ پہلا یہ کہ مزاحمت اپنے ہتھیاروں کے دفاع کے لیے آخری سانس تک تیار ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔ دوسرا یہ کہ اس عزم کے باوجود اندرونی تصادم سے بچنے کی مکمل کوشش کی جائے گی اور ابھی بھی حکومت کے فیصلوں پر نظرثانی کا موقع باقی ہے۔ یہ دوہرا پیغام یعنی اسلحہ کو اپنے پاس رکھنے کا عزم اور فتنہ و انتشار سے بچنے کی خواہش وہ نکتۂ توازن ہے جسے حزب اللہ داخلی معاشرے اور بیرونی قوتوں تک پہنچانا چاہتی ہے۔
اگر اس صورتحال کو گہرائی سے دیکھیں تو کہا جا سکتا ہے کہ نعیم قاسم کی تقریر نے ریاست اور مزاحمت کے تصور کو ایک نئی شکل دی۔ انہوں نے واضح کیا کہ مزاحمت ریاست کا متبادل نہیں بلکہ اس کی تکمیل اور شریک ہے۔ لہذا مزاحمت کو ختم کرنے سے نہ صرف ملک کی دفاعی طاقت کمزور ہوگی بلکہ ریاست حقیقی خودمختاری سے بھی محروم ہوگی۔ اس تناظر میں مزاحمت کا اسلحہ قومی دفاعی ڈھانچے کا حصہ ہے۔
مقاومت کے مخالفین اس منطق کو قبول نہیں کرتے۔ ان کے نزدیک مزاحمت حکومت کے مدمقابل ایک طاقت ہے جو ریاستی اقتدار کو مکمل طور پر مستحکم نہیں ہونے دیتی۔ مگر لبنان کی زمینی حقیقت یہ بتاتی ہے کہ مزاحمت کے بغیر اسرائیل کے خلاف کوئی ڈیٹرینس موجود نہیں۔ ماضی کی جنگوں کا تجربہ ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ لبنانی عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی مقاومت کی موجودگی کو ضروری سمجھتی ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کی طرف سے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے دباؤ جاری ہے۔ گذشتہ ہفتوں میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں تیز ہوگئی ہیں جس سے لبنان کا مستقبل غیر یقینی ہوگیا ہے۔ اس ماہ کے آخر تک فوج کو حکومت کے فیصلے پر عمل درآمد کا منصوبہ پیش کرنا ہے اور امریکی نمائندے ایک بار پھر بیروت آئیں گے تاکہ دباؤ بڑھایا جاسکے۔
نعیم قاسم کے بیانات لبنان کے لیے دو بنیادی منظرنامے بیان کرتے ہیں: خانہ جنگی یا قومی مکالمہ۔ اگر غیر مسلح کرنے کا منصوبہ زبردستی نافذ کیا گیا تو خانہ جنگی کا خطرہ ہے جیسا کہ نعیم قاسم نے خبردار کیا۔ خانہ جنگی کی صورت میں لبنان میں عدم استحکام کا امکان بہت زیادہ ہے۔ فوج میں تقریبا 20 سے 25 فیصد شیعہ افراد کی موجودگی، جو غیر مسلح کرنے کے فیصلے پر عمل درآمد کے ذمہ دار ہوں گے، اس منظرنامے کو مزید پیچیدہ بناتی ہے۔ اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ فوج کا کچھ حصہ حکم ماننے سے انکار کرے یا حزب اللہ میں شامل ہوجائے، جس سے ریاستی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتے ہیں۔
ایسی صورتِ حال میں لبنان دو راستوں کے بیچ کھڑا ہے: عقل مندی اختیار کرکے ایسے فیصلوں پر نظرثانی کرے جو ملک کو تباہی کی طرف لے جاسکتے ہیں، یا پھر ایسے فتنہ و انتشار میں ڈوب جائے جسے قابو کرنا آسان نہیں ہوگا۔
نعیم قاسم کی "کربلا کی جنگ" کی مثال کوئی دھمکی نہیں بلکہ ایک استعارہ ہے، جو مزاحمت کی قربانی اور اپنے اصولوں پر ثابت قدمی کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ استعارہ بتاتا ہے کہ حزب اللہ کے نزدیک اسلحہ سے دستبرداری سیاسی اور قومی موت کے مترادف ہے، اس لیے وہ بیرونی دباؤ سے مسلط کسی بھی منصوبے کو وجودی معرکہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف حکومت اور مخالف سیاسی قوتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسے سرخ لکیر کے ساتھ کھیلنا لبنان کے مسائل کا حل نہیں بلکہ ایک نئے بحران کا آغاز ہوگا جس کے اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیں گے۔
آپ کا تبصرہ