19 اگست، 2025، 2:26 PM

پاکستانی معروف صحافی کی مہر نیوز سے گفتگو:

حزب اللہ نے اپنی تمام توانائیاں فلسطین کی آزادی کے لیے وقف کیں/ ایران نے اسرائیل کو عبرت ناک شکست دی

حزب اللہ نے اپنی تمام توانائیاں فلسطین کی آزادی کے لیے وقف کیں/ ایران نے اسرائیل کو عبرت ناک شکست دی

معروف پاکستانی صحافی امیر عباس نے کہا کہ جب عالمی عدالتیں مجرم کو پکڑنے سے قاصر ہوں اور سفارت کاری سوداگر بن جائے، تب عاشورا اور اربعین کی روشنی میں حزب اللہ جیسی تنظیموں کے سامنے مزاحمت ہی آخری اور واحد راستہ ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حزب اللہ کی مزاحمت محض لبنان تک محدود ایک تحریک نہیں بلکہ یہ صدیوں پر محیط اس جدوجہد کا تسلسل ہے جو سرزمینِ انبیاء فلسطین کی آزادی کے لیے جاری ہے۔ جب عالمی عدالتیں مجرم کو سزا دینے سے قاصر ہوں، اقوامِ متحدہ کی قراردادیں کاغذی دستاویز بن کر رہ جائیں اور حکمران عیش و عشرت میں ڈوبے ہوں، ایسے میں حزب اللہ کا عزم دنیا کو یہ بتاتا ہے کہ مزاحمت ہی مظلوموں کی آخری ڈھال ہے۔ یہی مزاحمتی فکر دراصل اربعین کے پیغام سے جڑی ہوئی ہے، جہاں امام حسینؑ نے کربلا میں اپنے خون سے یہ اعلان کیا کہ ظلم کے پڑوس میں خاموشی ممکن نہیں۔ اربعین کی وہی روح آج حزب اللہ کے مجاہدین میں زندہ ہے، جو اپنی قیادت اور اثاثے قربان کرنے کے باوجود اسی راستے پر گامزن ہیں۔ 

مبصرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق عاشورا اور اربعین سے ہی سبق لیتے ہوئے دنیا کے مختلف خطوں میں عالمی استکبار کے خلاف تحریکیں جاری ہیں۔ اسی حوالے سے مہر نیوز نے معروف پاکستانی صحافی امیر عباس سے گفتگو کی ہے جس کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: اربعین واک اور اس کے نتائج کے بارے میں کیا چاہتے ہیں؟

امیر عباس: اس کانفرس میں شرکت کرنا میرے لئے بڑی سعادت ہے جو دنیا کی عظیم ترین ہستی کے مرقد کے ساتھ ہورہی ہے۔ اربعين کا جو مذہبی پہلو ہے اس کو بڑی شخصیات آپ کو بتاسکتی ہیں۔ بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ جو دنیا کے جو آفاقی اصول ہیں، ان اصولوں کے لیے جب آپ آواز اٹھانا چاہتے ہیں، جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو اس کا سب سے بہترین جو موقع ہے وہ اربعين ہے۔ آپ دیکھتے ہیں کہ دنیا میں مختلف ایشوز کے لیے والک ہوتی ہیں موسمیاتی تبدیلیوں، کرپشن اور دیگر ایشوز پر والک کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک تک ہر جگہ کئی طرح کی اگاہی واکس ہوتی ہے۔ تو اربعين والک کو اپ کسی بھی لحاظ سے اگر دیکھیں اگر اپ اس کو اگاہی کے لحاظ سے دیکھیں تو بھی یہ ایک میرا خیال ہے دنیا کا سب سے بڑا ایونٹ بن چکا ہے اگر اپ اس کو اصولوں کے لیے قیام کرنے کے لحاظ سے دیکھیں تو بھی دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہوچکابے۔ رائٹرز نے جو دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے، اس نے کل یہ کہا کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا اجتماع ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو کروڑ 10 لاکھ سے زائد جو ہے وہ کم و بیش داخل ہوئے چلیں اپ اس میں 10 پرسنٹ کم بھی کرلیں تو بھی ایک کروڑ 70 80 لاکھ لوگ بنتے ہیں۔ اس صدی میں دنیا کے کسی بھی اجتماع میں اج تک سب سے زیادہ شرکت اس وقت ہوئی جب 2003 میں عراق پہ جنگ مسلط کی گئی تھی تو اس وقت ایک بہت بڑا مظاہرہ جو ہے وہ اٹلی کے شہر روم میں ہوا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میں 30 لاکھ لوگ تھے۔ برطانیہ میں ایک مظاہرے میں ساڑھے سات لاکھ لوگ جمع ہوئے۔ ابھی اپ نے دیکھا اسٹریلیا میں چند ہفتے پہلے فلسطین کے لیے مظاہرہ ہوا جس میں کہتے ہیں تین لاکھ لوگوں نے شرکت کی تو دنیا کا کوئی مظاہرہ یا اجتماع اربعین کے برابر نہیں پہنچا۔ بطور صحافی میں سمجھتا ہوں کہ آپ اگر کسی اصول کے لیے جدوجہد کرنا چاہتے ہیں مقاومت کرنا چاہتے ہیں تو یہ اپ کے لیے بہترین موقع ہے اس کا مشاہدہ کر دیں اور اپ کو یہاں پہ گلوبلائزیشن نظر آئے گی یعنی دنیا کے ہر مکتب فکر، ہر مسلک، ہر مذہب، ہر علاقے اور ہر زبان بولنے والے لوگ اپ کو ملیں گے۔ یہ انسانیت کے لیے بہت بڑا موقع ہے اس وقت جو چیلنجز ہیں پوری دنیا عالم اسلام تو چھوڑ دیں اپ عالم انسانیت کو جو چیلنجز درپیش ہیں۔ اگر اپ کھڑے ہونا چاہتے ہیں یا کچھ سیکھنا چاہتے ہیں تو اپ کو ضرور اس واک میں شرکت کرنی چاہیے۔

مہر نیوز: کربلا اربعین واک میں ہمیں کیا درس ملتا ہے؟

امیر عباس: دیکھیں کربلا ایک درسگاہ ہے، ایک یونیورسٹی ہے جہاں سے اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اسی لیے شاید جوش ملیح ابادی نے کہا تھا کہ انسان کو بیدار تو ہولینے دو ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؑ
تو آج ہر قوم پکار رہی ہے کہ اب نیلسن منڈیلا، مہاتما گاندھی اور باقی دنیا کے بڑے بڑے دانشور ان سب نے کہیں نہ کہیں امام کی جدوجہد کو اور ان کی شہادت کو خراج تحسین پیش کیا۔ یہ والک جو ہے یہ میرا خیال ہے اس کا ایک بہترین اظہار ہے۔ عوامی سطح پہ کہ ہم کیسے ان کے نقش قدم پر چل سکتے ہیں۔

مہر نیوز: کربلا سے امت مسلمہ کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

امیر عباس: دیکھیں امت مسلمہ کو متحد ہونا چاہیے اور اس چیز کو مت دیکھیں کہ اپ کا مد مقابل کتنا طاقتور ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ایک کروڑ مسلمان تھے یزید کی سلطنت میں جب اس ریاست کی جو سرحد تھی وہ افریقہ سے لے کے ہندوستان تک سندھ تک اور پھر یمن تک پھیلی ہوئی تھی پورا مشرق وسطی، براعظم آفریقہ اس کے اندر تھا ایشیا بھی شامل تھا لیکن کتنے لوگ امام کے ساتھ نکلے تھے 71 لوگ تھے۔ تو اپ یہ نہ دیکھیں کہ آپ کا مدمقابل آج امریکہ ہے، اسرائیل ہے، استعمار ہے، طاغوت ہے اور اس کے اس کے اتحادی ہیں۔ ان کے پاس بہت طاقت ہے اس کی زندہ مثال آپ نے ابھی ایران کی مزاحمت کی صورت میں دیکھی کہ اسرائیل جس کو 78 سال سے جس کو چلو میں دودھ پلایا ہے امریکہ نے اور اس کو صحیح ضخیم بنایا ہے لیکن 12 دن کی جنگ میں اس اسرائیل کی چیخیں نکل گئیں، اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی اس کو مدد مانگنی پڑی امریکہ سے اور پھر امریکہ جب خود ایا تو اپ نے دیکھا کہ اس کا بھی ایران نے کیسا جواب دیا اگر ایک ملک 56 اسلامی ملکوں میں سے ایک ملک اگر کھڑا ہوسکتا ہے تو باقی بچپن اس ملک بھی کچھ کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے اپ کو کوئی جنگ مسلط کرنا پڑے گا۔  نہیں آپ کو اصولوں کے لیے کم از کم اتحاد تو پیدا کریں اپنے اندر جو نفاق ہے آپ اس کو تو ختم کریں۔ یہ سب سے بڑا پیغام ہے۔

مہر نیوز: حزب اللہ اور اس کی مقاومت کے بارے میں کیا کہیں گے؟

امیر عباس: دیکھیں حزب اللہ کا آغاز اس وقت ہوا جب ان کی سرزمین بیروت پر اسرائیل کا قبضہ ہوا۔ وہ اٹھے تاکہ بیروت کو آزاد کریں۔ آج کی دنیا میں کئی مزاحمتی تحریکیں ہیں جو مسلحانہ لڑیں۔ مثلا خود نیلسن منڈیلا نے مسلح جدوجہد کی جب کالے سیاہ فہم افریقیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہا تھا تو انہوں نے مسلح جدوجہد کی۔ کیوبا میں جو فیڈرل کاسترو نے اپنے ملک کے ڈکٹیٹر کے خلاف مسلح جدوجہد کی۔ اس وقت ایک ایک بہت بڑا طاغوتی نظام ہے جس نے فلسطین اور غزہ کے خلاف حد درجہ کوشش کرلی اقوام متحدہ کی قراردادیں موجود ہیں۔ عالمی ڈپلومیسی اور عالمی عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں اس کے باوجود سازشیں کاروائیاں جاری ہیں۔ نیتن یاہو کے خلاف عالمی عدالت کا فیصلہ موجود ہے اس کو گرفتار کریں کیونکہ وہ بچوں کا قتل عام کر رہا ہے لیکن کسی فیصلے کی، کسی عالمی اصول کی اور کسی سفارت کاری کی کوئی پرواہ نہیں ہے اور اب اس نے جو فیصلہ کیا کہ ہم غزہ کو باقاعدہ طور پہ قبضے میں لیں گے اس حالت میں مسلح مزاحمت کیسے نہیں ہوگی۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کسی اصول کے لئے لڑ رہے ہوں اور کوئی حل نہ رہے تو پھر مسلح جدوجہد آخری راستہ ہوتا ہے۔ اس کو کئی دنیا میں کئی لوگوں نے اختیار کیا ہے۔

مہر نیوز: فلسطین میں حزب اللہ کا جو کردار ہے، آزادی بیت المقدس میں اس کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟

امیر عباس: آپ کو دیکھیں ان کے بڑے رہنما حسن نصر اللہ شہید ہوگئے، ہاشم صفی الدین شہید ہوگئے، ان کی پوری لیڈرشپ ہے، وہ ختم کردی گئی اور ان کے جو اثاثے تھے، ان کو نقصان پہنچا انہوں نے جو اپنی طاقت یکجا کی تھی اس طاقت کو نقصان پہنچا۔ وہ کس کے لیے ہوا؟ آج وہ اگر دنیا کے اور کئی اسلامی ملکوں کے حکمرانوں کی طرح عیش و عشرت کی زندگی گزارنا چاہیں تو لبنان بہت خوبصورت دنیا کا خوبصورت ترین خطہ ہے۔ ان کے پاس کئی وسائل ہیں اگر وہ پرتعیش زندگی گزارنا چاہیں اور اس جدوجہد کو ترک کریں تو کرسکتے ہیں۔ وہ بھی دبئی، کویت، عمان، سعودی عرب اور ابوظہبی کی طرح وہ بھی بن سکتے ہیں لیکن حزب اللہ نے یہ جو فیصلہ کیا کہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے بالکل پڑوس میں جو سرزمین فلسطین ہے، سرزمین انبیا ہے وہ مقبوضہ ہوچکی ہے اور وہاں ایک طاقت کے نشے میں بدمعاش دشمن ہے جو اس کو دن بدن نوچ رہا ہے اور ہم ان کے پڑوس میں لا تعلق ہوکے زندگی گزاریں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ اس کا فیصلہ تو ہماری تاریخ اگر آپ دیکھیں تو جب 1948 میں اسرائیل کو بنایا گیا تو قائد اعظم نے اس وقت کہا تھا کہ یہ ایک ناجائز حکومت ہے۔ حزب اللہ تو اس کے 40 سال 50 سال بعد بنی ہے۔ قائد اعظم نے اس وقت کہا تھا کہ یہ ایک ناجائز حکومت ہے انہوں نے امریکی صدر کو خط لکھا اور اس کو انہوں نے کہا یہ ناجائز ریاست اپ لوگ تخلیق کر رہے ہیں۔ یہ دنیا کو تباہی کی طرف نکل جائے گی۔ 1947 سے بھی پہلے ال انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد پاس کی پاکستان بننے سے بھی 10 15 سال پہلے۔ کیونکہ اس وقت خلافت عثمانیہ کے ٹوٹنے کے بعد لگ رہا تھا کہ شاید یہاں پہ یہودیوں کا خطہ آباد کیا جائے گا صہیونی خطہ تو اس پہ تو پچھلے 100 سال کی جدوجہد موجود ہے اور اسی میں حزب اللہ نے بھی اپنا بہت بڑا کردار ادا کیا۔

مہر نیوز: اگر اسرائیل دوبارہ ایران پر جارحیت کی کوشش کرے تو اس کا انجام کیا ہوگا؟

امیر عباس: اس کا انجام وہی ہوگا جو پہلے بارہ روزہ جنگ کے دوران ہوا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ایران کے اندر عوامی سطح پر اختلاف موجود تھے تو ایسا ہر ملک میں ہوتا ہے۔ ہر ملک میں اس طرح کے اختلافات ہوتے ہیں۔ اس جنگ نے پوری ایرانی قوم کو متحد کردیا اور ان کو نئی جان دی۔ انہوں نے جان لیا کہ ہمارے آپس میں اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن مشترکہ اور اصلی دشمن ہم سب کا ایک ہی ہے جو ہم پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے۔ اسی وجہ سے بارہ روزہ جنگ میں انہوں نے اسرائیل کو دھول چٹا دی۔ اسرائیل کا مطلب امریکہ ہی تھا کیونکہ اسرائیل کے پاس جو کچھ اسلحہ تھا امریکہ کا یہ تھا اس لئے شکست امریکہ کی ہی تھی۔ جب امریکہ جنگ میں نہیں کودا تو بھی اس کو شکست ہوئی اور جب کودا تو بھی ایران نے منہ توڑ جواب دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی دفاعی طاقت ایران سے کئی گنا زیادہ ہے لیکن جب ایک قوم پوری طرح مزاحمت کا فیصلہ کرکے میدان میں کھڑی ہوجائے چنانچہ کربلا والوں نے فیصلہ کیا تھا کہ جب ہم حق پر ہیں تو موت کی کوئی پروا نہیں اور آخری دم تک مزاحمت کریں گے۔ ایرانیوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہتھیار ڈال کر قابض کے ہاتھوں میں اپنی زندگی گروی رکھنے کے بجائے جنگ کرکے اپنی آزادی کی حفاظت کریں گے۔

News ID 1934904

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha