مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، امریکہ کی جانب سے یمن پر حملوں میں اضافے کی صورت میں مشتق وسطی میں جنگ کا دائرہ مزید وسیع ہوسکتا ہے۔ یمنی فوج نے امریکی دفاعی اور اقتصادی مفادات پر حملے کی دھمکی دی ہے۔ سعودی عرب میں واقع امریکی تیل کی تنصیبات پر انصار اللہ کے حملے کی صورت میں تیل کی قیمت 300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے۔ اس صورت میں امریکہ کو شدید بحران میں مبتلا ہوسکتا ہے۔
سعودی عرب اور اس کی سب سے بڑی آئل کمپنی، آرامکو امریکی اور عالمی معیشت کے لیے ناگزیر حیثیت رکھتی ہے۔ یہ اہمیت صرف تیل کی پیداوار تک محدود نہیں بلکہ ایک پیچیدہ اتحاد، مالیاتی منڈیوں اور 21ویں صدی میں طاقت کے توازن سے جڑی ہوئی ہے۔
آرامکو روزانہ 10 ملین بیرل سے زائد تیل پیدا کرتا ہے اور چین و بھارت کو توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ عالمی منڈیوں میں قیمتوں کے عدم استحکام کے خلاف اہم کا کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس کی سرگرمیوں میں کسی قسم کا خلل پیدا ہو جائے، جیسا کہ ستمبر 2019 میں "بقیق" اور "خریص" کی تنصیبات پر حملے کے وقت ہوا تھا، تو اس کے اثرات وال اسٹریٹ سے لے کر لندن کے مالیاتی مراکز تک محسوس کیے جائیں گے۔
واشنگٹن کئی دہائیوں سے سعودی عرب کو سیکورٹی کی ضمانت دے کر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں پر اثر انداز ہوتا رہا ہے۔ امریکی نائب صدر جیمز ونس نے ایک اندرونی گفتگو میں خبردار کیا تھا کہ اگر سعودی آئل تنصیبات پر حملوں کے خطرے کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا جا سکتا ہے، تو اسے فوری طور پر کرنا چاہیے۔ یہ بیان واضح کرتا ہے کہ وائٹ ہاؤس کے لیے آرامکو کتنا اہم ہے۔
اگرچہ امریکہ دنیا کا سب سے بڑا تیل پیدا کرنے والا ملک ہے، مگر سعودی عرب کے خام تیل کی ضرورت اب بھی امریکی ریفائنریوں کو رہتی ہے، خاص طور پر جب طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس بہاؤ کا رک جانا تیل کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کا سبب بن سکتا ہے، جو کسی بھی امریکی صدر کے لیے ایک خوفناک خواب ہوگا۔
2 ٹریلین ڈالر مارکیٹ ویلیو کے ساتھ آرامکو، عالمی معیشت میں سعودی عرب کے اثر و رسوخ کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ اس کمپنی کی سرمایہ کاری امریکی کانگریس سے لے کر وال اسٹریٹ تک پھیلی ہوئی ہے۔
سعودی عرب کی آئل تنصیبات یمنی انصار اللہ کے حملوں کے نشانے پر ہیں۔ امریکی محکمہ توانائی کے ماہرین نے ایک خفیہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر آرامکو کی پیداوار مکمل طور پر چھ ماہ کے لیے بند ہو جائے تو تیل کی قیمت 300 ڈالر فی بیرل تک پہنچ سکتی ہے اور 2008 سے زیادہ سنگین عالمی معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔
آپ کا تبصرہ