مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں یہودی تقریب پر فائرنگ کے بعد دنیا بھر میں واقعے کی مذمت کی جارہی ہے۔ اسرائیلی حکام واقعے کو بنیاد بناکر دنیا میں اسرائیل کے بارے میں موجود نفرت کی فضا کو کم کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ ماضی میں اسرائیل کے ریکارڈز کو دیکھتے ہوئے مبصرین واقعے کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔
عرب تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے دعوی کیا ہے کہ سڈنی میں حانوکا کی تقریب کے دوران ہونے والا خونریز حملہ ممکنہ طور پر اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد کی جانب سے کیا گیا۔ حملے میں 12 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے۔ عطوان کے مطابق اس کا مقصد اسرائیل کی عالمی سطح پر مظلومیت کا تاثر پیدا کرنا اور یہود دشمنی کے بہانے اپنی سیاسی اور جنگی حکمت عملی کو فروغ دینا ہوسکتا ہے۔
عطوان کا کہنا ہے کہ یہود دشمنی کا سب سے بڑا سبب خود صہیونیت بن گئی ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامین نتانیاہو اس کی واضح مثال ہیں، جن کی پالیسیوں نے غزہ میں بڑے پیمانے پر قتل و غارت کو جنم دیا۔ ان اقدامات کے باعث ہزاروں خاندان تباہ ہوئے، لاکھوں لوگ بے گھر ہوئے اور بہت سے معصوم افراد بھوک اور بدحالی کا شکار ہو گئے۔ اُن کے ہاتھ غزہ میں ۷۰ ہزار سے زائد فلسطینی شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، جن میں ۴۰ ہزار بچے بھی شامل ہیں۔
نتن یاہو نے اس حملے میں اپنے ممکنہ مشکوک کردار کو اُس وقت خود نمایاں کر دیا جب اس نے آسٹریلیا کے وزیر اعظم اور اس کی حکومت پر یہود دشمنی کو ہوا دینے، فلسطین کو تسلیم کرنے کے عمل کو آگے بڑھانے اور دو ریاستی حل کی حمایت کرنے کا الزام لگایا اور انہیں اس حملے کا ذمہ دار قرار دے دیا۔ اس نے یہ حقیقت نظر انداز کر دی کہ اس کی فوج نے غزہ کی پٹی میں المعمدانی اسپتال پر حملے کے دوران پانچ منٹ سے بھی کم وقت میں پانچ سو سے زائد مریضوں، زخمیوں، ڈاکٹروں، نرسوں اور نومولود بچوں کو قتل کیا، اور اسی طرح مختلف واقعات میں چند ہی منٹوں کے اندر بیروت کے جنوبی علاقے، بقاع اور جنوبی لبنان میں پانچ ہزار سے زیادہ لبنانی شہریوں کو شہید دیا گیا۔
تجزیہ کار نے کہا کہ صہیونیت کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں یہودیوں کے قتل کے لیے نازیوں سے تعاون کیا گیا۔ اسی طرح مصر اور عراق میں یہودی آبادی والے علاقوں کو نقصان پہنچا کر وہاں کے یہودیوں کو خوفزدہ کیا گیا، تاکہ وہ فلسطین ہجرت کرنے پر مجبور ہوں۔ اسی پس منظر کی بنیاد پر عطوان نے خبردار کیا کہ سڈنی یا دوسرے ملکوں کے شہروں میں یہودی تقریبات پر ہونے والے حملوں میں مسلمانوں کو قصوروار ٹھہرانا ممکنہ طور پر اسرائیل کے سیاسی مفادات کا حصہ ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ صہیونی منصوبے کو سب سے بڑا نقصان خود اسرائیل کی موجودہ قیادت نے پہنچایا ہے۔ آج دنیا کے زیادہ تر لوگ صہیونی جھوٹ اور تشہیر کو پہچان چکے ہیں اور غزہ میں ہونے والے قتل عام کے متاثرین کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ یہودی مذہب سے تعلق رکھنے والے لاکھوں افراد بھی صہیونیت اور اس کی خونریزیوں سے بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ منصوبہ اب خود یہودیوں کے لیے خطرہ بن چکا ہے اور جن معاشروں میں وہ رہتے ہیں وہاں امن اور باہمی زندگی کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
جریدے فارن افیئرز نے ایک ماہ قبل شائع ہونے والے ایک طویل مضمون میں جسے “نیا اسرائیل” کا نام دیا گیا، کئی اہم حقائق پر روشنی ڈالی۔ ان میں سب سے نمایاں یہ تھا کہ صہیونی تحریک کس طرح اپنی تاریخ کے سب سے سنگین بحران سے نکلنے کی کوشش کر رہی ہے جس میں غزہ میں نسل کشی کے نتیجے میں پہنچنے والے شدید نقصان کی تلافی، عالمی بالخصوص مغربی رائے عامہ کی حمایت دوبارہ حاصل کرنا اور صہیونی جھوٹ کو بے نقاب ہونے سے روکنا شامل ہیں۔
عطوان نے کہا کہ اسی وجہ سے یہ بعید نہیں کہ سڈنی کا حملہ اس منصوبے کا پہلا قدم ہو، اور آنے والے وقت میں یہودی برادریوں کے خلاف مزید ایسے حملے دیکھنے میں آئیں۔ ان حملوں کا مقصد صہیونی مظلومیت کا بیانیہ دوبارہ زندہ کرنا، یہود دشمنی کے خلاف مہم کو تیز کرنا، سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا، اظہارِ رائے اور سوچ کی آزادی کو دبانا، صہیونیت کے مخالف تمام آوازوں کو خاموش کرنا اور فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کو روکنا ہوسکتا ہے۔
مضمون میں یہ بھی کہا گیا کہ حماس کے پاس قید رہنے والے اسرائیلی قیدیوں کی اکثریت نے دوران قید اپنے ساتھ اچھے سلوک کی تعریف کی۔ کسی نے بھی تشدد یا توہین کی شکایت نہیں کی، بلکہ کئی قیدیوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ محاصرے کے باوجود ان کے نگہبان اپنا کھانا ان کے ساتھ بانٹتے تھے۔ اس کے برعکس اسرائیلی جیلوں میں قید عرب اور فلسطینی مرد و خواتین کو بدترین تشدد، جنسی زیادتی اور دھمکیوں کا سامنا رہا۔ ان جرائم کو یہودی، فلسطینی اور بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی شکل میں محفوظ کیا ہے۔
عطوان نے کہا کہ یہی ہمارے اور ان کے درمیان اخلاقی اور فکری فرق ہے۔ جو لوگ فلسطینی قیدیوں پر حملہ کرنے کے لیے تربیت یافتہ کتوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور چالیس ہزار بچوں اور ان کے خاندانوں کو بھوکا مارنے سے لطف اندوز ہوتے ہیں، وہ یقینا سڈنی یا دنیا کے کسی اور حصے میں یہودی تقریبات پر حملے کے لیے چند کرائے کے افراد استعمال کرنے سے بھی نہیں ہچکچائیں گے۔ غزہ میں یاسر ابو شباب جیسے گروہوں کی تشکیل اور لبنان، ایران اور دیگر ممالک میں اسی طرز کی سرگرمیاں اس دعوے کو تقویت دیتی ہیں۔
نتن یاہو غزہ، مغربی کنارے، لبنان، یمن اور ایران میں اپنی کسی بھی جنگی مہم میں اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا اور اب ان جنگوں کو جاری رکھنے اور مزید بھڑکانے کے لیے بہانے تلاش کر رہا ہے۔ اسی لیے بعید نہیں کہ سڈنی کا حملہ بھی انہی بہانوں میں سے ایک ہو۔ اسی مقصد کے تحت نتن یاہو نے اس حملے کا الزام ایران پر لگایا، حالانکہ ایران نے اس واقعے کی واضح طور پر مذمت کی ہے۔
آپ کا تبصرہ