18 نومبر، 2025، 9:18 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

سعودی ولی عہد کے دورہ واشنگٹن کے پس پردہ مقاصد؛ معاہدوں کی شکل میں امریکی حکمت آگے بڑھانے کی کوشش

سعودی ولی عہد کے دورہ واشنگٹن کے پس پردہ مقاصد؛ معاہدوں کی شکل میں امریکی حکمت آگے بڑھانے کی کوشش

ریاض کی قومی خودمختاری کی حفاظت کے بجائے امریکی سکیورٹی منصوبوں میں غیرضروری دلچسپی اور انحصار سے مشرق وسطی میں ایک مرتبہ پھر بیرونی طاقتوں کو ایران اور مقاومتی بلاک کو نشانہ بنانے کا موقع مل رہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا 18 نومبر کو واشنگٹن کا دورہ ریاض–واشنگٹن تعلقات میں ایک اہم موڑ اور مشرق وسطی کی جیوپولیٹکس میں نمایاں تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ دورہ علامتی اور روایتی نہیں بلکہ ایک مفصل اور سودے بازی پر مبنی مشن کے طور پر ترتیب دیا گیا ہے جس کے اثرات علاقائی سطح پر دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں۔ سفر ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب خطہ شدید چیلنجز سے دوچار ہے، جن میں ایران کے ایٹمی معاملے میں بڑھتے تناؤ، غزہ کی جنگ اور ابھرتی ہوئی عالمی طاقتوں کے ساتھ مقابلہ شامل ہے۔

بائیڈن دور میں خود کو نسبتاً تنہا محسوس کرنے والی سعودی قیادت اب ٹرمپ کے ڈیل پر مبنی انداز حکمرانی کو ایک موقع سمجھ رہی ہے۔ ریاض اس دورے کے ذریعے ایک جامع پیکیج کے تحت بڑے فوائد حاصل کر کے خود کو خلیج فارس میں امریکہ کے مرکزی اسٹریٹجک شریک کے طور پر مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ ایران کے نقطۂ نظر سے یہ دورہ محض ایک سفارتی ملاقات نہیں، بلکہ ایک منظم کوشش ہے جس کا مقصد محورِ مقاومت کے خلاف طاقت کے توازن کو بدلنا اور خطے میں اسلامی جمہوری ایران کے اثر کو محدود کرنا ہے۔ اس سفر کے ظاہر اور پس پردہ اہداف میں ایٹمی پروگرام، جدید اسلحہ اور نئی ٹیکنالوجیوں کا حصول شامل ہے جو آئندہ پورے عشرے کے لیے مشرق وسطی کی سلامتی کے ڈھانچے پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں۔

سعودی عرب اور مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ

محمد بن سلمان کے حالیہ سفر کا ایک پوشیدہ مقصد یہ ہے کہ امریکہ سے اجازت حاصل کی جائے تاکہ سعودی عرب کو مکمل ایٹمی ایندھن کے چکر، خاص طور پر یورینیم کی افزودگی کی سہولت مل سکے۔ سعودی عرب برسوں سے یہ مؤقف رکھتا ہے کہ اگر ایران کو افزودگی کا حق حاصل ہے تو ہمیں بھی ہونا چاہیے۔ امکان ہے کہ امریکہ، سعودی سرمایہ کاری اور اربوں ڈالر کے مالی تعاون کے بدلے، محدود افزودگی کی اجازت دے دے۔ اس سے ایران کی ٹیکنالوجی پر اجارہ داری کمزور ہوگی اور سعودی عرب مستقبل میں ایٹمی طاقت کے دہانے پر پہنچ سکتا ہے۔ ایران کے نزدیک یہ واشنگٹن کی دوہری پالیسی ہے کہ ایک طرف ایران کے پرامن پروگرام کو خطرہ قرار دے اور دوسری طرف سعودی عرب کو خصوصی رعایت مل جائے جس کے نتیجے میں خطے میں خطرناک ایٹمی مقابلے کا آغاز ہوسکتا ہے۔

سعودی عرب برسوں سے جدید ترین امریکی جنگی طیارے ایف-35خریدنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ سودا صدر بائیڈن کے دور میں انسانی حقوق اور اسرائیل کی برتری کے خدشات کی وجہ سے رکا ہوا تھا، لیکن ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے بحال ہونے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔ سعودی عرب کم از کم 45 طیارے خریدنے کے لیے تیار ہے اور اس پر 40 ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرے گا۔ ٹرمپ اس فروخت کو امریکی روزگار پیدا کرنے کا ذریعہ قرار دیتا ہے اور ممکن ہے کانگریس کی رکاوٹوں کو نظرانداز کر کے اسرائیل کو خفیہ یقین دہانیاں دے کر یہ سودا مکمل کرے۔ ایف-35 کی شمولیت سعودی فضائیہ کو خطے میں برتری دے گی اور ایران کے اندر حساس تنصیبات پر حملے کی صلاحیت کو بڑھا دے گی۔ ایران کے لیے یہ براہ راست خطرہ ہے جو خلیج فارس میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے اور ایک نئی اور شدید ہتھیاروں کی دوڑ کو جنم دے سکتا ہے۔

سعودی عرب اور اے آئی کی اہمیت کا بڑھتا ہوا شعور

سعودی عرب اپنی "ویژن 2030" حکمت عملی میں تیسرا بڑا ستون مصنوعی ذہانت (AI) کو بنا رہا ہے۔ محمد بن سلمان کے واشنگٹن سفر میں امریکی کمپنیوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر تعاون کو خاص اہمیت دی گئی ہے۔ ریاض چاہتا ہے کہ 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ذریعے نئوم کو مشرق وسطی کا سب سے بڑا AI مرکز بنایا جائے اور NVIDIA، مائیکروسافٹ اور اوپن اے آئی جیسی کمپنیوں کو ٹیکنالوجی منتقل کرنے اور تحقیقاتی مراکز قائم کرنے پر آمادہ کرے۔ چونکہ امریکہ چین کے ساتھ AI میں سخت مقابلے میں ہے، اس لیے امکان ہے کہ سعودی عرب کو ٹیکنالوجی پر پابندیاں کم کر دی جائیں۔ اس سے سعودی عرب ایک تیل پر انحصار کرنے والے ملک سے ٹیکنالوجی کے بڑے کھلاڑی میں بدل سکتا ہے اور اس کی سائبر اور الیکٹرانک جنگی صلاحیتیں بڑھ جائیں گی۔ ایران کے سیاسی حلقوں کے نزدیک یہ عمل مغرب کے بڑے منصوبے کا حصہ ہے تاکہ ایران کو عالمی جدت کی زنجیر سے باہر دھکیلا جائے اور ایک ناقابل تلافی ٹیکنالوجی فرق پیدا کیا جائے۔

مشرق وسطی میں نئی صف بندی

اس سفر کا ایک اور اہم پہلو خطے کے مستقبل کے نظم سے جڑا ہے۔ سعودی عرب، ٹرمپ کی غیر مشروط حمایت کے ساتھ ایران کے خلاف ایک عربی–عبری–امریکی اتحاد کا مرکز بننا چاہتا ہے۔ ریاض امید رکھتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ مکمل تعلقات قائم کرکے اور مشترکہ سکیورٹی نظام بنا کر ایک طرح کا "مشرق وسطی کا نیٹو" تشکیل دے، جس سے ایران کو مکمل تنہائی میں دھکیل دیا جائے۔ ساتھ ہی سعودی عرب امریکی سرمایہ کاری کھینچ کر ترکی اور قطر کے کردار کو کمزور کرنا اور سنی دنیا کی قیادت دوبارہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ یہ نیا نظام مقاومتی بلاک کو دفاعی پوزیشن میں لے آئے گا اور یمن، لبنان، شام اور عراق میں کشیدگی بڑھا سکتا ہے۔ تاہم سعودی عرب کی اندرونی مشکلات، تیل پر شدید انحصار اور چین و روس کے ساتھ بڑھتی ہوئی رقابت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ منصوبے غیر یقینی دکھائی دیتے ہیں۔

حاصل سخن

آخرکار، محمد بن سلمان کا واشنگٹن سفر محض ایک رسمی ملاقات نہیں بلکہ ایک جامع سودا ہے جس کا مقصد سعودی عرب کی عالمی اور علاقائی حیثیت کو دوبارہ متعین کرنا ہے۔ جوہری افزودگی کی مراعات، جدید ایف-35 طیاروں کی خریداری، مصنوعی ذہانت میں بڑے پیمانے پر تعاون اور ایران مخالف اتحاد کی قیادت یہ سب ظاہر کرتے ہیں کہ ریاض خلیج فارس میں ایک فیصلہ کن طاقت بننے کے لیے پرعزم ہے۔ ایران کے لیے یہ صورتحال کثیر جہتی خطرہ ہے جس سے اس کی قومی سلامتی اور دفاعی صلاحیت کو چیلنجز پیدا ہوں گے۔ اس کا جواب دینے کے لیے ایران کو مشرقی طاقتوں کے ساتھ سفارت کاری مضبوط کرنی ہوگی، میزائل اور سائبر پروگرام کو تیز کرنا ہوگا اور خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو زیادہ ہوشیاری سے استعمال کرنا ہوگا۔

News ID 1936574

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha