مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، الجزیرہ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ایرانی وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے اسرائیلی حکومت کی مسلط کردہ حالیہ 12 روزہ جنگ اور جاری کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کے ممکنہ دوبارہ حملے کی خبریں نفسیاتی جنگ کا حصہ ہیں۔
عراقچی نے کہا کہ ہم بھی بہت کچھ سنتے ہیں کہ اسرائیلی حکومت دوبارہ حملہ کر سکتی ہے۔ نفسیاتی جنگ حقیقی جنگ کا حصہ ہے، اور ایسا لگتا ہے کہ وہ فی الحال نفسیاتی جنگ پر کام کر رہے ہیں اور ملک میں خوف کا احساس پیدا کر رہے ہیں۔
تاہم، انہوں نے زور دیا کہ ایران تنازعے کے امکان کو نظر انداز نہیں کرتا۔ انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم جنگ کے امکان کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ ہم پوری طرح تیار ہیں۔ ہماری مسلح افواج اور ہمارے عوام کسی بھی حالت میں ملک کا دفاع کرنے کے لیے تیار ہیں۔
عراقچی نے جنگ کے خلاف ایران کے مؤقف کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ تہران سفارتی حل چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ ہم مسائل کو سفارت کاری کے ذریعے حل کرنا چاہتے ہیں۔ آپ بمباری کے ذریعے عمارتوں اور سازوسامان کو تباہ کر سکتے ہیں، لیکن فوجی حملوں سے ٹیکنالوجی کو تباہ نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی لوگوں کے ذہنوں سے علم کو مٹایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فوجی طاقت کے ذریعے کسی قوم کا عزم نہیں توڑا جا سکتا۔ عراقچی نے زور دیا کہ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آپ بمباری کے ذریعے کسی قوم کے عزم کو تباہ نہیں کر سکتے۔
ایران پر عائد کی گئی برسوں کی پابندیوں کا حوالہ دیتے ہوئے، ایرانی وزیر خارجہ نے کہا کہ دباؤ تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی فوجی حملے سے کئی سال پہلے، ایرانی عوام پر پابندیاں عائد کی گئیں، پھر بھی کچھ حل نہیں ہوا۔ مذاکراتی اور سفارتی حل کے علاوہ کوئی حل نہیں ہے۔
عراقچی نے امریکہ کے بارے میں بھی گہرا عدم اعتماد ظاہر کیا اور کہا کہ ایران نے کبھی بھی واشنگٹن کو ایک مخلص مذاکراتی شراکت دار کے طور پر نہیں دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے کبھی بھی امریکہ پر ایک ایماندار مذاکرات کار کے طور پر بھروسہ نہیں کیا۔ امریکہ کسی بھی چیز میں مخلص نہیں رہا، اور میری نظر میں، کوئی بھی اس پر واقعی بھروسہ نہیں کر سکتا۔ لیکن اس سے سفارت کاری کے انتخاب کو نہیں روکنا چاہیے۔
13 جون 2025 کو، امریکہ اور تہران کے جوہری مذاکرات کے عمل کے درمیان، اسرائیل نے ایران کے خلاف ایک واضح اور بلا اشتعال جارحیت شروع کر دی۔ اسرائیلی حملے نے 12 روزہ جنگ کو جنم دیا، جس میں ملک میں کم از کم 1,064 افراد شہید ہوئے، جن میں فوجی کمانڈر، جوہری سائنس دان اور عام شہری شامل تھے۔
امریکہ نے بھی بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی کرتے ہوئے ایران کی تین جوہری تنصیبات پر بمباری کر کے جنگ میں شمولیت اختیار کی۔
جواب میں، ایرانی مسلح افواج نے مقبوضہ علاقوں کے ساتھ ساتھ مغربی ایشیا میں سب سے بڑے امریکی فوجی اڈے، قطر میں واقع العدید ایئر بیس کو بھی نشانہ بنایا۔
24 جون کو، ایران نے اسرائیلی حکومت اور امریکہ دونوں کے خلاف اپنی کامیاب جوابی کارروائیوں کے ذریعے اس جارحیت کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔
آپ کا تبصرہ