مہر خبررساں ایجنسی، محمد رضا مرادی، ڈائریکٹر بین الاقوامی ڈیسک: حالیہ برسوں میں چین اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں غیرمعمولی تیزی عالمی نظام میں ایک اہم جغرافیائی و سیاسی تبدیلی کے طور پر ابھری ہے۔ یہ قربت صرف دوطرفہ روابط تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے عالمی طاقت کی سیاست اور بڑی طاقتوں کے باہمی مقابلے کو بھی متاثر کیا ہے۔ سعودی عرب اور چین کے تعلقات کا آغاز 1990 کی دہائی میں بنیادی طور پر توانائی کے شعبے سے ہوا تھا، تاہم آج یہ رشتہ ایک ہمہ جہت اور اسٹریٹجک شراکت داری کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
دسمبر 2022 میں چینی صدر شی جن پنگ کا تاریخی دورۂ ریاض اور جامع اسٹریٹجک شراکت داری کے معاہدے پر دستخط اس نئے مرحلے کا واضح اشارہ تھے۔ اس پیش رفت سے ظاہر ہوا کہ دونوں ممالک اقتصادی تعاون سے آگے بڑھ کر ٹیکنالوجی، سیکورٹی، انفراسٹرکچر، ثقافت اور علاقائی سیاست جیسے حساس شعبوں میں بھی تعاون کو فروغ دینا چاہتے ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہورہا ہے جب سعودی عرب کو واشنگٹن کی پالیسیوں پر اعتماد میں کمی کا سامنا ہے، جبکہ چین عالمی سطح پر اپنے اثر و رسوخ کو وسعت دینے کی منظم کوشش کررہا ہے۔
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت بیجنگ کو توانائی کے مستحکم ذرائع اور محفوظ تجارتی راستوں کی ضرورت ہے، جبکہ سعودی عرب اپنی تیل پر مبنی معیشت کے ساتھ ساتھ وژن 2030 کے ذریعے غیر ملکی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی کی منتقلی، قابل تجدید توانائی اور مشرق و مغرب کے درمیان سیاسی توازن کا خواہاں ہے۔ یہی مشترکہ مفادات دونوں ممالک کے تعلقات کو اس سطح تک لے آئے ہیں جو گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئی۔
امریکہ کے نقطۂ نظر سے چین اور سعودی عرب کے درمیان یہ بڑھتا ہوا تعاون محض ایک سادہ دوطرفہ تعلق نہیں، بلکہ چین کی جانب سے عالمی نظام میں تبدیلی کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔ واشنگٹن اسے ایک کثیرالجہتی چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے جس کے اقتصادی، سیکورٹی، جغرافیائی و سیاسی اور مالیاتی پہلو ہیں۔ اسی لیے سعودی عرب اور چین کی بڑھتی قربت امریکہ کے لیے نئی عالمی طاقتوں کی رقابت میں ایک سنجیدہ تشویش کا باعث بن چکی ہے۔
چین اور سعودی عرب کے بڑھتے تعلقات کی سطح
گزشتہ تیس برسوں میں چین اور سعودی عرب کے تعلقات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے اور آج یہ دنیا کی سب سے پیچیدہ اور کثیرالجہتی دوطرفہ شراکت داریوں میں شمار ہوتے ہیں۔ سعودی عرب دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے۔ اس وقت چین کی مجموعی تیل درآمدات کا تقریباً 18 فیصد سعودی عرب فراہم کر رہا ہے۔ توانائی کے اس گہرے انحصار نے دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مضبوط بنایا ہے۔
توانائی کے شعبے کے ساتھ ساتھ چینی کمپنیاں سعودی عرب میں درجنوں بڑے منصوبوں پر کام کر رہی ہیں۔ ان میں کم توانائی استعمال کرنے والے جوہری ری ایکٹرز کی تعمیر، 5G نیٹ ورک کی توسیع، نیوم شہر میں تعمیراتی منصوبے، پیٹروکیمیکل صنعت میں سرمایہ کاری اور مشترکہ صنعتی پارکس کا قیام شامل ہے۔ یہ تمام اقدامات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تعلقات صرف تجارت تک محدود نہیں رہے بلکہ عملی شراکت داری کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔
سیاسی سطح پر دونوں ممالک عدم مداخلت کے اصول کی بنیاد پر تعاون کررہے ہیں۔ یہ اصول سعودی عرب کے لیے مغرب کی جانب سے انسانی حقوق کے دباؤ کے مقابلے میں اہم ہے، جبکہ چین کو سنکیانگ اور ہانگ کانگ جیسے حساس معاملات پر سیاسی حمایت فراہم کرتا ہے۔ چین نے کبھی جمال خاشقجی کے قتل، یمن جنگ یا سعودی عرب کے انسانی حقوق کے مسائل پر تنقیدی مؤقف اختیار نہیں کیا، جس کی وجہ سے ریاض بیجنگ کو ایک مستحکم اور کم خرچ شراکت دار کے طور پر دیکھتا ہے۔
ایک اور اہم پہلو دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون ہے، جس کی بنیاد 1980 کی دہائی میں چین سے بیلسٹک میزائلوں کی خرید سے پڑی۔ اب یہ تعاون ایک نئے اور زیادہ جدید مرحلے میں داخل ہوچکا ہے، جس میں سعودی عرب میں ڈرونز کی تیاری، مشترکہ فوجی مشقیں، انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ اور دفاعی صلاحیتوں کی ترقی شامل ہے۔ بلیو سوورڈ 2025 جیسی دفاعی مشقیں ظاہر کرتی ہیں کہ چین اور سعودی عرب محض اسلحے کی خرید و فروخت تک محدود نہیں بلکہ سکیورٹی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ چین کی ٹیکنالوجی کے ذریعے سعودی عرب اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مقامی سطح پر فروغ دینے کی کوشش کررہا ہے، جس کے نتیجے میں امریکہ پر اس کا روایتی دفاعی انحصار بتدریج کم ہورہا ہے۔
چین اور سعودی عرب کے تعاون پر امریکہ کی معاشی تشویش
امریکہ جس شعبے پر سب سے زیادہ فکر مند ہے، وہ چین اور سعودی عرب کے تعاون کے عالمی معاشی اور مالی نظام پر ممکنہ اثرات ہیں۔ 1970 کی دہائی سے ڈالر کی عالمی طاقت کی بنیاد پیٹروڈالر نظام رہا ہے، جس کے تحت دنیا میں تیل کی زیادہ تر خرید و فروخت امریکی ڈالر میں ہوتی ہے۔ اسی نظام نے عالمی سطح پر ڈالر کی مسلسل مانگ کو یقینی بنایا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں چین نے کوشش کی ہے کہ اپنی توانائی کی تجارت کا کچھ حصہ اپنی کرنسی یوان میں انجام دے۔ جب 2022 میں صدر شی جن پنگ کے دورۂ سعودی عرب کے دوران تیل کی تجارت میں یوان کے استعمال کی تجویز سامنے آئی تو واشنگٹن نے اسے براہ راست خطرے کے طور پر دیکھا۔ اگر دنیا کا سب سے بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک سعودی عرب چین کو تیل کی فروخت کا کچھ حصہ بھی یوان میں کرنے لگے تو اس سے پیٹروڈالر نظام بتدریج کمزور ہوسکتا ہے اور عالمی تجارت میں ڈالر کی برتری پر سوال اٹھ سکتے ہیں۔
دوسری جانب سعودی عرب میں چینی کمپنیوں کی بڑھتی موجودگی بھی امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ ہواوے اور چینی آئل اینڈ گیس کمپنی سینوپیک جیسی کمپنیاں سعودی عرب کے اہم اور حساس شعبوں میں مضبوط مقام حاصل کرچکی ہیں، جو پہلے زیادہ تر مغربی کمپنیوں کے کنٹرول میں تھے۔ اس تبدیلی کے نتیجے میں امریکی کمپنیاں بڑے معاشی مواقع سے محروم ہورہی ہیں، جس کا براہ راست اثر واشنگٹن کے اقتصادی اثر و رسوخ پر پڑتا ہے۔
سعودی وژن 2030 کے تحت شمسی توانائی، ہائیڈروجن اور ٹرانسپورٹ کے بنیادی ڈھانچے جیسے منصوبوں میں چین اور سعودی عرب کا مشترکہ تعاون چین کو ایک عام شراکت دار سے بڑھا کر سعودی عرب کی مستقبل کی معیشت کا اہم کھلاڑی بنا رہا ہے۔ یہی پیش رفت امریکہ کی اس تشویش کو بڑھا رہی ہے کہ مشرق وسطی میں اس کے ایک اہم اتحادی پر اس کا اقتصادی اثر و رسوخ آہستہ آہستہ کم ہورہا ہے۔
امریکہ کے لیے جغرافیائی و سیاسی اور سیکورٹی کے خطرات
معاشی پہلو کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور چین کا تعاون امریکہ کے لیے سنجیدہ جغرافیائی و سیاسی اور سیکورٹی سے متعلق خدشات بھی پیدا کررہا ہے۔ 1940 کی دہائی سے امریکہ سعودی عرب کو مشرق وسطی میں اپنے سکیورٹی نظام کا ایک بنیادی ستون سمجھتا رہا ہے۔ ریاض–واشنگٹن اتحاد خطے میں امریکی اثر و رسوخ کا ایک اہم ذریعہ تھا۔ لیکن سعودی عرب کا چین کے قریب ہونا اس روایتی حیثیت کو چیلنج کررہا ہے۔
سعودی عرب کی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبوں میں شمولیت، مشترکہ ٹرانسپورٹ کوریڈورز کی تشکیل اور ریاض کا ایشیا، افریقہ اور یورپ کے درمیان ایک توانائی مرکز کے طور پر ابھرنا، چین کو یہ موقع فراہم کررہا ہے کہ وہ مشرقی ایشیا سے لے کر مشرق وسطی کے مرکز تک اپنا اثر و رسوخ بڑھائے۔ اس کے نتیجے میں اقتصادی انحصار کا ایک ایسا نیٹ ورک بن رہا ہے جو براہ راست خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتا ہے۔ یہی بات امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
اسلحہ اور دفاعی شعبے میں بھی چین اور سعودی عرب کا تعاون واشنگٹن کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ کئی دہائیوں تک سعودی عرب امریکی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار رہا، لیکن اب وہ اپنی فوجی ضروریات کا ایک قابل ذکر حصہ چین سے پورا کررہا ہے، خاص طور پر جنگی ڈرونز، جو امریکہ برآمدی پابندیوں کی وجہ سے سعودی عرب کو دینے پر آمادہ نہیں تھا۔ سعودی عرب میں چینی ڈرونز کی تیاری کے مراکز کا قیام اور مشترکہ دفاعی تعاون میں اضافہ اس بات کی علامت ہے کہ امریکہ پر سعودی عرب کا روایتی دفاعی انحصار کم ہورہا ہے۔ یہ تبدیلی خطے میں اسلحے کے توازن پر امریکی کنٹرول کو محدود کرسکتی ہے جو واشنگٹن کے لیے ایک اہم سکیورٹی چیلنج ہے۔
امریکہ کے لیے چین اور سعودی عرب کے تعلقات کے عالمی اثرات
سعودی عرب اور چین کے تعلقات میں وسعت محض دو ملکوں تک محدود تبدیلی نہیں، بلکہ اس کے عالمی اثرات ہیں جو بتدریج بین الاقوامی نظام کو بدل سکتے ہیں۔ یہ شراکت داری طاقتور معیشتوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا ماڈل پیش کرتی ہے، جس میں باہمی اقتصادی مفادات، ٹیکنالوجی کی ترقی اور سیاسی عدم مداخلت کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماڈل بہت سے ممالک کے لیے پرکشش بنتا جا رہا ہے۔ سعودی عرب کی جانب سے چین کے مختلف عالمی منصوبوں، خصوصا عالمی سلامتی اقدام کی حمایت، عالمی سطح پر بیجنگ کے مقام کو مزید مضبوط کرسکتی ہے۔ اگر مزید ممالک سعودی عرب کی راہ پر چلتے ہوئے یوان کے استعمال کی طرف بڑھتے ہیں تو عالمی معیشت میں ڈالر کے کردار کو سنجیدہ چیلنجز کا سامنا ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب مشرق وسطی میں چین کے بڑھتے ہوئے کردار سے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان اسٹریٹجک مقابلہ مزید پیچیدہ ہورہا ہے۔ چین کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کے لیے امریکہ کو ممکنہ طور پر زیادہ سخت پالیسیاں اپنانا پڑسکتی ہیں، جن میں سفارتی دباؤ، پابندیاں اور خطے میں فوجی موجودگی میں اضافہ شامل ہوسکتا ہے۔ یہ کثیرالجہتی مقابلہ ممکن ہے کہ افریقہ، ایشیا اور توانائی کے شعبے تک بھی پھیل جائے۔
سعودی عرب اور چین کا تعاون متحدہ عرب امارات، قطر اور حتی کہ ترکی جیسے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بن رہا ہے، جو مشرق اور مغرب کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو ایک ایسے کثیر قطبی عالمی نظام کی تشکیل ممکن ہے جس میں امریکہ کی طاقت اور اثر و رسوخ ماضی کے مقابلے میں کم ہوجائے گا۔
حاصل سخن
سعودی عرب اور چین کی قربت معاصر جغرافیائی و سیاسی منظرنامے کی ایک اہم تبدیلی ہے جو عالمی طاقت کے توازن کو بھی متاثر کررہی ہے۔ اس وسیع تعاون میں توانائی، معیشت، ٹیکنالوجی اور سیکورٹی شامل ہیں، جو امریکہ کے لیے ایک واضح انتباہ ہے کہ اس کا روایتی اثر و رسوخ مشرق وسطی میں کمزور ہورہا ہے۔ ان تعلقات سے پیدا ہونے والے خطرات کئی سطحوں پر محسوس کیے جاسکتے ہیں جن میں پیٹروڈالر سسٹم کے کمزور ہونے کے امکانات، چین کی ٹیکنالوجی کا خطے میں بڑھتا ہوا اثر، سعودی عرب اور بیجنگ کے درمیان فوجی تعلقات کا مضبوط ہونا، اور سعودی عرب کا امریکی ہتھیاروں پر کم انحصار شامل ہیں۔ اگر یہ رجحان جاری رہا تو چین نہ صرف سعودی عرب کے لیے ایک مضبوط اقتصادی پارٹنر بن جائے گا، بلکہ مشرقِ وسطیٰ میں طاقت کے توازن اور عالمی مالیاتی نظام پر بھی اثر ڈالنے والا اہم کھلاڑی بن جائے گا۔
البتہ حالیہ دورۂ واشنگٹن کے دوران محمد بن سلمان کے ساتھ امریکہ نے ریاض-بیجنگ تعلقات کو کمزور کرنے کی کوشش کی۔ اس دوران دفاع، مصنوعی ذہانت، جوہری توانائی اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں وسیع معاہدے کیے گئے تاکہ سعودی عرب کا چین پر انحصار کم کیا جاسکے۔ علاوہ ازیں سعودی سرمایہ کاری امریکہ میں بڑھانے اور نادر معدنیات و جدید ٹیکنالوجی منصوبوں میں اسٹریٹجک معاہدے بھی کیے گئے تاکہ امریکہ اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھ سکے۔ تاہم یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ یہ معاہدے عملی طور پر کس حد تک نافذ ہوسکیں گے؟
آپ کا تبصرہ