مہر خبررساں ایجنسی، دفاعی ڈیسک: دفاع ہر قوم کی بقا اور استقلال کی بنیادی ضمانت ہے، خصوصا ایسے حالات میں جب بیرونی طاقتیں سیاسی، اقتصادی اور فوجی دباؤ کے ذریعے کسی ملک کی خودمختاری کو چیلنج کررہی ہوں۔ ایران کو انقلاب اسلامی کے بعد سے مسلسل ایسے ہی خطرات کا سامنا رہا ہے؛ 8 سالہ جنگ سے لے کر صہیونی حکومت اور مغربی طاقتوں کی دھمکیوں تک، اور اس کے ساتھ ظالمانہ عالمی پابندیاں جو اس کی ترقی کو روکنے کے لیے عائد کی گئیں۔ لیکن یہی چیلنجز ایران کی دفاعی صنعت کی غیر معمولی پیشرفت کا باعث بنے۔ پابندیوں کے دوران خودکفیلی کی طرف بڑھتے ہوئے ایران نے میزائل ٹیکنالوجی، ڈرون سازی، بحری اور زیرِآب قوت، بکتر بند گاڑیوں اور زمینی جنگ جیسے شعبوں میں وہ کامیابیاں حاصل کیں جو آج اسے خطے کی ایک بڑی دفاعی قوت بناتی ہیں۔ یوں ایران کی دفاعی صنعت صرف ایک فوجی ڈھانچہ نہیں بلکہ ایک ایسی حکمتِ عملی کی عکاس ہے جو ہر قسم کے بیرونی خطرے کے مقابلے میں قومی آزادی اور خودمختاری کی ضامن بن چکی ہے۔
یوم صنعت دفاعی ایران کے اس عزم و استقلال کی یاد دلاتا ہے جس کے ذریعے ایرانی قوم نے ظالمانہ پابندیوں اور مسلط کی گئی جنگوں، بشمول اسرائیل کے ساتھ 12 روزہ جنگ، کے باوجود اپنا راستہ خود ہموار کیا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد ایران کو بے مثال چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں جنگِ، عالمی پابندیاں اور مغربی طاقتوں و صہیونی حکومت کی طرف سے لاحق خطرات شامل تھے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود دفاعی صنعت نے نہ صرف ان مشکلات کا مقابلہ کیا بلکہ خطے کی سب سے جدید اور خودکفیل ترین دفاعی صنعت میں تبدیل ہوگئی۔
اسی مناسبت سے یوم صنعت دفاعی پر ایران کی میزائل، ڈرون، بحری، زمینی اور فضائی شعبوں میں پیشرفت کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ یہ واضح ہو کہ ایران نے کس طرح پابندیوں اور جنگوں، خصوصا 12 روزہ جنگ کے دوران اپنے بازو پر اکتفاء کیا۔
انقلابِ اسلامی کے بعد دفاعی پیشرفت کی تاریخ
انقلاب اسلامی کے بعد مغرب کی جانب سے فوجی تعاون منقطع ہونے پر ایران کو خود کفالت کی راہ اختیار کرنی پڑی۔ صدام کے ساتھ جنگ میں مغرب نے بعثی عراق کی کھل کر حمایت کی۔ یہ ایران کے لیے فیصلہ کن مرحلہ تھا۔ اسی پس منظر میں 1981 میں دفاعی صنعتی اداره قائم کیا گیا تاکہ مقامی انجینئرنگ اور ریورس ٹیکنالوجی کے ذریعے خود انحصاری کی بنیاد رکھی جائے۔ آج ایران اپنی ضرورت کا 90 فیصد سے زائد فوجی ساز و سامان اندرون ملک تیار کرتا ہے، جو انقلاب سے پہلے مکمل انحصار کے مقابلے میں ایک عظیم تبدیلی ہے۔
پابندیوں کے باوجود خودکفالت کا سفر
سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 اور امریکا کی یکطرفہ پابندیوں نے ترقی کا راستہ روکا نہیں بلکہ مزید جدت کا باعث بنیں۔ ایران نے دفاعی ٹیکنالوجیز، جیسے درست نشانہ لگانے والے میزائل اور کم لاگت ڈرونز، میں سرمایہ کاری کر کے خطے میں طاقت کا توازن بدل دیا۔ امریکی ڈیفنس انٹیلیجنس ایجنسی کی 2019 کی رپورٹ کے مطابق ایران دنیا کے سب سے بڑے بیلسٹک میزائل تیار کرنے والے ممالک میں شامل ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایران نے مسلسل خطرات اور دباؤ کو ایک موقع میں بدل کر اپنی دفاعی صنعت کو خودمختاری کی انتہا تک پہنچایا اور آج خطے میں ایسی طاقت کے طور پر کھڑا ہے جو کسی بھی جارحیت کا جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔
مختلف شعبوں میں ایران کی دفاعی پیشرفتیں
ایران نے دفاعی میدان کے متعدد شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن کی بنیاد جنگ کے تجربات اور اس کے بعد کے اسٹریٹیجک تقاضوں پر رکھی گئی ہے:
میزائل ٹیکنالوجی
ایران کے پاس مشرق وسطی کا سب سے بڑا میزائل ذخیرہ موجود ہے۔ شهاب، قدر، سجیل، خرمشہر اور فتاح جیسے بیلسٹک میزائل، دو ہزار کلومیٹر سے زائد رینج اور اعلی دقت کے ساتھ تیار کیے گئے ہیں۔ ریورس انجینئرنگ کے ذریعے بنائے گئے یہ میزائل دشمن کے اڈوں کو ٹھیک نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ایران کی دفاعی قوت کا بنیادی ستون تصور کیے جاتے ہیں۔
ڈرون ٹیکنالوجی
ایران آج ڈرون سازی کے میدان میں دنیا کے صف اول کے ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ "شاہد-136"، "مهاجر" اور "ابابیل" جیسے ڈرونز کم لاگت اور زیادہ کارکردگی کے حامل ہیں، جو خاص طور پر غیر متوازن جنگوں میں مؤثر ثابت ہوئے ہیں۔ یہ ڈرونز نہ صرف ایران کی دفاعی حکمت عملی کا حصہ ہیں بلکہ مقاومتی محاذ کی کارروائیوں میں بھی استعمال ہوئے ہیں۔
بحری اور زیر آب صلاحیتیں
ایران کی بحریہ، چاہے وہ فوج کی ہو یا سپاہ پاسداران کی، ملکی اداروں کی پیداوار پر انحصار کرتے ہوئے ایک بڑی طاقت میں ڈھل چکی ہے۔ تیز رفتار کشتیاں، بحری بارودی سرنگیں اور نور و قادر جیسے اینٹی شپ میزائل، دشمن کے لیے خطرناک چیلنج بن چکے ہیں۔ اسی طرح غدیر اور فاتح کلاس آبدوزیں خفیہ آپریشنز کی صلاحیت کے علاوہ آبنائے ہرمز پر کنٹرول قائم کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں۔
زمینی جنگی صلاحیتیں
ایران نے زمینی جنگ کے ہتھیاروں میں بھی نمایاں پیشرفت کی ہے۔ مختلف اقسام کی رائفلز اور "طوفان" و "دهلاویه" جیسے اینٹی ٹینک میزائلز تیار کیے گئے ہیں، جو کئی فوجی مشقوں میں آزمانے کے بعد اب باقاعدہ طور پر ایرانی بری افواج اور سپاہ کی کاروائیوں میں استعمال ہورہے ہیں۔
ٹینک اور بکتر بند گاڑی
"کرار" اور "ذوالفقار" جیسے جدید ایرانی ٹینک الیکٹرانک نظاموں سے لیس ہیں۔ اسی طرح "رعد" جیسی بکتر بند فوجی گاڑیاں بھی زمینی آپریشنز میں ایران کی خودمختاری کا ثبوت ہیں۔
فضائی شعبہ
ایران نے "کوثر" نامی مقامی جنگی طیارہ اور "باور-373" جیسا جدید فضائی دفاعی نظام تیار کرکے جدید جنگی جہازوں کی کمی پوری کرلی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریکی اور جنگی ڈرونز فضائیہ کا لازمی حصہ بن چکے ہیں، جو ایران کی فضائی طاقت میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
دفاعی پیشرفت کے عوامل
وسیع پیمانے پر عائد پابندیوں نے ایران کو غیر ملکی ٹیکنالوجیوں سے محروم کردیا، مگر یہ رکاوٹ کمزوری بننے کے بجائے خودکفالت کا سبب بنیں۔ ایران کی کامیابی کے چند اہم عوامل درج ذیل ہیں:
ریورس انجینئرنگ اور جدت: فوج اور سپاہ کے تحت قائم جهادِ خودکفائی جیسے تحقیقی مراکز نے بیرونی ٹیکنالوجی مثلاً اسکڈ میزائل کی ریورس انجینئرنگ کے ذریعے ملکی سطح پر جدید دفاعی ٹیکنالوجی تیار کی۔
غیر متوازن ٹیکنالوجی پر توجہ: ایران نے مہنگے منصوبوں جیسے پانچویں نسل کے جنگی طیاروں کی دوڑ میں شامل ہونے کے بجائے کم لاگت مگر مؤثر ہتھیاروں، جیسے میزائل اور ڈرونز، پر سرمایہ کاری کی۔
جنگ کے تجربات: آٹھ سالہ جنگ نے ایران کو غیر منظم جنگ اور عوامی دفاع کے عملی اسباق دیے، جس کے نتیجے میں نئی دفاعی حکمت عملیاں تشکیل دی گئیں۔
مزاحمتی معیشت: اگرچہ ایران کا دفاعی بجٹ عالمی حریفوں کی نسبت کم ہے، لیکن اس کا بڑا حصہ مقامی پیداوار پر صرف ہوتا ہے، جس سے اندرونی صنعت کو تقویت ملی۔
ان حکمت عملیوں نے ایران کو خطے کی بڑی طاقت میں بدل دیا ہے حتی کہ مغربی ذرائع جیسے واشنگٹن انسٹیٹیوٹ نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ایران پابندیوں کو بے اثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
میدان عمل میں کامیاب مثالیں
ایران کی دفاعی صنعت نے صرف تحقیقاتی سطح پر ہی نہیں بلکہ عملی میدان میں بھی اپنی افادیت ثابت کی ہے۔ چند نمایاں مثالیں یہ ہیں:
آپریشن "وعدہ صادق"
دمشق میں ایرانی قونصلیٹ پر بمباری اور 12 روزہ جنگ کے دوران اسرائیلی حملوں کے جواب میں ایران نے آپریشن "وعدہ صادق3" شروع کیا۔ اس میں ہزاروں ڈرون، سیکڑوں کروز اور بیلسٹک میزائل اسرائیل کی طرف داغے گئے۔ اسرائیل کے دفاعی نظام "آئرن ڈوم"، "پیکان" اور "ڈیوڈ سلنگز" کے باوجود بعض "فتاح" اور "قدر" میزائل نواتیم اور نوادا کے ہوائی اڈوں سمیت اپنے اہداف پر لگے۔ رپورٹس کے مطابق 15 سے 20 فیصد میزائل دفاعی حصار توڑنے میں کامیاب رہے، جس نے مغربی دفاعی نظام کی کمزوری کو آشکار کیا۔
عین الاسد پر حملہ
شہید قاسم سلیمانی پر حملے کے بعد ایران نے امریکی فوجی اڈے "عین الاسد" پر "قدر" اور "قیام" میزائل داغے۔ یہ تاریخ کا سب سے بڑا بیلسٹک میزائل حملہ تھا جو براہ راست امریکی فوج پر کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں 100 سے زائد امریکی فوجی شدید دماغی و جسمانی چوٹوں کا شکار ہوئے اور ایرانی میزائلوں کی درستگی پوری دنیا پر ثابت ہوگئی۔
12 روزہ جنگ
13 جون 2025 کو اسرائیل نے ایران کی فوجی اور جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا، جس کے جواب میں ایران نے 550 بیلسٹک میزائل اور 1000 خودکش ڈرون داغے۔ ان حملوں نے اسرائیل کے فوجی مراکز اور شہروں میں بھاری نقصان پہنچایا۔ پہلی بار ایران نے قطر میں امریکی سینٹکام کے "العدید" اڈے کو بھی نشانہ بنایا، جس سے یہ ثابت ہوا کہ ایرانی میزائل امریکی "پیٹریاٹ" دفاعی نظام کو بھی چیر سکتے ہیں۔ امریکا کی براہ راست مداخلت کے باوجود یہ کارروائی ایران کی دفاعی قوت کا عملی اظہار تھی۔
نتیجہ
ایران میں یوم صنعت دفاع اس حقیقت کی یاد دلاتا ہے کہ ایرانی قوم نے ہر پابندی اور ہر جنگ کو ایک موقع میں بدل کر اپنی دفاعی صنعت کو مضبوط اور خودکفیل بنایا۔ یہ صنعت نہ صرف ملک کو دشمنوں کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے بلکہ خطے میں ایران کو ایک مؤثر اور اسٹریٹیجک فوجی قوت بھی فراہم کرتی ہے۔
ایران کی دفاعی مہارت کے عملی مظاہر میں آپریشن "وعدہ صادق"، عین الاسد پر حملہ اور 12 روزہ جنگ میں اسرائیل و امریکا کے خلاف جوابی اقدامات شامل ہیں، جو ملک کی تکنیکی قابلیت اور حکمت عملی کا روشن ثبوت ہیں۔
ماہرین کے مطابق، مستقبل میں ایران کی دفاعی صنعت جدید ٹیکنالوجیز جیسے مصنوعی ذہانت اور سائبر سیکورٹی پر توجہ دے کر اور زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوگی، اور آنے والی نسلوں کے لیے ایک قیمتی ورثہ ثابت ہوگی۔
آپ کا تبصرہ