16 جون، 2025، 11:33 AM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

میدان جنگ کا نیا منظرنامہ: ایران کی کامیاب دفاعی حکمت عملی اور نفسیاتی جنگ میں برتری

میدان جنگ کا نیا منظرنامہ: ایران کی کامیاب دفاعی حکمت عملی اور نفسیاتی جنگ میں برتری

ایران نے حالیہ دنوں میں اسرائیل پر کامیاب میزائل حملے کرکے امریکہ اور صہیونی حکومت کے جدید ترین دفاعی نظام کو ناکام بنادیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: اسلامی جمہوریہ ایران نے گذشتہ دہائیوں میں ایک جامع اور ارتقائی دفاعی ماڈل تشکیل دیا ہے جو صرف اسلحہ اور ٹیکنالوجی تک محدود نہیں بلکہ انسانی استعداد، مزاحمتی فکر، اور داخلی خودکفالت پر بھی استوار ہے۔ ایران کا دفاعی نظام نہ صرف مغربی ایشیا بلکہ عالمی سطح پر بھی ایک منفرد مقام رکھتا ہے کیونکہ اس کی بنیاد کسی مخصوص عسکری اتحاد یا بیرونی انحصار پر نہیں بلکہ مقامی علم، تجربہ، اور بصیرت پر رکھی گئی ہے۔ مغربی دفاعی ماہرین کا متفقہ مؤقف ہے کہ ایران نے نہ صرف ٹیکنالوجی بلکہ عملی جنگی تجربے، مقامی میزائل پروگرام، خودساختہ ایئر ڈیفنس سسٹمز، اور سائبر صلاحیتوں کو مربوط کر کے ایسا دفاعی ڈھانچہ تشکیل دیا ہے جو کئی سطحوں پر خطرات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایران کے دفاعی ماڈل کی اہم خصوصیت اس کی لچک دار اور غیر متوقع ردعمل دینے کی صلاحیت ہے۔ چاہے وہ سائبر حملے ہوں، فضائی حملے، یا نفسیاتی جنگ، ایران کا نظام ایسے خطرات کے خلاف چوکنا، فعال اور متحرک نظر آتا ہے۔ اس کے برعکس، صہیونی حکومت کی عسکری حکمت عملی مکمل طور پر جدید مغربی ٹیکنالوجی، انٹیلیجنس برتری، اور مصنوعی ذہانت پر انحصار کرتی ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی مدد سے اسرائیل نے "آئرن ڈوم"، "ڈیوڈز سلنگ" اور "ایرو" جیسے میزائل دفاعی نظاموں کے ساتھ ساتھ F-35 جیسے جدید اسٹیلتھ طیاروں، ڈرونز، اور الیکٹرانک وارفیئر سسٹمز سے لیس ایک ایسی عسکری مشینری تشکیل دی ہے جو تکنیکی لحاظ سے دنیا کی جدیدترین فورسز میں شمار ہوتی ہے۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی کی یہ برتری، ایران کے روایتی دفاعی ماڈل کے سامنے کئی بار بے اثر نظر آئی ہے، خاص طور پر جب میدان عمل میں غیر متوازن جنگ کی حکمت عملی اختیار کی گئی ہو۔

"وعدہ صادق 3" جیسے آپریشنز کے ذریعے ایران نے اپنی اسٹریٹیجک صلاحیت کو نہ صرف ظاہر کیا بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی یہ پیغام دیا کہ ایران دشمن کے دفاعی گہرائی میں کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے۔ ایران کے میزائل پروگرام کو پابندیوں اور عالمی دباؤ کے باوجود مقامی سطح پر ترقی دی گئی، جس کی بنیاد خودکفالت، تکنیکی خلاقیت اور مسلسل تجرباتی اپ ڈیٹ پر ہے۔ بیلسٹک، کروز، اور ہائپرسونک میزائلوں کی رینج، دقت، اور نفوذ پذیری نے ایران کو خطے کی اہم ترین میزائل طاقت میں تبدیل کر دیا ہے۔ ان میزائلوں کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ صہیونی حکومت کے مہنگے دفاعی سسٹمز کو عبور کرتے ہوئے اس کے اسٹریٹیجک مراکز تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یہی وہ پہلو ہے جو ایران کی دفاعی بازدارندگی کا بنیادی نکتہ قوت بن چکا ہے۔

عسکری قوت صرف ہتھیاروں کی حد تک محدود نہیں بلکہ افرادی قوت، نظریاتی وابستگی، اور زمینی حقیقتوں پر بھی منحصر ہوتی ہے۔ اگر جنگ زمینی سطح پر منتقل ہو جائے، تو ایران کے پاس ایک وسیع، منظم اور نظریاتی وابستگی رکھنے والی زمینی فورس موجود ہے، جس میں سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی، آرمی، اور بسیج شامل ہیں۔ ان فورسز کی اہمیت صرف ان کی تعداد میں نہیں بلکہ ان کی فکری تربیت، مزاحمتی سوچ اور آپریشنل تجربے میں مضمر ہے۔ اس کے برعکس، اسرائیل اگرچہ جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے، لیکن وہ عددی لحاظ سے محدود افرادی قوت رکھتا ہے اور زمینی سطح پر طویل جنگوں میں بیرونی مدد پر انحصار کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔

ایران کی دفاعی ٹیکنالوجی سے استفادے کی صلاحیت

مغربی دفاعی ماہرین کے ایک وسیع حلقے کے مطابق، اسلامی جمہوریہ ایران نے انسانی وسائل کی فراوانی، متنوع میزائل ذخیرے، مقامی فضائی دفاعی نظاموں اور کلاسیکی و غیر متوازن جنگوں کے تجربات کی بنیاد پر ہمیشہ خطے اور اس سے باہر کے خطرات کے مقابلے میں ایک مؤثر کردار ادا کیا ہے۔ بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کا کثیرسطحی اور متحرک دفاعی ڈھانچہ اس قابل ہے کہ وہ سائبر حملوں سے لے کر مکمل فضائی جنگ تک، ہر قسم کے وسیع خطرات کا سامنا کامیابی سے کرسکے۔

اس کے برعکس، صہیونی دشمن کی فوجی طاقت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی حکومت نے اپنی عسکری حکمت عملی کو پیشرفتہ ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس کی برتری کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔ امریکہ اور بعض مغربی طاقتوں کی فنی اور عسکری حمایت کی بدولت، اسرائیل خطے کی سب سے جدید فوجی طاقتوں میں شمار ہوتا ہے۔ تاہم، مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے شائع ہونے والی متعدد رپورٹس اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہیں کہ ایران، جو مغربی ایشیا کے سب سے بڑے میزائل بیڑوں میں سے ایک کا مالک ہے، "وعدہ صادق 3" آپریشن کے دوران یہ ثابت کرچکا ہے کہ وہ صہیونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی اسٹریٹیجک گہرائی تک کسی بھی مقام کو کامیابی سے نشانہ بنا سکتا ہے۔ ایران کی میزائل طاقت، جس کا بڑا حصہ پابندیوں کے سائے میں اور مکمل طور پر مقامی سطح پر تیار کیا گیا ہے، اس طرح ڈیزائن کی گئی ہے کہ وہ دشمن کے دفاعی نظاموں کو عبور کر کے مؤثر انداز میں ہدف تک پہنچ سکے اور ایک قوی بازدارندہ عامل کے طور پر عمل کرے۔

ایران کی عددی برتری صرف میزائل کے میدان تک محدود نہیں ہے، بلکہ اگر جنگ زمینی مرحلے تک پہنچتی ہے تو ایران ایک وسیع اور منظم زمینی فورس کے ذریعے میدان جنگ پر بھرپور گرفت حاصل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے برعکس، اگرچہ اسرائیل ہتھیاروں کی کوالٹی کے اعتبار سے برتر ہے، تاہم انسانی وسائل اور لاجسٹک سپورٹ کے لحاظ سے وہ بیرونی امداد پر زیادہ انحصار کرتا ہے۔

نتیجتاً، اسلامی جمہوریہ ایران اور صہیونی دشمن کے درمیان موجودہ کشمکش محض ایک تکنیکی یا کلاسیکی جنگ نہیں ہے، بلکہ یہ دو متضاد اور مختلف طرز کے دفاعی ماڈلز کے درمیان ایک ہمہ جہتی اور گہرا تصادم ہے۔ ایک ماڈل، جس کی بنیاد خودکفالت، اندرونی قوت، اور مزاحمتی تجربے پر ہے، اور دوسرا ماڈل، جو عالمی امداد، جدید ٹیکنالوجی اور انٹیلیجنس برتری پر تکیہ کرتا ہے۔

ملکی ساختہ ایرانی ڈرونز کی برتری

یورونیوز کی 13 جون کی ایک رپورٹ کے مطابق، جو موجودہ جھڑپوں کے آغاز کے ساتھ شائع ہوئی، اسلامی جمہوریہ ایران نے حالیہ برسوں کے دوران ڈرون ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلسل اور ہدفمند سرمایہ کاری کے ذریعے نہ صرف خطے میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ایک اسٹریٹیجک مقام حاصل کر لیا ہے۔ یہ پیشرفت محض ایران کی دفاعی ضروریات اور جاری پابندیوں یا مسلسل خطرات کا ردعمل نہیں بلکہ ایک طویل المدت منصوبہ بندی کا ثمر ہے جس کا مقصد دفاعی میدان میں خودکفائی اور تکنیکی استقلال حاصل کرنا ہے۔

رپورٹ کے مطابق ایرانی ڈرونز آج ایک وسیع دائرے میں مختلف صلاحیتوں کے حامل ہوچکے ہیں۔ ان میں دوربرد شناسائی (ریکنیسنس) کرنے والے ڈرونز، خودکش حملے کرنے والے "شاہد 136"،  "کمان" اور "فطرس" جیسے جدید جنگی ڈرونز شامل ہیں جو انتہائی دقت کے ساتھ اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کئی ڈرونز میدان جنگ میں اپنی مؤثر کارکردگی کا مظاہرہ پہلے ہی کرچکے ہیں۔ ایران نے نہ صرف روایتی عسکری میدان میں ان ڈرونز کو استعمال کیا ہے بلکہ الیکٹرانک وارفیئر کے دائرے میں بھی انہیں ایک مؤثر ہتھیار میں تبدیل کیا ہے۔ یہ ڈرونز دشمن کی کمیونیکیشن اور ریڈار سسٹمز کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جنگی میدان میں برتری حاصل کرنے کے لیے جدید تکنیکی ذرائع کا استعمال کرتے ہیں۔

میدانِ جنگ میں ٹیکنالوجی کا مقابلہ

صہیونی حکومت کی جانب سے ایران پر حالیہ حملے کی پہلی شب میں دو سو سے زائد لڑاکا طیاروں نے ایرانی سرزمین کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ تاہم، ایران نے تیزرفتار اور وسیع جوابی کارروائی کے ذریعے متعدد ڈرونز اور میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب روانہ کیے، جس سے یہ واضح ہو گیا کہ اگرچہ کچھ نقصانات ہوئے، مگر اسلامی جمہوریہ ایران کا دفاعی ڈھانچہ اور جوابی صلاحیت پوری طرح فعال ہے۔ ایران کا اسٹریٹیجک پیغام بھی واضح تھا: "ہم جوابی کارروائی کی صلاحیت محفوظ رکھتے ہیں اور اگر حملے کا تسلسل برقرار رہا، تو بھرپور اور مؤثر ردعمل دینے کے لیے مکمل آمادہ ہیں۔"

صہیونی حکومت نے مصنوعی ذہانت اور دشمن کے رویے کی پیش گوئی پر مبنی تجزیاتی نظاموں پر وسیع سرمایہ کاری کی ہے۔ ان ٹیکنالوجیز کو فضائی نگرانی کے نیٹ ورک اور ریکی ڈرونز کے ساتھ مربوط کرکے وہ ایک ایسا "سیکورٹی وژن" تشکیل دینا چاہتے ہیں جو ممکنہ خطرات کو وقوع پذیر ہونے سے قبل ہی شناخت اور ناکام بنا سکے۔ لیکن یہ گہرا انحصار، بالخصوص غیر متوازن اور پیچیدہ جنگوں میں، صہیونی حکومت کے لیے ایک سنگین کمزوری بھی بن سکتی ہے۔ آج کی جنگیں صرف روایتی میدان میں نہیں لڑی جاتیں بلکہ کئی شعبوں پر محیط ہوتی ہیں: مثلاً غلط اطلاعات کی اشاعت، سافٹ ویئر سسٹمز میں نفوذ، ریڈار فریب کاری، اور نفسیاتی حملے۔ ایسے میں اگر کسی عسکری ادارے کی توجہ محض ڈیٹا اور الگورتھمز تک محدود ہو جائے، اور وہ زمینی حقیقتوں و عملی لچک سے غافل ہو، تو وہ مہنگی اور غلط فیصلہ سازی کا شکار ہو سکتا ہے۔

اس کے برخلاف ایران نے ایک مرکب دفاعی ماڈل تشکیل دیا ہے جو روایتی فوج، سپاہ پاسداران، فضائی دفاعی نظاموں، سائبر یونٹس اور دیگر اداروں پر مشتمل ہے۔ یہ ماڈل نہ صرف تیز، لچکدار اور غیر متوقع حکمت عملیوں کے قابل ہے بلکہ دشمن کی پیش گوئی پر مبنی صلاحیتوں کے مقابل ایسے جوابی آپریشنز ترتیب دے سکتا ہے جو جنوبی لبنان سے لے کر بحیرہ عمان، عراق کی سرزمین سے لے کر مقبوضہ فلسطین کی گہرائی تک پھیلے ہوسکتے ہیں۔ اس ٹکراؤ میں فیصلہ کن عنصر صرف ڈیٹا کی مقدار یا اس کی پروسیسنگ کی رفتار نہیں ہوگا، بلکہ اصل کامیابی کا دارومدار میدانِ جنگ کی حقیقی سمجھ، حکمت عملی میں فوری ردوبدل کی صلاحیت، اور برق رفتاری کے ساتھ ہوشیار ردعمل پر ہوگا۔ وہ صلاحیتیں جو اسلامی جمہوریہ ایران نے عشروں پر محیط مشترکہ جنگی تجربات، مسلسل پابندیوں اور کثیر سطحی چیلنجز کے دوران حاصل کی ہیں۔

حاصل کلام

اسلامی جمہوریہ ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری تصادم محض دو افواج کے درمیان عسکری ٹکراؤ نہیں بلکہ دو مختلف سیکیورٹی و تکنیکی افکار کی جنگ ہے۔ یہاں صرف تکنیکی برتری فیصلہ کن نہیں، بلکہ سیاسی عزم، داخلی ہم آہنگی، سماجی مزاحمت کی سطح، اور قومی وسائل کو منظم انداز میں متحرک کرنے کی صلاحیتیں بھی اتنی ہی اہم ہیں۔ ایران کی پابندیوں، دہشتگردی، معلوماتی جنگ اور مشترکہ حملوں کے خلاف کامیاب مزاحمت اس کی اس صلاحیت کا ثبوت ہے کہ وہ ہر خطرے کو موقع میں بدلنے اور خودانحصاری کو مستحکم کرنے کی قوت رکھتا ہے۔ ایران نے مقامی دفاعی نظاموں، علمی بنیاد پر تیار کردہ عسکری صنعت، اور مرکب جنگی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کے ذریعے ایسی دفاعی قوت حاصل کی ہے کہ دشمنوں کو اپنی جارحانہ حکمت عملیوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور ہونا پڑا ہے۔

ایسے عالم میں جہاں ٹیکنالوجی جنگی نتائج کی تعیین میں بنیادی کردار ادا کر رہی ہے، ایران کو چاہیے کہ روایتی عسکری صلاحیت کے ساتھ ساتھ سائبر طاقت، اسمارٹ ویپن، کثیر سطحی دفاعی نظام، اور خاص طور پر انٹیلی جنس کے شعبے پر بھی توجہ دے۔ اس مقصد کے لیے سیکورٹی اداروں، جامعات اور مقامی صنعتوں کے درمیان مضبوط تر روابط قائم کرنا ناگزیر ہے۔

آخرکار، آج اور آنے والے کل کی جنگ میں جو چیز فیصلہ کن حیثیت رکھے گی، وہ پہلا وار نہیں بلکہ بقاء کی قوت، لچکدار ردعمل، اور طویل مدتی اسٹریٹیجک پالیسی ہوگی۔ یہ وہ عناصر ہیں جو اگر دفاعی میدان میں تکنیکی حکمرانی اور علاقائی سفارت کاری کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں، تو ایران کو مستقبل کے اسٹریٹیجک امور میں ایک ناقابلِ انکار قوت بناسکتے ہیں۔

News ID 1933558

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha