31 اگست، 2025، 1:52 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

غیر مسلح کرنے کا امریکی منصوبہ، حزب اللہ کا دوٹوک انکار، بیروت حکام کے لئے "پائے رفتن نہ جائے ماندن"

غیر مسلح کرنے کا امریکی منصوبہ، حزب اللہ کا دوٹوک انکار، بیروت حکام کے لئے "پائے رفتن نہ جائے ماندن"

مقاومت کو غیر مسلح کرنے کے امریکی منصوبے پر حزب اللہ کی جانب سے واضح انکار کے بعد لبنانی حکام مخمصے کا شکار ہوگئے ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنان اس وقت ایسے سیاسی بحران سے گزر رہا ہے جو "معاہدہ طائف" کے بعد سے سب سے شدید تصور کیا جا رہا ہے۔ یہ معاہدہ 1989 میں خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے طے پایا تھا، لیکن آج کی صورتحال نے ایک بار پھر ملک کو بڑے بحران کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔

 عون–سلام حکومت کے قیام کے بعد امریکہ اور صہیونی حکومت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 کو بنیاد بنا کر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔ اس قرارداد کا مقصد جنگ بندی کے بعد اسرائیل اور لبنان کے درمیان امن قائم کرنا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خود اسرائیلی فوج آج تک لبنانی سرزمین سے مکمل طور پر واپس نہیں گئی۔ خاص طور پر مزارع شبعا اور دیگر علاقے اب بھی صہیونی فوج کے قبضے میں ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ صہیونی حکومت "گریٹر اسرائیل" کے اپنے پرانے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل سرگرم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حزب اللہ اور لبنانی عوام غیر مسلح ہونے کے مطالبے کو ایک غیر منطقی اور خطرناک سازش قرار دیتے ہیں، کیونکہ ایسے وقت میں جب دشمن اب بھی ملک کے بعض حصوں پر قابض ہے، مقاومت کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنا دراصل اسرائیل کو مزید جارحیت کے لیے راستہ فراہم کرنا ہے۔

ایسی صورتحال میں حزب اللہ کی قیادت نے نہ صرف اس سازش کو مسترد کر دیا ہے بلکہ واضح کیا ہے کہ اگر حکومت اس فیصلے پر عمل کرنے کی کوشش کرے تو حزب اللہ "عاشورائی مقاومت" کے لیے آمادہ ہے۔ حزب اللہ کا مؤقف ہے کہ اسرائیل اور امریکہ دراصل لبنان کو غیر مسلح کرکے اسے صہیونی منصوبوں کے لیے آسان شکار بنانا چاہتے ہیں۔

امریکی منصوبے کے خلاف حزب اللہ کا جراتمندانہ موقف

سیاسی و میڈیا دباؤ کے باوجود حزب اللہ نے دوٹوک انداز میں کہا ہے کہ "غیرمسلح ہونا" لبنان کی خودمختاری کے خاتمے کے مترادف ہوگا۔ سیکریٹری جنرل شیخ نعیم قاسم نے شہید سید عباس موسوی کی برسی کے موقع پر کہا کہ اگر حکومت اس راستے پر چلی تو لبنان آزاد نہیں رہے گا۔ اسرائیل اپنے مقاصد کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔

امریکہ نتن یاہو کی خواہشات کے عین مطابق لبنان کے اندر طاقت کے توازن کو بدلنے کی کوشش میں ہے تاکہ حزب اللہ کو بیروت میں دیوار سے لگادیا جائے۔ تاہم تاریخی تجربات بتاتے ہیں کہ جب تک صہیونی حکومت جنوبی لبنان کی سرزمین پر قابض ہے اور وہاں سے پسپائی اختیار نہیں کرتی، حزب اللہ نہ اپنے ہتھیار زمین پر رکھے گی اور نہ ہی تل ابیب کے سامنے سرِتسلیم خم کرے گی۔

تسلیم سے توہین تک؛ امریکیوں کے رویے میں تبدیلی

26 اگست 2025 کو امریکی ایلچی ٹام باراک، مورگان اورتگاس اور امریکی سیاست دانوں کا ایک وفد بیروت پہنچا تاکہ لبنان کے اعلی حکام کے ساتھ ملاقاتیں کرے۔ باراک نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ وہ اتوار 31 اگست کو ایک مخصوص منصوبہ پیش کرے گا جس کے مطابق حزب اللہ کو ہتھیار چھوڑنے اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر آمادہ کیا جائے گا۔ 

انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت لبنان زبردستی نہیں کرے گی بلکہ ترغیبی منصوبوں کے ذریعے حزب اللہ کو قائل کرنے کی کوشش کرے گی۔ تاہم ان خوش نما جملوں سے صرف چند لمحے پہلے باراک نے لبنانی دانشوروں کو خطاب کرتے ہوئے انتہائی توہین آمیز انداز میں کہا: "اگر تم جانوروں کی طرح شور مچاؤ گے تو ہم نشست چھوڑ کر چلے جائیں گے!"

اس کھلی توہین کے بعد لبنانی عوام اور سیاسی حلقوں میں شدید ردعمل پیدا ہوا۔ سوشل میڈیا صارفین اور متعدد سیاست دانوں نے اس بیان کی سخت مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ حکومت لبنان فوری طور پر سرکاری سطح پر اس کی مذمت کرے۔

غیر مسلح کرنے کے صہیونی منصوبہ اور عون کا مثبت جواب

اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کے تحت ہونے والے ستمبر 2024 کے جنگ بندی معاہدے میں طے پایا تھا کہ صہیونی فوج لبنان کی مقبوضہ زمینیں چھوڑ کر بین الاقوامی سرحدوں کے پیچھے ہٹ جائے گی۔ مگر گذشتہ 9 ماہ کے دوران اسرائیلی فوج نہ صرف مزارع شبعا اور الغجر گاؤں سے نہیں نکلی بلکہ جنوبی سرحد کے پانچ اہم مقامات پر قبضہ کر کے عارضی فوجی اڈے قائم کرچکی ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف آلما کی رپورٹ کے مطابق اس عرصے میں اسرائیل نے حزب اللہ کے 700 سے زائد کارکنوں کو شہید کیا اور درجنوں بار تعلیمی مراکز، اسلحہ کے گوداموں اور آپریشن رومز پر حملے کیے۔

اسرائیلی اخبار ٹائمز آف اسرائیل نے رپورٹ دی کہ وزیراعظم کے دفتر نے حزب اللہ کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے دوران ایک مبہم بیان جاری کیا ہے۔ اس بیان میں کہا گیا کہ اگر لبنانی حکومت حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے لیے عملی اقدامات کرے تو اسرائیلی فوج بھی امریکہ کی نگرانی میں جنوبی لبنان کے پانچ مقبوضہ مقامات سے پیچھے ہٹنے پر غور کرے گی۔ لبنانی تجزیہ کاروں کے مطابق ایسے بیانات دراصل اندرونی اختلافات کی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہیں۔

حاصل کلام

لبنان کی موجودہ حکومت ایسے وقت میں امریکہ اور اسرائیل کے منصوبے کے جال میں پھنسی ہے جب ملک اب بھی خانہ جنگی اور غیر ملکی قبضوں کی تلخ یادیں اپنے سینے میں لیے ہوئے ہے۔ وہ دور یادگار ہے جب مقاومت اسلامی لبنان وجود میں نہیں آئی تھی اور اسرائیلی فوج نے جنوبی سرحد سے آسانی کے ساتھ پیشقدمی کرتے ہوئے بیروت پر قبضہ کر لیا تھا۔

اسی زمانے میں کچھ مسلمان اور محب وطن نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے وطن کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھائیں گے۔ 1984 کے واقعات نے ثابت کیا کہ حزب اللہ نے لبنان کے دفاع میں غیر ملکی مداخلت کرنے والوں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی اور ان کے اقدامات کا بھرپور اور سخت جواب دیا۔

لبنان کی تاریخ اور امریکہ و صہیونی حکومت کے ماضی کے ریکارڈز کو سامنے رکھتے ہوئے بیروت حکام مخمصے کا شکار ہیں۔ اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کیا جائے تو امریکہ کی خاموش حمایت کے تحت صہیونی حکومت لبنان کی مزید اراضی پر قبضہ کرلے گی اور تل ابیب کی جارحانہ پالیسیوں کو روکنا تقریبا ناممکن ہوگا۔ دوسری جانب امریکہ، صہیونی حکومت اور عرب ممالک سیاسی اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکی دے رہے ہیں۔ قومی اور ملکی مفادات کو تقاضا ہے کہ بیروت حکام بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کے بجائے لبنانی عوام اور قومی سلامتی کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کریں۔

News ID 1935122

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha