مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: لبنانی حکومت نے ایک غیر دانشمندانہ فیصلہ کرتے ہوئے مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا قدم اٹھایا، جس پر حزب اللہ نے سخت ردعمل دیا۔ اسی تناظر میں، معروف لبنانی مصنف اور تجزیہ کار علی حیدر نے روزنامہ الاخبار میں لکھا کہ وزیراعظم نواف سلام کا یہ فیصلہ، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے حوالے سے، عرب اور صہیونی تنازع کی تاریخ میں ایک نہایت حساس سیاسی لمحے کی عکاسی کرتا ہے۔
لبنانی حکومت کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ اچانک نہیں تھا، بلکہ یہ ایک طویل عمل کا نتیجہ تھا جو پچھلے سال کے خزاں میں اسرائیلی جارحیت ختم ہونے کے بعد سے جاری تھا۔ بظاہر یہ فیصلہ ایک لبنانی سرکاری عہدیدار نے کیا، لیکن اس کے اثرات آنے والے وقت میں بھی محسوس کیے جائیں گے، خاص طور پر اس لیے کہ اسرائیل اب بھی جنگ بندی کی کھلی خلاف ورزی کررہا ہے۔
اسی دوران شام میں اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں، جس نے مزاحمتی محاذ پر گہرے اثرات ڈالے۔ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں اسرائیل کو لبنان کے خلاف کشیدگی بڑھانے کا حوصلہ ملا۔ دشمن نے حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کو نقصان پہنچانے اور اس کے بڑے رہنماؤں، جیسے سید حسن نصراللہ اور سید ہاشم صفی الدین، کو نشانہ بنانے میں کچھ کامیابیاں حاصل کیں۔ لیکن جب حزب اللہ نے اپنی اگلی بڑی کارروائی شروع کی، تو اسرائیلی قیادت کو یہ ماننا پڑا کہ فضائی برتری اور فوجی دباؤ کے باوجود وہ اپنے اصل مقصد میں ناکام رہی ہے۔
اس ناکامی کے بعد، اسرائیل اور اس کے امریکی سرپرستوں نے اپنی حکمت عملی بدل دی۔ اب انہوں نے براہ راست فوجی کارروائی کے بجائے ایسے طریقے اپنانے شروع کیے جو نسبتا کم خرچ اور زیادہ لچکدار ہوں۔ اس نئے منصوبے کا مقصد یہ تھا کہ حزب اللہ کو لبنان کے اندر سے ہی کمزور کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے مزاحمت کے نظریے اور اس کی عوامی حمایت کے مراکز کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی، اور لبنانی حکومت پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ ایسے فیصلے کرے جو حزب اللہ کے وجود اور اس کے اسلحے کو نشانہ بنائیں۔ جنگ بندی کے بعد کے مہینوں میں امریکہ اس حوالے سے براہ راست دباؤ ڈال رہا تھا۔
لبنانی حکومت کا حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ ایک بڑا سیاسی قدم تھا جس کا مقصد لبنان کو اندرونی مسائل میں الجھانا تھا۔ تل ابیب اور واشنگٹن کی منصوبہ بندی کے تحت، حکومت لبنان نے حزب اللہ کو قومی دھارے سے ہٹا کر حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والی تنظیم قرار دے دیا۔ اس طرح حزب اللہ کی مرکزی حیثیت کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی۔
لیکن یہ منصوبہ زیادہ دیر تک کامیاب نہ رہا۔ حزب اللہ نے فورا اس فیصلے کو غیر قانونی قرار دے کر سخت مخالفت کی اور واضح کیا کہ وہ اس کو کبھی تسلیم نہیں کرے گی۔ ساتھ ہی اس نے حکومت سے علیحدگی اختیار کرنے یا ملک کے اندر لڑائی جھگڑے میں پڑنے سے بچنے کا عزم بھی ظاہر کیا۔ حزب اللہ کی یہ حکمت عملی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سیاسی طور پر سمجھدار ہے اور اپنی طاقت کو خطرے میں ڈالے بغیر حالات کا مقابلہ کر رہی ہے۔
حزب اللہ کو تین راستے میسر تھے: یا تو وہ امریکی اور صہیونی دباؤ کو قبول کر لے، یا حکومت سے کھلے عام ٹکراؤ اختیار کرے، یا پھر سیاسی سمجھداری سے معاملہ سنبھالے اور لڑائی سے بچتے ہوئے اپنی حکمت عملی اپنائے۔ حزب اللہ نے تیسرا راستہ منتخب کیا کیونکہ یہ کم نقصان دہ اور زیادہ مؤثر تھا۔ اس سے وہ ریاستی اداروں میں اپنا اثر برقرار رکھ سکی اور دشمن کی وہ کوششیں ناکام ہوگئیں جن کا مقصد اسے داخلی تنازعات میں گھسینا تھا۔
صہیونی حکومت کو اچھی طرح معلوم ہے کہ حزب اللہ کے اس موقف کی وجہ سے ان کا منصوبہ ناکام ہو رہا ہے اور لبنانی حکومت کی یہ صلاحیت کم ہوگئی ہے کہ وہ حزب اللہ کو بغیر کسی اندرونی جھگڑے کے غیر مسلح کرسکے۔ پھر بھی ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل اس فیصلے کو جواز بنا کر اپنی جارحیت کو قانونی شکل دے گا اور لبنان کے معاملات میں زیادہ مداخلت کرے گا؟
صہیونی مفادات کے نقطہ نظر سے جواب ہاں ہے، کیونکہ یہ فیصلہ انہیں لبنان میں زیادہ مداخلت کرنے کا جواز دے گا۔ لیکن لبنان کے مفادات سے دیکھا جائے تو صہیونی حملوں کا جاری رہنا اور ان میں شدت آنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا فیصلہ اور لبنان پر قبضہ کرنے کی صہیونی حکمت عملی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
اس صورت حال کو دیکھ کر کہا جاسکتا ہے کہ اگلا مرحلہ تین اہم قوتوں کے درمیان کشمکش پر مبتنی ہے۔ ایک طرف حکومت ہے جس کی صلاحیت پر سوال ہے کہ وہ سیاسی اور سماجی تقسیم کے باوجود یہ فیصلہ نافذ کر پائے گی یا نہیں۔ دوسری طرف حزب اللہ ہے، جو دباؤ کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے لیکن اندرونی لڑائی میں نہیں پھنسنا چاہتی۔ تیسری طرف صہیونی حکومت ہے جو کوشش کررہی ہے کہ وہ براہ راست مداخلت سے بچے تاکہ لبنان کے اندرونی معاملات میں ہاتھ ڈالنے کا الزام نہ لگے، اور لبنان کی حکومت کے فیصلے کا فائدہ اٹھا کر حزب اللہ کے خلاف طویل جنگ چھیڑے۔
لبنان میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کا نتیجہ صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ کا خاتمہ نہیں ہے، بلکہ یہ ایک نیا باب ہے۔ اس نئے دور میں لڑائی گولیوں اور بموں سے نہیں بلکہ سیاسی حربوں سے ہوگی۔ حزب اللہ نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ خود کو قومی خودمختاری کی محافظ ظاہر کرے جو بیرونی سازشوں کے خلاف کھڑی ہے۔
یوں، ایک طرف صہیونی حکومت اور امریکہ باہر سے لبنان پر سیاسی دباؤ ڈال رہے ہیں، اور دوسری طرف حزب اللہ اندر سے ملک کی خودمختاری کا دفاع کررہی ہے۔ اس جدوجہد کے بیچ لبنان میں ایک نئی حد بندی ہورہی ہے۔ آج لوگ ایک اہم سوال کے جواب کی تلاش میں ہیں: ملک کی اصل خودمختاری کا محافظ کون ہے اور لبنان کو بیرونی خطرات سے کون بچائے گا؟
آپ کا تبصرہ