مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، مشرق وسطی گذشتہ کئی دہائیوں سے امریکی اور صہیونی حکومت کی پالیسیوں کے باعث تنازع کا مرکز رہا ہے۔ ان ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے خطے کے عوام اور مقاومتی تنظیموں نے مزاحمت کا علم بلند کیا ہے۔ فلسطین میں حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے صہیونی حکومت کو بارہا سیاسی، سکیورٹی اور عسکری میدان میں مشکلات سے دوچار کیا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ نے 2000 اور 2006 کی جنگوں میں اسرائیل کو تاریخی شکست سے دوچار کر کے مزاحمت کے ہتھیار کو خطے میں ایک نئی علامت بنا دیا۔ عراق میں الحشد الشعبی داعش کے خلاف فیصلہ کن قوت کے طور پر ابھرا اور ملکی سلامتی کے توازن میں مرکزی کردار ادا کیا۔
ان کامیابیوں نے امریکہ اور اسرائیل پر یہ حقیقت آشکار کر دی کہ جب تک مزاحمتی گروہ مسلح اور منظم رہیں گے، ان کی سیاسی و عسکری برتری کو چیلنج کیا جاتا رہے گا۔ اسی لیے واشنگٹن اور تل ابیب نے ایک ہمہ جہت حکمتِ عملی اختیار کی ہے جس میں فوجی دباؤ کے ساتھ ساتھ اقتصادی پابندیوں، سیاسی مذاکرات اور سفارتی محاذ پر دباؤ ڈال کر مزاحمت کو غیر مسلح کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
فلسطین میں حماس کے خاتمے اور غزہ و مغربی کنارے کو غیر مسلح کرنے کی منصوبہ بندی، لبنان میں حزب اللہ کے خلاف مہم، اور عراق میں الحشد الشعبی کو دباؤ اور دھمکیوں کے ذریعے کمزور کرنے کی کوششیں، سب اسی بڑے منصوبے کا حصہ ہیں۔ تاہم مقاومتی محاذ اب تک ثابت قدم رہا ہے اور اپنے اسلحے کو صرف دفاعی ضرورت نہیں بلکہ بقا اور وقار کی ضمانت سمجھتا ہے۔
صہیونی حکومت اور امریکہ خطے میں مزاحمتی گروہوں کے اسلحے کے خلاف ایک منظم حکمتِ عملی پر عمل پیرا ہیں۔ یہ دراصل ایک ایسی جنگ ہے جو بیک وقت تین مختلف محاذوں پر لڑی جارہی ہے۔ اگرچہ یمن بھی اس کشمکش سے دور نہیں ہے، تاہم اس کی جغرافیائی اور سیاسی و سماجی صورتحال اسے ایک الگ حیثیت فراہم کرتی ہے۔
فلسطینی مقاومت کا ہتھیار
امریکہ کی حکمت عملی کا بنیادی ہدف غزہ اور مغربی کنارے پر مرکوز ہے۔ امریکہ کا منصوبہ یہ ہے کہ حماس کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے، اسے جغرافیائی اور سیاسی نقشے سے مٹا دیا جائے اور غزہ و مغربی کنارے میں مزاحمتی ڈھانچے کو غیر مسلح کردیا جائے۔
فلسطینی مقاومت نے اب تک صہیونی حکومت کو سب سے زیادہ سیاسی، سکیورٹی اور دفاعی ضربیں لگائی ہیں۔ اس کے باوجود، فلسطین کے بعض حلقے جو پہلے ہی اسرائیل کے مقابلے میں ناکام ہوچکے ہیں، اب مقاومت کو غیرمسلح کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو قبول کرنے لگے ہیں۔ ان کے خیال میں فلسطینی مجاہد کی وہ شبیہ، جو ننگے پاؤں مرکاوا ٹینک کے پیچھے دوڑتا ہے، آئندہ نسلوں کے ذہن میں باقی نہیں رہنی چاہیے۔ وہ نہیں چاہتے کہ فلسطینیوں کے دل میں مزاحمت کی چنگاری زندہ رہے، کیونکہ ان کے نزدیک مصالحانہ رویہ ہی عربوں کا واحد اسٹریٹجک راستہ ہے۔
حزب اللہ کا اسلحہ
حزب اللہ لبنان نے حالیہ ہفتوں میں اپنی آواز بلند کی ہے اور اسلحے کے معاملے پر جاری کشمکش کو واقعی عاشورا سے شبیہ قرار دیا ہے۔ اس موقف کے ذریعے حزب اللہ نے اس حقیقت کی جانب اشارہ کیا ہے کہ جنوبی لبنان پر حملے کی تاک میں بیٹھا دشمن نہ کسی عہد کا پابند رہا ہے اور نہ اس نے کسی ذمہ داری پر عمل کیا ہے؛ بلکہ وہ اپنی جارحیت جاری رکھے ہوئے ہے، قبضے کو وسعت دے رہا ہے، قیدیوں کو اپنے قبضے میں رکھے ہوئے ہے اور لبنان و مزاحمت کو ایک نئے دور کی جنگ کی دھمکیاں دے رہا ہے۔
موجودہ نامساعد حالات میں لبنان کے بعض گروہ جلد بازی میں حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ لبنان کو دوبارہ خانہ جنگی کی طرف دھکیلا جاسکے جس میں صہیونی حکومت نے بھرپور موقع پا کر خطے کی مزاحمت کو ضرب لگائی تھی۔ لبنانی حکومت نے حزب اللہ کے اسلحے کے مسئلے پر کچھ مرحلے طے کیے ہیں۔
المیادین کے مطابق موجودہ صورتحال میں حزب اللہ کے سامنے تین راستے ہیں۔ اگر حزب اللہ اپنے مقاصد کے حصول سے پہلے اپنے ہتھیار ڈال دیتی ہے تو یہ ایک کھلی خودکشی ہوگی۔ اگر ہتھیار نہ ڈالے تو اسے صہیونی حکومت کے ساتھ ایک نئی جنگ کا خطرہ مول لینا پڑے گا۔ اسی لیے حزب اللہ تیسرا راستہ اختیار کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس راستے میں ایک طرف حکومت اور اس کے اتحادیوں پر دباؤ ڈالنا شامل ہے تاکہ وہ واشنگٹن اور تل ابیب کو مجبور کریں کہ وہ لبنانی حکومت کے مطالبات پر سنجیدگی سے غور کریں، اور دوسری طرف ایک قومی مکالمے کے ذریعے قومی سلامتی و دفاعی حکمت عملی پر اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
ان حالات میں لبنانی حکومت بھی تین مشکل راستوں کے بیچ کھڑی ہے:
1. اپنے سابقہ فیصلوں اور اسلحے جمع کرنے پر دی گئی ڈیڈ لائن سے پیچھے ہٹنا اور حزب اللہ کے مطالبے کو ماننا، جو بیروت اور اس کے عربی و بین الاقوامی اتحادیوں کے تعلقات کو مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
2. اس فیصلے پر زبردستی عمل درآمد کرنا، جو موجودہ لبنان میں نہ صرف بعید از قیاس ہے بلکہ ملک کی وحدت کو خطرے میں ڈال سکتا ہے اور خانہ جنگی کے امکانات بڑھا سکتا ہے۔
3. حزب اللہ کے ساتھ مل کر قومی مکالمے اور ایک متفقہ قومی سلامتی و دفاعی حکمت عملی کی طرف بڑھنا، اور ساتھ ہی واشنگٹن، برسلز اور پیرس کے ذریعے صہیونی حکومت پر دباؤ ڈالنا تاکہ وہ اپنے کیے گئے وعدوں کو پورا کرے۔ تاہم لبنانی حکمرانوں کے بارے میں اس حقیقت کو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ وہ آزادانہ فیصلے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور بیرونی مداخلت کے بغیر حتمی فیصلہ نہیں کرسکتے۔
عراقی مقاومت کا اسلحہ
امریکہ اور اسرائیل کا سیاسی و سکیورٹی تقابل عراقی مزاحمتی فورسز الحشد الشعبی کے ساتھ نہایت سخت اور پیچیدہ ہے۔ واشنگٹن الحشد الشعبی کے خلاف دو بنیادی حربوں پر انحصار کر رہا ہے:
1. پابندیوں کا ہتھیار یعنی سخت اقتصادی دباؤ ڈالنا اور یہ دھمکی دینا کہ عراق کو دوبارہ 1990 کی دہائی کی شدید پابندیوں اور محاصرے کے دور میں واپس دھکیل دیا جائے گا۔
2. اسرائیلی ہتھیار کا خوف، بعض ذرائع کے مطابق واشنگٹن نے عراقی حکام کو متنبہ کیا ہے کہ صہیونی حکومت لبنان میں مزاحمت کے خلاف جو جنگی منظرنامہ آزماچکی ہے، اسے عراق میں بھی دہراسکتی ہے۔
عراق میں مزاحمتی ہتھیار اور اس کے گروہوں کا دفاع نہایت دشوار دکھائی دیتا ہے۔ اسی تناظر میں کچھ حلقے نجف اشرف کی شیعہ مرجعیت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اس تاریخی فتوائے جہاد کفائی سے پیچھے ہٹ جائے جس کی بنیاد پر الحشد الشعبی تشکیل پایا تھا۔ تاہم مرجعیت نے ہمیشہ مزاحمت کے آپشن کی حمایت کی ہے اور آئندہ بھی کرتی رہے گی۔
حاصل کلام
امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے تین محاذوں ــ فلسطین، لبنان اور عراق ــ پر مقاومت کو غیر مسلح کرنے کی حکمتِ عملی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ مزاحمتی قوتوں کا اسلحہ خطے میں طاقت کے توازن کو چیلنج کر رہا ہے۔ فوجی دباؤ، اقتصادی پابندیاں اور سیاسی حربے اگرچہ مسلسل استعمال ہو رہے ہیں، لیکن اب تک یہ مزاحمت کو جھکانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔
حماس، حزب اللہ اور الحشد الشعبی کے تجربات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ان تحریکوں کے لئے اسلحہ محض جنگی ہتھیار نہیں بلکہ آزادی، خودمختاری اور قومی وقار کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غیرمسلح کرنے کے منصوبے، چاہے وہ دباؤ، سازش یا مذاکرات کے ذریعے ہوں، عوام اور ان تحریکوں کے حامیوں کے نزدیک قومی خودکشی کے مترادف سمجھے جاتے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ صورت حال میں مزاحمت اپنے اسلحے کے دفاع پر قائم ہے، اور جب تک فلسطین، لبنان اور عراق میں سیاسی و سماجی حمایت موجود ہے، واشنگٹن اور تل ابیب کی کوششیں ناکام رہیں گی۔
14:19 - 2025/09/05
آپ کا تبصرہ