2 اگست، 2025، 3:00 PM

سابق لبنانی وزیر کی مہر نیوز سے گفتگو:

امریکہ کی سازش کے باوجود حزب اللہ ہتھیار ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی

امریکہ کی سازش کے باوجود حزب اللہ ہتھیار ہتھیاروں سے دستبردار نہیں ہوگی

لبنانی سابق وزیر نے کہا ہے کہ امریکہ کے دباؤ اور اسرائیلی حملوں کے باوجود حزب اللہ اپنے ہتھیاروں سے کبھی دستبردار نہیں ہوگی اور ملک کے دفاع کے لیے پرعزم ہے۔

مہر نیوز ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: مشرق وسطی کی پیچیدہ صورت حال میں حزب اللہ لبنان ایک اہم مزاحمتی قوت کے طور پر ابھری ہے، جس نے امریکہ کی طرف سے اپنی مسلح حیثیت کو ختم کرنے کی سخت سازشوں کے باوجود اپنی دفاعی صلاحیت کو مضبوطی سے برقرار رکھا ہوا ہے۔ اگرچہ لبنان میں جنگ بندی کا اعلان ہو چکا ہے مگر صہیونی حکومت کی جارحیت میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس نے مسلسل حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جو خطے میں کشیدگی کو بڑھا رہے ہیں۔ حزب اللہ نے واضح کردیا ہے کہ نہ وہ اپنے ہتھیار زمین پر پھینکے گی اور نہ ہی کسی بھی دباؤ یا سازش کے سامنے جھکے گی کیونکہ یہ ہتھیار لبنان کی خودمختاری اور دفاع کا ضامن ہیں۔ موجودہ حالات میں، حزب اللہ کی یہ پوزیشن نہ صرف لبنان بلکہ پورے خطے کی سلامتی اور استحکام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔

لبنان کے سابق وزیر عدنان السید حسین نے مہر نیوز سے گفتگو میں لبنان کی موجودہ صورت حال اور مقاومت کے کردار کا جائزہ لیا۔ 

ذیل میں السید حسین کے انٹرویو کا متن پیش کیا جاتا ہے:

مہر نیوز: لبنان میں امریکی نمائندے ٹام براک نے لبنان کے صدر سے ملاقات کے بعد درپیش حالات پر مایوسی ظاہر کی۔ اس مایوسی کا مطلب کیا ہے؟

السید حسین: ٹام براک نے لبنان کے تیسرے دورے پر مایوسی کا اظہار اس لیے کیا کیونکہ وہ توقع کررہے تھے کہ لبنان کے صدر جنرل جوزف عون سے مختلف اور مثبت جواب ملے گا، جو پہلے لبنانی حکام سے حاصل نہیں ہوا تھا۔ یہ مایوسی اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکہ لبنان پر دباؤ مزید بڑھانے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ لبنان امریکی منصوبے کو بہتر طریقے سے قبول کرے۔ اگر لبنان ایسا نہ کرے تو اس پر دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ لبنان پر بڑھتا ہوا دباؤ اسرائیلی حکومت کو لبنان میں بلا روک ٹوک کارروائیوں کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسرائیل لبنان میں جاری قتل و غارتگری اور شمالی لبنان کے علاقوں جیسے طرابلس اور بقاع پر حملوں کا سلسلہ بڑھا سکتا ہے۔

مہر نیوز: براک نے لبنان پر اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے صہیونی حکومت پر کسی بھی قسم کا دباؤ ڈالنے سے مکمل طور پر پہلوتہی کی اور دعوی کیا کہ یہ معاملہ اس کے ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے لبنان کے معاملے میں نام نہاد تصفیے کے لیے امریکی منصوبے سے بھی پسپائی اختیار کرلی۔ کیا آپ اس امریکی پسپائی کو لبنان کی حکومت کے لیے ایک چھپا ہوا خطرہ سمجھتے ہیں؟ اور جب امریکی ایلچی اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں ناکام رہا ہے تو اب اگلا قدم کیا ہوگا؟

السید حسین: کب امریکی حکومتوں نے صہیونی حکومت پر دباؤ ڈالا ہے؟ بائیڈن حکومت نے تل ابیب کو تمام تر مہلک ہتھیار اور تباہ کن آلات فراہم کر دیے ہیں، اب امریکہ کے پاس تل ابیب سے روکنے کے لیے باقی کیا بچا ہے؟

مغرب بالعموم صہیونیوں پر کوئی دباؤ نہیں ڈالتا، اور امریکہ کی حکومت نے نہ کبھی اسرائیل پر دباؤ ڈالا ہے، نہ ہی مستقبل میں کبھی ڈالے گی۔ غزہ میں جو کچھ ہو رہا ہے، وہی اس حقیقت کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ حماس نے کئی بار امن کے لیے تجاویز پیش کیں، لیکن صہیونیوں نے ہمیشہ انہیں مسترد کر دیا۔ امریکی حکومت ہمیشہ تل ابیب کو حق پر سمجھتی ہے اور کبھی نہیں کہتی کہ حماس کا مؤقف درست ہے۔ امریکہ ہمیشہ یہی کہتا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ آج بھی وائٹ ہاؤس میں وہی پرانا منظرنامہ قائم ہے، اور یہ سوچنا بھی ممکن نہیں کہ کبھی امریکی حکومت صہیونی حکومت پر واقعی کوئی دباؤ ڈالے گی۔

مہر نیوز: لبنان کے خلاف اسرائیلی جارحیت میں مسلسل شدت اور تسلسل کے باوجود امریکہ جو ثالثی کا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس کے منصوبے کی نوعیت کیا ہے؟ اور لبنانی مزاحمت اور حکومت کے اداروں نے اسے کیوں مسترد کردیا ہے؟

السید حسین: لبنانی مزاحمتی قوتوں نے امریکی تجاویز، خاص طور پر ان کے حتمی مسودے کو قطعی طور پر مسترد کردیا ہے۔ ان تجاویز میں اسرائیل سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی حدود سے بھی تجاوز کیا گیا ہے، جب کہ خود اسرائیل کو کسی قانون کا پابند نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس، امریکہ چاہتا ہے کہ حزب اللہ پورے لبنان میں اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کردے۔ کیا کوئی باشعور انسان اس طرح کے یک طرفہ منصوبے کو قبول کرسکتا ہے؟ جب امریکہ خود کو غیرجانبدار ثالث کے بجائے صہیونی جارحیت کا مکمل شریک کار بناتا ہے، تو ایسی صورت میں حزب اللہ کیا کہے؟ اور لبنانی حکام اس پر کیا مؤقف اختیار کریں؟ ایسی صورت حال میں یہ بالکل فطری ہے کہ حزب اللہ اپنے اسلحے سے محفوظ رکھے اور دفاعی صلاحیت کو ختم نہ کرے۔

مہر نیوز: صدر جوزف عون کے مؤقف کے پیش نظر، آپ اس مرحلے پر لبنان کی داخلی صورتحال کو کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا امریکی ایلچی اب بھی لبنانی حلقوں کو حزب اللہ کے خلاف اکسانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں؟

السید حسین: یقینا اس وقت لبنان کی داخلی صفوں میں دراڑیں ڈالنے کا ایک سنگین خطرہ موجود ہے، اور یہی وہ کام ہے جو امریکہ اس وقت تقریبا تمام عرب ممالک میں کر رہا ہے۔ آپ شام اور عراق کی صورتحال کو دیکھ لیجیے، اور اس سے پہلے لیبیا، یمن، صومالیہ اور افغانستان سے لے کر شمالی افریقہ تک جو کچھ ہوا، اس پر بھی غور کیجیے۔ لبنان کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ کچھ لبنانی افراد امریکہ کے جھوٹے وعدوں پر بھروسہ کر بیٹھیں اور اختلافات کا شکار ہوجائیں۔

ہم واضح طور پر کہتے ہیں کہ امریکی وعدوں پر اعتماد نہ کیا جائے۔ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے جو دباؤ ڈالا جارہا ہے، اس کا بہترین جواب قومی وحدت ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ لبنان کی قیادت اور عوام کے مابین اتحاد ہی وہ بنیادی ہتھیار ہے جس کے ذریعے تمام سازشوں اور جارحیت کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔

میڈیا کو چاہیے کہ وہ امریکی وعدوں کے دلدل میں نہ پھنسے، بلکہ اس تاریخی حقیقت کو ذہن میں رکھے کہ امریکہ نے گزشتہ دہائیوں کے دوران خاص طور پر سویت یونین کے زوال کے بعد لبنان اور عرب دنیا میں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے کس طرح کام کیا ہے۔ لبنانی عوام کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھیں۔ یہ اتحاد، وہ طاقت ہے جو لبنانی فوج یا مزاحمت کے کسی بھی ہتھیار سے زیادہ مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر یہ وحدت قائم ہو جائے تو لبنان اسرائیلی تجاوزات کے خلاف مؤثر اور اسٹریٹجک اقدامات اٹھاسکتا ہے۔

News ID 1934637

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha