مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ صہیونی حکومت اور امریکہ کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کا زیادہ تر تعلق نفسیاتی جنگ سے ہے، تاہم ایران ہر ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہے۔ ایرانی عوام برسوں سے اس قسم کے حالات کے عادی ہیں اور یہ دھمکیاں کوئی نئی بات نہیں۔
عرب چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نفسیاتی جنگ دراصل حقیقی جنگ کا حصہ ہوتی ہے، جس کا مقصد ایرانی معاشرے میں خوف اور بے چینی پیدا کرنا ہے، لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ اس قسم کے حربے کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ امریکہ اور اسرائیل بخوبی جانتے ہیں کہ ماضی کی جنگیں بالخصوص بارہ روزہ جنگ ایک ناکام تجربہ تھی اور وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
وزیر خارجہ نے مکمل دفاعی آمادگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ایرانی مسلح افواج اور عوام ہر حال میں وطن کے دفاع کے لیے تیار ہیں، تاہم اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایران جنگ کا خواہاں ہے۔ ایران کی اولین ترجیح ہمیشہ سفارت کاری رہی ہے اور نیویارک سمیت مختلف سطحوں پر کی جانے والی سفارتی کوششیں بھی اسی مقصد کے تحت تھیں، لیکن امریکہ اور بعض یورپی ممالک کی حد سے بڑھی ہوئی مطالبات خصوصا اسنپ بیک کے معاملے پر پیش رفت میں رکاوٹ بنے۔
عراقچی نے زور دے کر کہا کہ ایران ہر سناریو کے لیے تیار ہے مگر اگر عقل و تدبر سے کام لیا جائے تو ایک ناکام تجربے کو دوبارہ دہرانا نہیں چاہیے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایران کے دشمن جرائم کے ارتکاب میں کسی حد و سرحد کے پابند نہیں اور غزہ میں ہونے والے واقعات اس حقیقت کا واضح ثبوت ہیں۔
جوہری پروگرام سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ ایران کے جوہری پروگرام کا کوئی فوجی حل موجود نہیں۔ ممکن ہے تنصیبات یا آلات کو نقصان پہنچایا جائے، لیکن علم اور ٹیکنالوجی کو بمباری سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ سائنس دانوں کا قتل بھی کسی قوم کے عزم و ارادے کو توڑنے میں ناکام رہا ہے۔ برسوں کی دھمکیوں، پابندیوں اور حتی کہ حملوں کا تجربہ یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ تمام حربے بے نتیجہ رہے ہیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ فضائی حملوں کے دوران ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچا، تاہم واضح کیا کہ اس کا مطلب جوہری پروگرام کا خاتمہ نہیں۔ ایران کی جوہری ٹیکنالوجی مقامی بنیادوں پر استوار ہے اور دوبارہ بحالی کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ ایرانی عوام کا عزم بدستور قائم ہے۔
قطر میں امریکی اڈے پر ایران کے حملے کی وضاحت کرتے ہوئے عراقچی نے کہا کہ ایران نے قطر پر حملہ نہیں کیا بلکہ نشانہ امریکی فوجی اڈہ تھا۔ ایران اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے اور اگر امریکہ کے ساتھ کوئی تصادم ہوا تو ایران کا جواب صرف امریکی فوجی اڈوں تک محدود ہوگا، چاہے وہ اڈے کسی بھی ملک میں واقع ہوں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اسی موقع پر ایران نے قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ کو براہ راست اس بارے میں آگاہ کیا کیونکہ ایران کی جنگ خطے کے ہمسایہ ممالک کے خلاف نہیں بلکہ امریکہ کے ساتھ ہے۔
امریکہ پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وزیر خارجہ نے کہا کہ واشنگٹن کبھی بھی ایک دیانت دار مذاکرات کار ثابت نہیں ہوا اور اس پر اعتماد کی کوئی بنیاد موجود نہیں، تاہم یہ بداعتمادی سفارت کاری کے راستے کو آزمانے میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اس کے باوجود، ماضی کے تجربات کے باعث امریکہ کے ساتھ مذاکرات پر ایران کا اعتماد شدید حد تک کم ہوچکا ہے اور جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے واضح کیا ہے، امریکہ کے ساتھ مذاکرات بند گلی میں پہنچے ہیں۔
عراقچی نے سلامتی کونسل میں تین یورپی ممالک کی جانب سے پابندیاں بحال کرنے کی کوشش کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے سفارت کاری پر کاری ضرب قرار دیا اور کہا کہ جس طرح حملہ مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوا، اسی طرح مزید پابندیاں بھی صورتحال کو صرف پیچیدہ بنائیں گی، حل فراہم نہیں کریں گی۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جوہری تنصیبات پر حملوں کے بعد تعاون ناگزیر طور پر معطل ہوگیا، کیونکہ بمباری کا نشانہ بننے والی تنصیبات کے معائنے کے لیے کوئی واضح فریم ورک موجود نہیں تھا۔ تاہم ایران نے حسن نیت کے تحت ایجنسی کے ساتھ ایک نئے معاہدے پر اتفاق کیا، جس پر قاہرہ میں دستخط بھی کیے گئے، مگر اس اقدام کو نظرانداز کرتے ہوئے اسنپ بیک کو فعال کر دیا گیا، جس کے باعث یہ معاہدہ عملا غیر مؤثر ہوگیا۔ اسی وجہ سے تہران ایجنسی کے ساتھ تعاون کے طریقہ کار پر نظر ثانی پر مجبور ہے۔
انٹرویو میں وزیر خارجہ نے ایران سے متعلق امریکی صدر کے بیانات کو ملک کے داخلی امور میں مداخلت قرار دیا اور کہا کہ ایران کے بارے میں فیصلہ کرنا صرف ایرانی عوام کا حق ہے، کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ حالیہ جنگ کے دوران قومی اتحاد نے ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آخر میں عراقچی نے ایک بار پھر سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ایک پرامن اور مذاکراتی حل اب بھی ممکن ہے، بشرطیکہ ایک دوسرے کا احترام کیا جائے اور ایرانی قوم کے جائز حقوق کو تسلیم کیا جائے۔ انہوں نے امریکی صدر کو مشورہ دیا کہ وہ سفارت کاری کی راہ پر واپس آئیں، کیونکہ شاید ابھی اس کے لیے مکمل طور پر دیر نہیں ہوئی۔
آپ کا تبصرہ