19 نومبر، 2023، 7:26 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

مسلمان ممالک میں صہیونی مصنوعات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ

مسلمان ممالک میں صہیونی مصنوعات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ

غزہ کے خلاف صہیونی حکومت کے وحشیانہ حملے شروع ہونے کے بعد متعدد اسلامی ممالک میں صہیونی حکومت یا اس کی حمایت کرنے والی کمپنیوں کی مصنوعات کا غیر اعلانیہ بائیکاٹ جاری ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ 
7اکتوبر کو حماس کی جانب سے طوفان الاقصی آپریشن کے بعد صہیونی حکومت نے غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں پر مظالم شروع کیا۔ صہیونی وحشیانہ بمباری میں بے گناہ خواتین اور معصوم بچوں کی شہادت کے ردعمل میں پوری اسلامی دنیا میں صہیونی حکومت یا اس کی حامی مصنوعات کا عمومی بائکاٹ کیا جارہا ہے۔

ملائشیا میں عوام نے کوکاکولا، کٹ کیٹ، کولگیٹ اور سپرنگلز کی مصنوعات خریدنا چھوڑ دیا ہے۔

سماجی کارکن غزہ میں صہیونی مظالم سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے شاپنگ مالز کے سامنے فلسطینی بچوں کی تصاویر لگادیتے ہیں تاکہ عوام صہیونی مصنوعات نہ خریدیں۔

ملائشیا میں عوام نے سنجیدگی کے ساتھ یہ اقدام کرتے ہوئے ان کمپنیوں کو اسرائیل کی حمایت سے دستبردار کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ اس حوالے سے عوامی سطح پر احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔

بعض سیاستدانوں اور فلمی شخصیات نے اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے بائیکاٹ سے بڑھ کر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ معروف فلمی شخصیت ویوی یوسف نے ایکس پر اپنے پیغام میں لکھا ہے کہ اگر کوئی سوچتا ہے کہ وہ کچھ نہیں کرسکتا ہے، تو غلط سوچتا ہے۔ آپ فلسطینیوں کے لئے دعا کرتے ہوئے صہیونی مصنوعات کا بائکاٹ کرسکتے ہیں۔

انہوں نے مزید لکھا ہے کہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ اگر ہم صہیونی حامی کمپنیوں کی مصنوعات خریدتے رہیں تو وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات ختم نہیں کریں گی۔ جب ان کی مصنوعات بکنا بند ہوجائے تو یہ کمپنیاں مجبور ہوجائیں گی۔ اپنے دوستوں کو بھی اس کام کی تشویق کریں۔ اس طرح ملکی کمپنیاں بھی ترقی کریں گی اور عوام کے لئے ملازمت کے مواقع پیدا ہوں گے۔

ترکی میں عوام نے صہیونی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم شروع کردی ہے۔ اس سلسلے میں کوکاکولا اور نیسکافے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

ترک پارلیمنٹ نے صہیونی مصنوعات یا اس سے تعلقات رکھنے والی کمپنیوں کی مصنوعات کو حکومتی سٹوروں اور بلدیہ کی دکانوں پر فروخت کرنے پر پابندی لگادی ہے۔ یونیورسٹیوں نے بھی اعلان کیا ہے کہ اسرائیلی تعلیمی اداروں سے تعلقات ختم کئے جائیں گے۔
ترک عوام کی طرف سے بھی غزہ ہم#مستشفى_الشفاء میں فلسطینی عوام کی نسل کشی کے خلاف احتجاج زور پکڑ رہا ہے۔

ترک پارلیمنٹ کے سربراہ نومان کورتولماز نے کہا ہے کہ ہم اسرائیلی مصنوعات استعمال نہیں کریں گے۔ انہوں نے اگرچہ کسی مخصوص برانڈ کا نام نہیں لیا تاہم امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے چند دنوں میں ترک پارلیمنٹ کے کیفے ٹیریا سے صہیونی مصنوعات کو اٹھادیا جائے گا۔

ترک ریلوے حکام نے کہا ہے کہ ریلوے کے ریسٹورنٹس میں صہیونی مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگائی جائے گی تاکہ فلسطینی عوام کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے۔

صہیونی کمپنی سٹابکس نے اعلان کیا ہے کہ ترکی میں کمپنی کے ملازمین کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار ہمدردی کی وجہ سے ادارے کی ساکھ متاثر ہوئی ہے۔

یاد رہے کہ غزہ میں جنگ شروع ہونے کے ابتدائی ایام میں ترک حکومت کا لہجہ کسی حد تک نرم تھا تاہم وقت کے ساتھ اس میں شدت آگئی ہے۔ 

اردن میں حکومت کی جانب سے اسرائیل کے لئے نرم گوشہ رکھنے کے باوجود عوام کی جانب سے صہیونی مصنوعات کے بائکاٹ کی مہم زور و شور کے ساتھ جاری ہے۔ 

اجتماعی سطح پر عوام کی جانب سے امریکی اور اسرائیلی مصنوعات کے خلاف کمپئین چلائی جارہی ہے کیونکہ امریکہ غزہ کے خلاف جنگ میں اسرائیل کی حمایت کررہا ہے۔

اردن میں صہیونی مصنوعات کے بائکاٹ کا سلسلہ اس مرحلے پر پہنچ گیا ہے کہ ڈپارٹمنٹل سٹورز مالکان ان مصنوعات کا متبادل فراہم کرنے پر غور کررہے ہیں۔ بعض دکانوں پر صہیونی مصنوعات کی تصاویر آویزان کرکے عوام کو انہیں خریدنے سے انتباہ کیا جارہا ہے۔

اردن میں عوام کی جانب سے  کے ایف سی، پیزاہٹ اور دوسری مصنوعات کا بائکاٹ کیا جارہا ہے۔ ان کمپنیوں کے ریسٹورانٹس پر پہلے گاہکوں کا رش ہوتا تھا لیکن آج کل عوام کی جانب سے بائکاٹ کے بعد سنسان پڑا ہوا ہے۔

درحقیقت فلسطین کے حامیوں کی جانب سے صہیونی کمپنیوں کے برانڈ استعمال کرنے والی کمپنیوں کا بائیکاٹ کیا جارہا ہے۔ اگرچہ ان کمپنیوں کا دعوی ہے کہ یہ صہیونی کمپنیوں کا صرف برانڈ اور لوگو استعمال کرتی ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان کمپنیوں کی جانب سے صہیونی کمپنیوں کو آمدنی کا مخصوص حصہ ادا کیا جاتا ہے کیوںکہ صہیونی کمپنیوں کا لوگو اور برانڈ استعمال کررہی ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر جب کوئی کمپنی اپنا برانڈ کسی دوسری کمپنی کو استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے تو اس کو آمدنی میں سے ایک حصہ دیا جاتا ہے البتہ اس کی مقدار میں کمی بیشی ممکن ہے۔

عام طور پر معاہدے کے مطابق برانڈ استعمال کرنے کی والی کمپنی دوسری کمپنی کو 5 سے 9 فیصد آمدنی کا حصہ دیتی ہے۔ اکثر مواقع پر کمپنی کو ملنے والا یہ حصہ مستقل ہوتا ہے لیکن بعض اوقات اس میں کمی بیشی کا بھی امکان ہوتا ہے۔

بنابراین جب کسی ملک میں عوام ایسی کمپنی کی مصنوعات استعمال کریں جو صہیونی کمپنی کا برانڈ استعمال کرتی ہے تو حقیقت میں ان کے دیئے ہوئے پیسوں کا مخصوص حصہ صہیونی حکومت کو مل جاتا ہے۔

News ID 1920076

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha