مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: حالیہ دو ہفتوں کے دوران انصار اللہ یمن اور صہیونی حکومت کے درمیان کشیدگی میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ غزہ، لبنان اور شام کے بعد، اب صہیونی حکومت کو یمن کی جانب حملوں کا سامنا ہے۔ یمنی میزائلوں کی رینج اب 2000 کلومیٹر سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ ہائپرسانک انجن کی مدد سے کسی بھی دفاعی نظام کو عبور کر سکتے ہیں۔
گذشتہ دنوں میں صہیونی افواج نے امریکی سینٹکام کے تعاون سے یمن کے تیل کے ذخائر، بجلی گھر، میزائل گودام اور انصار اللہ کی تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا۔ اس کے جواب میں یمنی فوج نے بارہا اپنے بیلسٹک میزائلوں سے مقبوضہ فلسطین، بالخصوص تل ابیب پر حملے کیے۔ یمنی مزاحمت کی یہ صلاحیت صہیونی وزیر اعظم نتن یاہو کو صنعاء کے خلاف حکمت عملی کے فقدان کی صورت حال سے دوچار کررہی ہے۔
غزہ کے بحران کا جنوبی محاذ تک پھیلاؤ
اسرائیلی وزیر یسرائیل کاتص نے انصار اللہ کے حالیہ میزائل حملوں کو اسرائیل کی سلامتی پر حملہ قرار دیتے ہوئے سخت لہجے میں دھمکیاں دی ہیں۔ وزیر جنگ نے انصار اللہ کے رہنما بدرالدین الحوثی کو شہید ہنیہ اور نصر اللہ جیسے انجام کی دھمکی دی ہے۔ یمنی فوج کے حملوں کا سامنا کرنے میں ناکامی کے بعد صہیونی ماہرین اور صحافی انصار اللہ کی مزاحمت کا توڑ نکالنے کی تجاویز پیش کر رہے ہیں۔
عبرانی اخبار یروشلم پوسٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں صہیونی حکومت کے لیے یمنی مقاومت کا مقابلہ کرنے کے چند طریقے تجویز کیے ہیں جن میں ایک عالمی و علاقائی اتحاد کی تشکیل، ایران پر براہ راست حملہ، انصار اللہ کی تنصیبات پر حملے اور یمن کے بنیادی ڈھانچے پر وسیع حملے شامل ہیں۔
انصار اللہ نے فلسطینی مقاومت کی حمایت میں مقبوضہ علاقوں پر نومبر 2023 میں حملہ شروع کیا۔ جون سے فروری 2024 کے دوران یمنی مزاحمت نے بحیرہ احمر میں صہیونی کشتیوں اور ان کے اتحادیوں کو نشانہ بنایا۔ اس کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکیوں نے عالمی بحری اتحاد تشکیل دیا لیکن وہ یمن کی مزاحمت کو روکنے میں ناکام رہے۔ اس کے بعد امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے خلاف فضائی حملے شروع کیے لیکن اب تک ان کا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔ یمنی فوج کے میزائل اور ڈرون حملے بدستور جاری ہیں۔
سعودی-امارات اتحاد کے ممکنہ فعال ہونے کا امکان
صہیونی اور امریکی افواج کی جانب سے شمالی یمن میں اہم اسٹریٹجک اور عسکری اہداف پر حملوں کے ساتھ ہی سعودی عرب اور امارات سے وابستہ جنوبی عبوری کونسل نے بھی یمن کی انقلابی حکومت کے خلاف اپنی عسکری کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔ عبری-مغربی-عربی اتحاد کی یہ بڑھتی ہوئی سرگرمیاں ان کے یمن کے جغرافیائی و سیاسی نقشے کو تبدیل کرنے کی مشترکہ کوششوں کا حصہ ہیں۔
یمنی ذرائع کے مطابق اسرائیل کی جانب سے یمن میں میزائل گوداموں، فوجی تربیتی مراکز، تیل کے ذخائر، بندرگاہوں کے انفراسٹرکچر اور بجلی کی تنصیبات پر حملوں کے بعد سعودی افواج نے شمالی یمن کے صوبہ صعدہ پر مارٹر حملوں میں شدت پیدا کردی ہے۔ جب انصار اللہ نے غزہ کی حمایت میں مقاومتی اتحاد میں اپنی شمولیت کا اعلان کیا تو سعودی عرب نے صنعاء پر مالی اور اقتصادی دباؤ بڑھا دیا جس کا مقصد انقلابی حکومت کو تنہا کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور سعودی عرب نے سیاسی دباؤ بھی بڑھایا۔ ان حالات میں انصار اللہ کے رہنما عبدالملک بدرالدین الحوثی نے سعودی عرب کو واضح الفاظ میں دھمکی دی کہ اگر یہ پالیسی جاری رہی تو مزاحمت ترکی بہ ترکی جواب دے گی۔
جنوبی یمن میں امارات کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند عبوری کونسل کے عناصر نے حالیہ دنوں میں تعز کے علاقے میں انصار اللہ کے خلاف کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ اماراتی فورسز اب اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ ہم آہنگ ہوکر شمالی یمن کی صورتحال کو تبدیل کرنے اور انقلابی حکومت کو محاصرے میں لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ امارات اور اسرائیل یمن کی موجودہ صورتحال سے فائدہ اٹھا کر جنوبی یمن پر مکمل قبضے اور پھر شمال کی طرف پیش قدمی کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کا مقصد جنوبی یمن میں ایک ریاست قائم کرنا ہے جو طویل مدت میں خلیج عدن اور آبنائے باب المندب کے علاقوں میں امارات-اسرائیل اتحاد کے اثر و رسوخ کو بڑھاسکتی ہے۔ تاہم یہ پالیسی سعودی مفادات کے مطابق نہیں ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ریاض کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آئے۔
یمن امریکہ کے لئے دوسرا ویتنام ثابت ہوسکتا ہے؟
امریکہ کی فضائیہ کی جانب سے صنعاء اور الحدیدہ کے اہم اہداف پر حملوں میں شدت کے بعد انصار اللہ یمن نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ اگر امریکہ نے یمن کے خلاف جنگ میں شمولیت اختیار کی، تو پورے خطے میں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا جائے گا۔ سعودی اتحاد کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ اور صہیونی مقبوضہ علاقوں پر تقریبا 400 میزائل اور ڈرون حملے انصار اللہ کی بیرونی خطرات سے نمٹنے کی زبردست عسکری صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ایک جدید امریکی ایف-18 جنگی طیارے کو گرانا یمنی مقاومت کی صلاحیت سے پردہ اٹھاتا ہے۔ یمن کی موجودہ صورتحال اور انصار اللہ کی طاقت کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ یمن امریکہ کے لیے ایک نئے ویتنام کی شکل اختیار کر لے۔
یمنی مسلح افواج کے ترجمان یحیی سریع کے مطابق 21 دسمبر کو یمنی فورسز نے ایک امریکی طیارہ بردار بحری جہاز اور کئی جنگی کشتیوں کو نشانہ بنایا۔ امریکی حکام یمن میں براہ راست مداخلت کی اپنی کمزوریوں سے بخوبی واقف ہیں اسی لیے وہ سعودی اور اماراتی افواج کی مدد سے اپنے سب سے اہم علاقائی اتحادی یعنی صہیونی ریاست کی حمایت کر رہے ہیں۔
حاصل سخن
یمنی فوج سعودی اتحاد کے ساتھ برسوں کی جنگ کے باعث بے مثال تجربہ اور مہارت حاصل کر چکی ہے۔ ان کے مسلسل حملے صہیونی حکومت کے خلاف ان کی دفاعی تیاری اور مزاحمتی قوت کی عکاسی کرتے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صنعاء اور تل ابیب کے درمیان یہ جنگ کس سمت جائے گی اور خطے اور دنیا کے کون سے دیگر کردار اس تنازعے میں شامل ہوں گے؟
آپ کا تبصرہ