20 دسمبر، 2025، 8:11 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

عرب امارات کی یمن میں سرگرمیاں: بندرگاہوں اور جنوبی علاقوں پر قبضہ، اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش

عرب امارات کی یمن میں سرگرمیاں: بندرگاہوں اور جنوبی علاقوں پر قبضہ، اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش

متحدہ عرب امارات یمن کی بندرگاہوں اور جنوبی علاقوں پر کنٹرول کے ذریعے خطے میں اثر و رسوخ بڑھانے اور مقامی طاقت کے توازن کو اپنے حق میں موڑنے کی کوشش کررہا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: یمن میں متحدہ عرب امارات کے کردار کو محض محدود عسکری شراکت داری کے طور پر نہیں دیکھا جاسکتا بلکہ یہ ایک طویل المدتی جیو اسٹریٹجک منصوبے کا حصہ ہے، جس کی بنیاد ساحلی علاقوں پر کنٹرول، مقامی طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل اور خطے میں طاقت کے توازن کو بدلنے پر رکھی گئی ہے۔ یمن کی جنگ کا آغاز بظاہر سیاسی قانونی حیثیت کی بحالی اور انصاراللہ کے مقابلے کے دعوے کے ساتھ ہوا تھا، تاہم گزشتہ ایک دہائی کے دوران یہ جنگ جیوپولیٹیکل رقابتوں، اتحادیوں کے باہمی مفادات کے ٹکراؤ اور علاقائی اثر و رسوخ کے منصوبوں کا پیچیدہ میدان بن چکی ہے۔

اس دوران متحدہ عرب امارات نے ابتدا میں سعودی عرب کے ساتھ ایک اتحادی کے طور پر شمولیت اختیار کی، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک خودمختار اور آزاد کردار ادا کرنے والا فریق بن گیا۔ امارات نے نسبتا کم عسکری اور مالی لاگت کے ساتھ یمن میں اہم اسٹریٹجک کامیابیاں حاصل کیں، جن میں اہم بندرگاہوں اور جنوبی علاقوں میں اثر و رسوخ کا قیام شامل ہے، جس سے یمن کی جغرافیائی اور سیاسی تقسیم کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

عرب امارات کا یمن کی جنگ میں داخلہ اور سعودی عرب کے ساتھ مفادات کا تصادم

متحدہ عرب امارات نے 2015 میں شروع ہونے والی عرب اتحاد کی کارروائی طوفان قاطع میں فعال حصہ لیا، لیکن اس کے مقاصد سعودی عرب کے مقاصد سے مختلف تھے۔ جہاں سعودی عرب کا اصل مقصد انصاراللہ کو شکست دینا اور منصور ہادی کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنا تھا، وہیں ابوظبی نے یمن کو ایک وسیع تر اسٹریٹجک نقطۂ نظر سے دیکھا، جس میں بحری سلامتی، عالمی تجارت اور علاقائی مقابلہ شامل تھا۔ امارات کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یمن میں مکمل فوجی فتح حاصل کرنا مشکل اور مہنگا ہوگا، اس لیے ابتدائی سالوں سے اس نے مرحلہ وار اثر و رسوخ بڑھانے، مقامی نمائندہ فورسز بنانے اور اہم سمندری و تجارتی راستوں پر کنٹرول قائم کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ اس نے کوشش کی کہ وہ جنگ میں طویل اور کھچاؤ والے تصادم میں الجھے بغیر اپنے طویل المدتی مفادات کو محفوظ کرلے۔

اس حکمت عملی کے تحت متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے مفادات مختلف ہوگئے جس کے نتیجے میں پس پردہ مفادات کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئی۔

ساحلی علاقوں اور بندرگاہوں پر توجہ امارات کی بنیادی حکمت عملی

یمن میں عرب امارات کی موجودگی کی وجوہات میں سے ایک ساحلی علاقوں اور اہم بندرگاہوں پر شدید توجہ تھی۔ عدن اور المکلا سے لے کر المخا اور باب المندب تک، یہ تمام علاقے ابوظبی کی نظر میں رہتے تھے۔ یہ توجہ محض اتفاقی نہیں تھی، بلکہ امارات کی بڑی حکمت عملی کا حصہ تھی جس کا مقصد علاقائی شپنگ لائنز، بندرگاہوں اور بحری لاجسٹکس پر مکمل کنٹرول حاصل کرنا تھا۔

یمن کی بندرگاہوں پر کنٹرول یا اثر و رسوخ قائم کرنے سے امارات کو یہ موقع ملے گا کہ وہ بحیرہ احمر میں اپنے تجارتی راستوں کی حفاظت کرے اور ممکنہ حریفوں کی ابھرتی ہوئی بندرگاہی طاقت کو روک سکے۔ اس تناظر میں عدن اور المخا جیسی بندرگاہوں پر قبضہ یا انتظام محض اقتصادی اقدام نہیں بلکہ اقتصادی قبضے کا حصہ ہے، جو سرمایہ کاری، کور کمپنیوں اور مقامی فورسز کے ذریعے آگے بڑھایا جاتا ہے۔

سرکاری ڈھانچے سے باہر پراکسیز کی تشکیل

عرب امارات نے یمن میں اپنے اثر و رسوخ کو مستحکم کرنے کے لیے سرکاری فوج پر انحصار کرنے کے بجائے مقامی مسلح فورسز قائم کیں جو حکومت کے کمانڈ کے دائرہ سے باہر کام کرتی تھیں۔ ان میں سکیورٹی بیلٹ، النخبه الحضرمیه، النخبه الشبوانیہ اور جنوبی عبوری کونسل سے وابستہ فورسز شامل ہیں، جنہیں براہ راست عرب امارات کی تربیت، اسلحہ اور مدد حاصل تھی۔

یہ فورسز ابوظبی کو یہ موقع دیتی ہیں کہ وہ اپنی سرکاری افواج کی تعییناتی کے بغیر حساس علاقوں پر زمینی کنٹرول قائم رکھ سکے، اور ساتھ ہی براہ راست مداخلت کے سیاسی اور انسانی اخراجات کو کم کرے۔ اسی ماڈل کی وجہ سے امارات نے 2019 میں اپنی فوج میں کمی کے اعلان کے بعد بھی یمن کے جنوب اور مغرب میں اپنا فیصلہ کن اثر و رسوخ برقرار رکھا۔

اخوان المسلمین اور حزب اصلاح کے مقابلے میں امارات کی حکمت عملی

یمن میں امارات کا ایک اور کلیدی ہدف اخوان المسلمین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا تھا، جو حزب اصلاح کے ذریعے مستعفی حکومت کے سیاسی اور عسکری ڈھانچے میں نمایاں کردار ادا کر رہی تھی۔ ابوظبی حزب اصلاح کو ایک خطرے کے طور پر دیکھتا تھا اور اس نے تدریجی طور پر اس کے اثر و رسوخ کو کم کرکے طاقت کے توازن کو اپنے حامی گروپوں کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کی۔

یہی حکمت عملی امارات اور منصور ہادی کی حکومت کے درمیان گہرا اختلاف پیدا کرنے کا سبب بنی اور امارات نے ان شخصیات اور گروہوں کی حمایت شروع کی، جنہوں نے بعد میں جنوبی عبوری کونسل کی بنیاد رکھی۔ عملی طور پر عرب امارات نے ترجیح دی کہ وہ مقامی وفادار فورسز کے ذریعے کام کرے بجائے اس کے کہ ایسی سرکاری ڈھانچے پر انحصار کرے، جس کے کچھ حصے غیر ہم آہنگ گروہوں کے زیر اثر تھے۔

جنوبی عبوری کونسل کی حمایت اور ملک کی تقسیم کا منصوبہ

جنوبی عبوری کونسل بتدریج امارات کا سب سے اہم سیاسی و عسکری آلہ بن گئی۔ یہ کونسل علیحدگی کے نظریے کی نمائندگی کرتی ہے اور عرب امارات کی مدد سے جنوبی یمن کے اہم حصوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی جس کے دوران مستعفی حکومت کی وفادار فورسز کے ساتھ تصادم کے واقعات بھی بڑھ گئے۔ اگرچہ امارات بظاہر یمن کی وحدت کی بات کرتا ہے، لیکن عملی طور پر اس نے جنوب میں متوازی طاقت کے ڈھانچے کو مضبوط کرکے ملک کے غیر محسوس اور مرحلہ وار تقسیم کے راستے کو ہموار کیا ہے۔ اس صورتحال نے نہ صرف مرکزی حکومت کو کمزور کیا بلکہ یمن کو علاقائی اثر و رسوخ کے درمیان کشمکش کا میدان بھی بنا دیا ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ پس پردہ اور علی الاعلان مفادات کی جنگ

وقت گزرنے کے ساتھ، یمن میں امارات اور سعودی عرب کے موقف میں اختلافات مزید واضح ہوگئے۔ جہاں سعودی عرب نے جنگ کے بڑے اخراجات، میزائل حملوں اور سیاسی دباؤ کو برداشت کیا، وہیں امارات نے محدود مگر اسٹریٹجک اہداف پر توجہ دے کر زیادہ ٹھوس کامیابیاں حاصل کیں۔ حضرموت، شبوہ اور المہرہ پر امارات سے وابستہ فورسز کا قبضہ، خاص طور پر ان علاقوں میں جو پہلے سعودی اثر و رسوخ میں تھے، ظاہر کرتا ہے کہ دونوں سابق اتحادیوں کے درمیان مقابلہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق، امارات نے یمن کی جنگ کو سعودی عرب کو میدانی اثر و رسوخ سے بتدریج پیچھے دھکیلنے اور اپنا قبضہ قائم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

بحیرہ احمر میں عرب امارات اور امریکہ و اسرائیل کے مشترکہ مفادات

یمن بحر احمر اور باب المندب کے اہم راستوں پر واقع ہے، اس لیے یہ امارات، امریکہ اور اسرائیل کے لیے بہت اہم ملک بن گیا ہے۔ انصاراللہ کی جانب سے اسرائیل سے تعلق رکھنے والے جہازوں کے خلاف بحری کارروائیوں کے بعد یمن کے ساحلوں پر کنٹرول کی اہمیت مزید بڑھ گئی ہے۔

کچھ یمنی ذرائع کا خیال ہے کہ امارات اور اس سے وابستہ فورسز کی حالیہ سرگرمیاں انصاراللہ کو کمزور کرنے اور بحیرہ احمر کے جنوبی حصے میں امریکی اور اسرائیلی مفادات کے مطابق ایک حفاظتی بیلٹ قائم کرنے کے ایک بڑے منصوبے کا حصہ ہو سکتی ہیں۔ امارات نے بندرگاہیں، ہوائی اڈے اور معلوماتی سہولیات فراہم کر کے خود کو اس منصوبے میں اہم کردار کا حامل ملک بنایا ہے۔

حاصل سخن

یمن میں متحدہ عرب امارات کے کردار کو محض محدود عسکری شراکت کے دائرے میں نہیں دیکھا جاسکتا، بلکہ یہ ایک طویل المدتی جیوپولیٹیکل منصوبے کا حصہ ہے جو ساحلوں پر کنٹرول، مقامی طاقت کے ڈھانچے کی تشکیل اور خطے میں طاقت کے توازن کو بدلنے پر مبنی ہے۔ ابوظہبی نے عسکری، اقتصادی اور سیاسی ذرائع کے امتزاج سے یمن کے حساس علاقوں میں مستحکم اثر و رسوخ قائم کیا اور اسے خطے میں بڑے مقابلوں کے ایک اہم جزو میں بدل دیا ہے۔

تاہم، اس راہ کے تسلسل سے یمن تقسیم، عدم استحکام اور اندرونی تنازعات کی طرف جاسکتا ہے، جس کے اثرات نہ صرف یمنی عوام بلکہ خطے کی سلامتی اور بحری تحفظ پر بھی مرتب ہوں گے۔ یمن کا مستقبل اس بات پر منحصر ہے کہ اس پر بیرونی اثرات کو روکا جائے اور ملک میں ایک مضبوط اور متحد قومی قیادت قائم کی جائے۔

News ID 1937217

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha