19 دسمبر، 2025، 1:07 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ:

تہران–ماسکو روابط میں تیزی، علاقائی و عالمی بحرانوں پر قریبی مشاورت

تہران–ماسکو روابط میں تیزی، علاقائی و عالمی بحرانوں پر قریبی مشاورت

ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کے دورہ ماسکو میں شمال–جنوب راہداری، غزہ کی صورتحال، وینزویلا پر امریکی جارحیت اور عالمی سلامتی پر مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک:ایران اور روس کے تعلقات گزشتہ چند برسوں میں نمایاں طور پر مضبوط ہوئے ہیں، جن کی بنیاد سیاسی، اقتصادی اور سلامتی کے شعبوں میں بڑھتے ہوئے تعاون پر ہے۔ دونوں ممالک نے 20 سالہ جامع تعاون کے معاہدے کے ذریعے اپنے تعلقات کو اسٹریٹجک سطح پر پہنچایا ہے، جس کے تحت باقاعدہ اعلیٰ سطحی رابطوں اور مشاورت کو اہمیت دی جاتی ہے۔ خطے میں جاری بحرانوں، عالمی کشیدگی اور یکطرفہ پابندیوں کے تناظر میں تہران اور ماسکو ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں، اور ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی کا حالیہ دورۂ ماسکو اسی تسلسل کی ایک کڑی سمجھا جاتا ہے۔

 عراقچی کا دورہ ماسکو اس امر کی واضح عکاسی کرتا ہے کہ ایران اور روس اپنے دوطرفہ تعلقات کو محض رسمی سفارتی روابط تک محدود رکھنے کے بجائے انہیں ایک منظم اور اسٹریٹجک شراکت داری کی شکل دینے کے خواہاں ہیں۔ دونوں ممالک نے اقتصادی، تجارتی اور بنیادی ڈھانچے سے متعلق تعاون کے ساتھ ساتھ خطے میں ابھرتے ہوئے سیاسی و سلامتی چیلنجز اور عالمی سطح پر جاری بحرانوں پر باقاعدہ اور قریبی مشاورت کو مزید وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

شمال–جنوب راہداری: ایران اور روس کا اسٹریٹجک منصوبہ

دوطرفہ تعاون کے میدان میں اس وقت ایران اور روس کے درمیان سب سے اہم اور اسٹریٹجک منصوبہ بین الاقوامی شمال–جنوب ٹرانسپورٹ راہداری کی تکمیل ہے، جس میں رشت–آستارا ریلوے لائن کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ یہ ریلوے منصوبہ ایران، روس اور دیگر خطوں کے درمیان تجارتی روابط کو مضبوط بنانے کے ساتھ ساتھ یوریشیا اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کا ایک مؤثر ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس راہداری کی تکمیل سے نہ صرف نقل و حمل کے اخراجات اور وقت میں نمایاں کمی آئے گی بلکہ ایران کو خطے میں ایک اہم ٹرانزٹ مرکز کے طور پر ابھرنے کا موقع بھی ملے گا۔

رشت سے بحیرۂ کیسپیئن کی بندرگاہ تک ریلوے لائن کا حصہ پہلے ہی مکمل کیا جا چکا ہے، تاہم رشت–آستارا کے باقی حصے میں بعض انتظامی اور تکنیکی رکاوٹیں درپیش رہی ہیں، جن میں سب سے بڑی رکاوٹ ریلوے روٹ کے ساتھ واقع بعض رہائشی مکانات اور دیہی اراضی کے حصول کا مسئلہ رہا ہے۔ ایرانی حکام کے مطابق حکومت اس معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کر رہی ہے اور توقع ہے کہ رواں ایرانی سال کے اختتام تک زمین کے حصول سے متعلق مسائل مکمل طور پر ختم کر دیے جائیں گے۔ مجموعی طور پر باقی رہ جانے والے 130 کلومیٹر طویل ریلوے سیکشن میں سے صرف 60 سے 70 کلومیٹر کے حصے کے لیے زمین کے حصول کی ضرورت ہے، جبکہ بقیہ راستہ تعمیراتی کام کے لیے تیار ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ جیسے ہی یہ قانونی اور انتظامی رکاوٹیں دور ہوں گی، روسی فریق فوری طور پر عملی اقدامات شروع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جس سے منصوبے کی رفتار میں نمایاں تیزی آسکتی ہے۔ رشت–آستارا ریلوے لائن کی تکمیل نہ صرف ایران اور روس کے اقتصادی تعاون کو نئی جہت دے گی بلکہ یہ منصوبہ مغربی پابندیوں کے تناظر میں دونوں ممالک کے لیے ایک متبادل اور قابل اعتماد تجارتی راستہ بھی فراہم کرے گا، جو طویل مدت میں خطے کی معاشی اور جغرافیائی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

غزہ کی صورتحال: ایران اور روس کی مشترکہ تشویش اور عالمی ذمہ داریاں

علاقائی سطح پر فلسطین، بالخصوص غزہ میں جاری بحران پر ایران اور روس دونوں کو تشویش ہے۔ صہیونی حکومت کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں اور حملوں میں اضافے سے خطے کی صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔ یہ حملے ایسے وقت میں تیز ہوئے ہیں جب سردیوں کے باعث پہلے سے متاثرہ شہری آبادی کو خوراک، ادویات، رہائش اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت کا سامنا ہے اور ایک بڑے انسانی المیے کے خدشات مزید بڑھ گئے ہیں۔

ایران اور روس دونوں اس مؤقف پر قائم ہیں کہ غزہ میں جاری صہیونی کارروائیاں نہ صرف بین الاقوامی انسانی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہیں بلکہ یہ پورے خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔ ان حالات میں کشیدگی کا پھیلاؤ صرف فلسطین تک محدود نہیں رہتا بلکہ اس کے اثرات مشرق وسطی سے نکل کر عالمی سطح پر امن و سلامتی کو متاثر کرسکتے ہیں۔

 ایران کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کے ساتھ ماسکو عالمی فورمز پر جنگ بندی کے نفاذ، انسانی امداد کی بلا رکاوٹ فراہمی اور عام شہریوں کے تحفظ کے لیے مضبوط کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر سلامتی کونسل کے مستقل ارکان اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے نبھائیں تو غزہ میں کشیدگی کم کرنے اور ایک وسیع تر انسانی بحران کو روکنے میں مؤثر پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے۔

وینزویلا کے خلاف ٹرمپ کے اقدامات اور عالمی امن کو درپیش خطرات

 لاطینی امریکہ میں وینزویلا کے خلاف امریکہ کی جانب سے جارحانہ اقدامات، جنہیں منشیات کے خلاف کارروائی کا نام دیا جا رہا ہے، ایران اور روس دونوں کو اس پر تشویش ہے۔ دونوں ممالک کا مشترکہ مؤقف ہے کہ اس نوعیت کے اقدامات دراصل ایک خودمختار ریاست کے داخلی معاملات میں مداخلت ہیں اور یہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کے منشور سے متصادم ہیں۔ تہران اور ماسکو کے نزدیک وینزویلا کے خلاف ممکنہ زمینی کارروائی نہ صرف خطے میں عدم استحکام کو بڑھاسکتی ہے بلکہ ایک نئے بین الاقوامی بحران کو جنم دے سکتی ہے، جس کے اثرات عالمی امن و سلامتی پر مرتب ہوں گے۔

اسی تناظر میں ایران اور روس کثیرالجہتی نظام، ریاستوں کی خودمختاری اور سیاسی مسائل کے پرامن حل پر زور دیتے ہیں۔ ایران اور روس دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ ایسے بحرانوں کا حل فوجی دباؤ کے بجائے سفارتی ذرائع سے نکالا جانا چاہیے، تاکہ عالمی امن کو لاحق نئے خطرات سے بچا جاسکے۔

ایران کا پرامن جوہری پروگرام: تہران اور ماسکو کے درمیان ہم آہنگی

ایرانی جوہری مسئلے پر روس اور چین نے ہمیشہ اسلامی جمہوری ایران کے اس ناقابل تنسیخ حق کی حمایت کی ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے پرامن جوہری توانائی سے استفادہ کرے۔ دونوں ممالک کا مؤقف ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں سیاسی دباؤ کے بجائے فنی اور قانونی اصولوں کی بنیاد پر دیکھی جانی چاہئیں۔ اسی تناظر میں تہران اور ماسکو کے حالیہ مذاکرات میں اس مسئلے پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔

ماسکو حکام نے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور دیگر عالمی اداروں میں ایران کے مؤقف کی حمایت کا سلسلہ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کو سیاسی اثر و رسوخ سے بالاتر ہوکر اپنے آئینی اور پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے چاہئیں، تاکہ اس حساس معاملے کو تکنیکی دائرے میں رکھتے ہوئے منصفانہ اور شفاف انداز میں آگے بڑھایا جا سکے۔

افغانستان اور علاقائی سلامتی، ایران اور روس کی مشترکہ حکمت عملی

 افغانستان کی بدلتی ہوئی صورتحال، علاقائی سلامتی کو درپیش خطرات، دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف جدوجہد وہ اہم موضوعات ہیں جن پر ایران اور روس قریبی اور عملی تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ افغانستان میں عدم استحکام کے اثرات براہ راست ہمسایہ ممالک اور پورے خطے پر پڑسکتے ہیں، اس لیے اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے علاقائی ہم آہنگی ناگزیر ہے۔

تہران اور ماسکو کے نزدیک دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیاں اور منشیات کی غیرقانونی اسمگلنگ نہ صرف سلامتی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ سماجی اور اقتصادی مسائل کو بھی جنم دیتی ہیں۔ اسی تناظر میں ایران اور روس معلومات کے تبادلے، سرحدی تعاون اور علاقائی مکالمے کے ذریعے مشترکہ حکمتِ عملی اپنانے پر زور دیتے ہیں۔ اس نوعیت کا تعاون نہ صرف افغانستان سے جڑے خطرات کو کم کرسکتا ہے بلکہ مجموعی طور پر خطے کے استحکام اور دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کے تحفظ میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

News ID 1937188

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha