21 دسمبر، 2025، 2:19 PM

منصفانہ مذاکرات کے لیے تیار، دباؤ اور یکطرفہ شرائط قبول نہیں، ایرانی وزیر خارجہ

منصفانہ مذاکرات کے لیے تیار، دباؤ اور یکطرفہ شرائط قبول نہیں، ایرانی وزیر خارجہ

ایرانی وزیر خارجہ نے واضح کیا ہے کہ تہران برابری، احترام اور باہمی مفادات کی بنیاد پر معاہدہ چاہتا ہے، لیکن دھمکیوں اور یکطرفہ شرائط کے تحت کسی بھی بات چیت کا حصہ نہیں بنے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ایران کے وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے کہا ہے کہ اسلامی جمہوری ایران آج بھی منصفانہ اور متوازن معاہدے کے لیے مذاکرات کے عزم پر قائم ہے، تاہم دباؤ، دھمکی اور یکطرفہ شرائط کو کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے روسی ٹی وی چینل رشیا ٹوڈے کو دیے گئے ایک خصوصی انٹرویو میں کہا کہ ایران پر حملوں سے قبل ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر پانچ مذاکراتی دور ہو چکے تھے، جبکہ چھٹا دور 15 جون کو طے تھا، تاہم مذاکرات سے محض دو دن قبل اسرائیل کے حملے اور بعد ازاں امریکا کی حمایت نے اس عمل کو سبوتاژ کردیا۔

انہوں نے ان حملوں کو غیرقانونی اور بلااشتعال قرار دیتے ہوئے کہا کہ دوران مذاکرات حملہ ایران کے لیے ایک نہایت تلخ تجربہ تھا، جو 2018 میں امریکا کی جانب سے یکطرفہ طور پر جوہری معاہدے سے نکلنے کی یاد دلاتا ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے بتایا کہ 12 روزہ جنگ کے بعد محدود رابطے ہوئے، جن میں امریکی فریق نے مذاکرات کی بحالی پر زور دیا، مگر ان کا رویہ درست نہ تھا۔ مذاکرات صرف اسی صورت بامعنی ہوتے ہیں جب وہ باہمی احترام پر مبنی ہوں۔

انہوں نے واضح کیا کہ اگر امریکا واقعی مذاکرات اور حکم دینے کے فرق کو سمجھے اور منصفانہ، متوازن اور باہمی مفاد پر مبنی تجاویز کے ساتھ آئے تو ایران انہیں سننے اور غور کرنے کے لیے تیار ہے، لیکن حالیہ برسوں کے تجربات سے نہیں لگتا کہ واشنگٹن اس وقت ایک عادلانہ معاہدے کے لیے سنجیدہ ہے۔

عراقچی نے نطنز اور فردو کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملوں اور نقصانات کے حوالے سے کہا کہ اگرچہ تنصیبات کو نقصان پہنچا ہے، لیکن جوہری ٹیکنالوجی بدستور موجود ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی کو بمباری سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

انہوں نے زور دیا کہ ایران پرامن مقاصد کے لیے جوہری توانائی اور افزودگی کے اپنے جائز حق سے دستبردار نہیں ہوگا۔

وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ ایران 2015 کی طرح ایک بار پھر مکمل یقین دہانی کرانے کے لیے تیار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن ہے اور پرامن ہی رہے گا، بشرطیکہ پابندیاں ختم کی جائیں اور معاہدہ احترام اور باہمی اعتماد کی بنیاد پر ہو۔ ان کے بقول جوہری معاہدے کے تحت سفارت کاری کامیاب رہی، جبکہ فوجی کارروائیاں اہداف حاصل کرنے میں ناکام ہوئیں، اور اب امریکا کے پاس آپشن ہے کہ وہ کون سا راستہ اختیار کرتا ہے۔

عراقچی نے بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے کردار پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ایجنسی اور اس کے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات پر حملوں کی مذمت نہ کرنا ادارے کی تاریخ میں ایک منفی مثال ہے۔

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ ایران این پی ٹی کا پابند رکن ہے اور تعاون کے اصول کو مسترد نہیں کرتا۔

ان کا کہنا تھا کہ اصل مسئلہ ان تنصیبات کی نگرانی کے لیے واضح فریم ورک کا فقدان ہے جو فوجی حملوں کا نشانہ بن چکی ہیں، کیونکہ اس کی کوئی نظیر موجود نہیں۔ اسی تناظر میں ایران اور عالمی جوہری ادارہ اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ نگرانی کے طریقہ کار اور دائرہ کار کے تعین کے لیے مذاکرات کیے جائیں، جو اس وقت زیرغور ہیں۔

News ID 1937225

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha