مہر خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے ڈپٹی چیف کمانڈر جنرل علی فدوی نے عربی چینل العالم سے بات کرتے ہوئے ایران اور خطے کی تازہ ترین صورتحال پر روشنی ڈالی۔
العالم کے میزبان نے ان سے سوال کیا کہ انہیں خلیج فارس میں امریکی فوجیوں کی گرفتاری کے حوالے سے جانا جاتا ہے اور امریکہ ایران کے اصلی دشمنوں میں سے ایک ہے تاہم خطے میں آج کل ایران اور مقاومت کا محور ﴿استکبار سے بر سرپیکار قوتیں﴾ امریکہ کے سامنے کھڑے ہوئے ہیں، آپ اس تقابل اور مڈبھیڑ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
حق اور باطل کی جنگ انقلاب کے ابتدا بلکہ انقلاب تحریک کے آغاز سے ہی جاری ہے، امریکہ نے اپنی پٹھو شاہ کی حکومت کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تاہم کامیاب نہ ہوسکا۔ انقلاب کے آغاز سے ایران کے خلاف پیش آنے والے تمام اتفاقات کی جڑ امریکہ ہے جبکہ خلیج فارس میں امریکی میرین گارڈز کی گرفتاری امریکہ اور ایران کی پہلی مڈبھیڑ نہیں تھی بلکہ اس سے پہلے بھی سعودی عرب کی سرحدوں کے نزدیک بھی سپاہ پاسداران انقلاب کی بحری افواج امریکیوں کے سامنے آچکی ہیں۔
یہ مڈبھیڑ ایک طولانی عرصے پر مشتمل ہے۔ عراق پر ناجائز قبضے کے بعد دو مرتبہ امریکہ کے ساتھ اور دو مرتبہ برطانیہ کے ساتھ مڈبھیڑ کا معاملہ میڈیا پر آیا۔ جس دن امریکی فارسی جزیرے میں پھنسے وہ دن ایک خاص دن تھا۔ کچھ گھنٹے پہلے اس وقت کے امریکی صدر باراک اوباما نے کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے امریکی افواج کی طاقت اور صلاحیتوں کو بیان کیا تھا جبکہ گرفتاری کے اگلے روز جوہری معاہدے کا اعلان ہونا تھا اور امریکیوں نے ایران کے خلاف وسیع پیمانے نفسیاتی جنگی کی تیاری کی ہوئی تھی جس میں انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
اس واقعے کے بارے میں سب اچھی تعبیر امام خامنہ ای نے پیش کی۔ اپ کے بقول اس واقعے کو اللہ تعالیٰ کا کام سمجھنا چاہئے کہ امریکیوں کو ہمارے پانیوں میں لے کر آیا تا کہ آپ ﴿سپاہ پاسداران﴾ کے بر وقت اقدام سے اس حالت میں کہ اپنے ہاتھوں کو سروں پر رکھے ہوئے تھے، گرفتار ہوں۔ امریکیوں کا فارسی جزیرے میں آنا اتفاقیہ نہیں تھا، ان کی کشتیوں کا سسٹم بھی خراب نہیں تھا، وہ سالہا سال سے کویت، بحرین اور خلیج فارس کے خطے میں موجود تھے، یہ دوکشتیاں کسی عربی جزیرے میں جانے کے بجائے فارسی جزیرے میں کیوں داخل ہوئیں؟ یہ اللہ تعالیٰ کا کام تھا، اگر آپ اپنے تمام فرائض پر عمل کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کے حق میں بہترین کام کرتا ہے۔
امریکیوں کا حقیقی چہرہ وہی تصویر ہے جو فارسی جزیرے میں ان کے میرین گارڈز کی گرفتاری کے بعد منتشر کی گئی، وہ باطل کے محاذ پر ہیں، اس علاقے میں ہماری صرف ایک کشتی تھی، ہمارے سپاہیوں کے پاس کلاشنکوف کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن دو امریکی کشتیوں کے مختلف اقسام کا اسلحہ اور 20 ملی میٹر کی توپیں موجود تھیں۔ کیا وجہ تھی کہ وہ ایک سپاہی کی للکار سے خوفزدہ ہوگئے اور اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے؟! آپ اس معاملے کا صحیح جواب قرآنی اصولوں میں پا سکتے ہیں۔ ان واقعے میں ان کی تصویروں کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔
آپ آج اور موجودہ وقت کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
آج ہماری صلاحیتوں کا امریکی فوجیوں کے گرفتاری کے وقت سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہم نے ان سالوں کے مقابلے میں بہت ترقی کر لی ہے اور ہم نے اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے اور بہتر بنانے کا کوئی موقع نہیں گنوایا۔ ہر پاسدار کے سینے پر لکھا ہے ہر دن تمہاری صلاحیت گزشتہ روز سے زیادہ ہونی چاہئے۔ واضح ہے ہم اپنی تمام صلاحیتوں کو ظاہر نہیں کرسکتے، امریکی ان صلاحیتوں سے اس وقت واقف ہوں گے کہ جب وہ کیلکولیشن اور اندازوں کی غلطی انجام دے چکے ہوں گے اور یہ وقت ہوگا جب ہم ان کے خلاف اقدام کرچکے ہوں گے۔
ہائپرسونک میزائل کی نقاب کشائی کب ہوگی اور اسے تیار کرنے کا مقصد کیا ہے؟
اس سلسلے میں ابتدائی وضاحت دی جاچکی ہے اور تفصیلی وضاحت اپنے وقت پر دی جائے گی۔
ابھی یہ وقت طے نہیں ہوا؟
اس ٹیکنالوجی سے اس وقت نقاب کشائی کی جائے گی جب اس کا اثر سب سے زیادہ ہوگا۔
غاصب صہیونی حکومت تین طرف یعنی شام، لبنان اور فلسطین سے مقاومت کے محور کے میزائلوں کے نشانے پر ہے، آپ صہیونی حکومت کی پوزیشن کو کیسے دیکھتے ہیں؟
یہود کی تاریخ پر نظر رکھنے والے اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ اس رجیم کی عمر کم ہوگی اور آج یہ بات صہیونی رجیم کے سیاستدانوں تک میں پھیل چکی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ صہیونی رجیم اپنے عمر کے 80 سال نہیں دیکھ سکے گی، یعنی 6 سال سے بھی کمتر عرصے کے بعد اپنے آپ کو نہیں دیکھ پائے گی۔ سابق صہیونی وزیر اعظم نے محور مقاومت کی توانائیوں کا انتہائی انداز میں اعتراف کیا تھا۔ جس طرح امام انقلاب رہبر معظم کا ماننا ہے غزہ کی طرح مغربی کنارے کو بھی مسلح کیا جانا چاہئے تاکہ غاصب صہیونیوں پر مزید دباو ڈالا جائے۔ آج کل ہر روز مغربی کنارے سے نئی نئی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ فلسطین کی نسل نو ہی مقاومت کی بنیاد ہیں اور درنہایت صہیونی حکومت ہی ذلت آمیز انداز میں نابودی سے دچار ہوگی۔
کردستان، علیحدگی پسندوں اور دہشت گردوں کے حوالے سے عراقی وزیر اعظم کے حالیہ دورہ ایران اور جنرل قاآنی کے دورہ عراق کے بعد کیا ان گروہوں کی جانب سے درپیش خطرات کا معاملہ ختم ہوجائے گا؟
اس مسئلے کی جڑیں عراق کے اندر ہیں۔ ہم عراق کو ایک ہی حکومت سمجھتے ہیں جو عراق کی مرکزی حکومت ہے۔ بغداد میں عراقی اور کردستانی حکام کی موجودگی میں ہمارے اجلاس ہوئے ہیں جن میں ان کا ماننا تھا کہ یہ مسائل نہیں ہونے چاہئیں۔ انقلاب اور ایران سے دشمنی کرنے والوں کے وہاں کوئی ٹھکانہ نہیں ہونا چاہئے اور انہیں وہاں سے نکلنا ہوگا اور ہم بھی کئی سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ آپ خود ہہی یہ کام انجام دیں۔ اگر یہ انقلاب مخالف گروپ آپ کی بات نہیں مانتے تو ہمارے صبر اور برداشت کی بھی ایک حد ہے جس کے بعد ہم خود براہ راست اقدام اٹھائیں گے۔ ہم نے کئی مرتبہ احتیاط کو ملحوظ رکھ کر اقدام اٹھائے بھی ہیں۔ ہم نے حتی کہ اس بات کا بھی خیال رکھا کہ انقلاب دشمن عناصر کے اہل خانہ کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔
آپ کا تبصرہ