27 اپریل، 2024، 4:03 PM

مہر نیوز کی خصوصی رپورٹ؛

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

1960 کی ویتنام جنگ سے لے کر غزہ کی حالیہ جنگ تک طلباء نے امریکی جنگی عزائم کے خلاف اہم کردار ادا کیا ہے۔

مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک؛ غزہ میں صہیونی حکومت کی جارحیت کے 200 دن پورے ہوگئے ہیں جس میں 34 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ دنیا بھر میں فلسطینی عوام کے خلاف صہیونی جارحیت کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ احتجاج کا دائرہ بڑھتے ہوئے سڑکوں اور شاہراہوں سے نکل کر تعلیمی اداروں اور درسگاہوں تک پہنچ گیا ہے۔ گذشتہ چند دنوں کے دوران امریکی مختلف ریاستوں میں یونیورسٹی طلباء نے وسیع پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کئے ہیں۔ طلباء کے احتجاج کی شدت کو روکنے کے لئے انسانی حقوق کے دعویدار امریکی حکام نے پولیس کو مظاہرہ کرنے والے طلباء کے ساتھ پرتشدد سلوک کرنے کا حکم جاری کیا ہے۔

امریکی تعلیمی اداروں میں اسرائیل کے خلاف وسیع احتجاج 

صہیونی حکومت کے مظالم کے خلاف مظاہرہ کرنے والے تعلیمی اداروں میں ہارورڈ، نیویارک، ییل، کولمبیا، میساچوسٹس، مشی گن، براون، برکلی، کیلی فورنیا، ٹیکساس اور مینی سوٹا کی یونیورسٹیاں قابل ذکر ہیں۔ بعض ذرائع نے احتجاجی مظاہرے کرنے والے تعلیمی اداروں اور درسگاہوں کی تعداد 200 سے زائد بتائی ہے جہاں ہزاروں طلباء نے صہیونزم کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔ احتجاج کا دائرہ امریکہ سے بڑھ کر یورپ تک پہنچ گیا ہے۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

طلباء کے احتجاج کی شدت کو مدنظر رکھتے ہوئے امریکی پولیس کی جانب سے مظاہرین کے ساتھ تشدد آمیز سلوک کی بھی پیشن گوئی کی جارہی تھی۔ توقع کے عین مطابق امریکی پولیس نے طلباء کے خلاف کریک ڈاون کرتے ہوئے کئی یونیورسٹیوں کے طلباء کو گرفتار کیا۔ امریکی یونیورسٹیوں کی جانب سے جاری بیان کے مطابق کیلی فورنیا یونیورسٹی کے 93، ٹیکساس یونیورسٹی کے 34، کولمبیا یونیورسٹی کے 100 اور ییل یونیورسٹی کے 45 طلباء کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

مظاہرہ کرنے والے امریکی طلباء کے مطالبات واضح ہیں۔ یونیورسٹی طلباء امریکی سرمایہ کاروں سے مطالبہ کررہے ہیں کہ صہیونی حکومت کے ساتھ تعاون ختم کریں تاکہ غزہ میں فلسطینی کی نسل کشی کو روکا جاسکے۔ طلباء غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

امریکی سربراہی میں مغرب کی جانب سے خطے میں جنگ کی آگ بھڑکانے کی سازش ان کے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔ چند روز پہلے امریکی سینیٹ نے یوکرائن کے لئے 95 ارب ڈالر کا امدادی پیکج اور صہیونی حکومت کے 26 ارب ڈالر کی خطیر رقم منظور کی ہے جس سے اسرائیل کی دفاعی مدد کی جائے گی۔

امریکی حکومت جنگ مخالف مظاہرہ کرنے والے طلباء کے ساتھ پرتشدد سلوک کرکے صہیونی حکومت کی حمایت جاری رکھنا چاہتی ہے۔ امریکی صدر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہود ستیزی کو امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ نتن یاہو بھی اس ہدف کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ انہوں نے امریکی طلباء کو یہود ستیز قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی نابودی کے خواہشمند طلباء نے امریکی یونیورسٹیوں پر قبضہ کیا ہے۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

نتن یاہو کے اس بیان پر امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے غزہ میں صہیونی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے فلسطینیوں کے اعداد و شمار بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ نتن یاہو کے بیانات غزہ کے حالات سے عالمی نظریں ہٹانے کی سازش ہیں۔ انہوں نے کہا ہے امریکی عوام اور طلباء کے شعور کی توہین کا سلسلہ بند کریں۔ یہود ستیزی کے الزامات نتن یاہو کے خلاف ممکنہ عدالتی کاروائی سے رائے عامہ کو منحرف کرنے کی کوشش ہے۔

امریکی پولیس کی جانب سے طلباء کے خلاف تشدد آمیز سلوک کی وجہ سے عالمی رہنماوں نے امریکہ میں آزادی بیان پر سوال اٹھانا شروع کیا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی پولیس کے رویے کو احتجاج کے حق کی پامالی سے تعبیر کیا ہے اور امریکی تعلیمی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ طلباء کے مظاہروں کی حمایت کریں۔

طلباء تحریک، ویتنام جنگ سے لے کر غزہ جنگ تک

غزہ میں صہیونی جارحیت کے خلاف مظاہروں سے ویتنام جنگ کے خلاف طلباء کے مظاہرے کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ دونوں مواقع پر طلباء نے احتجاجی تحریک شروع کی تھی۔ 1960 میں امریکہ کی جانب سے ویتنام کے خلاف جارحیت کے خلاف طلباء نے وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک چلائی تھی۔ ویتنام جنگ کی وجہ سے امریکہ کو بجٹ خسارے کا سامنا تھا۔ ملک کو درپیش اقتصادی مشکلات کی وجہ سے عوام حکومت سے ناراض تھے۔ ذاتی مفادات کے بجائے ملکی اور قومی مفادات کے لئے ہونے والے مظاہروں کی صدائیں آج بھی محسوس کی جارہی ہیں۔

امریکی فنکار لیونارڈ گورڈن کے مطابق امریکی عوام نے ویتنام جنگ کی حمایت کے بجائے اس کی مخالفت شروع کی۔ جنگ کے خلاف احتجاج کے ساتھ عوام نے تعلیمی نظام میں درپیش مشکلات کے خلاف مظاہرہ کیا جس سے امریکی معاشرے میں تبدیلی آگئی۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

سوشل میڈیا پر مبصرین نے امریکہ اور یورپ میں غزہ کی حمایت میں شروع ہونے والی حالیہ تحریک کو سنجیدہ اور دررس نتائج کا حامل قرار دیا ہے۔ ویتنام جنگ کو بھی طلباء کی تحریک نے روکا تھا۔ سوشل میڈیا صارفین نے کہا ہے کہ صہیونزم کے زیرتسلط میڈیا کو موجودہ تحریک کو ہائی جیک کرنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے۔ ویتنام جنگ سے شروع ہونے والے احتجاجی سلسلہ وقت کے ساتھ جاری رہا۔ امریکی مختلف یونیورسٹیوں میں طلباء نے عراق، لیبیا اور افغانستان میں امریکی فوجی مداخلت کے خلاف مظاہرے کئے۔

حرف آخر

اگرچہ امریکی حکام ہمیشہ آزادی بیان اور احتجاج کے عمومی حق کا دم بھرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کم ترین خطرے کو محسوس کرتے ہی تشدد آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں چنانچہ گذشتہ دنوں میں یونیورسٹی طلباء پر بدترین تشدد کیا گیا اور سینکڑوں کو گرفتار کیا گیا۔

امریکی طلباء کی تحریک سے واضح ہوگیا کہ امریکی رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے صہیونی حکومت کی سازشیں اور کوششیں ناکام ہوگئی ہیں۔ فسلطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں نے پورے امریکہ اور کینیڈا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے بعد یورپ کا رخ کیا ہے جہاں برطانیہ اور فرانس کی درسگاہوں میں مظاہروں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

صہیونزم کے خلاف شروع ہونے والے ان مظاہروں کو غیر موثر بنانے کے لئے صدر جوبائیڈن اور نتن یاہو نے یہود ستیزی کا نام دینا شروع کیا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے اور مختلف مقامات پر یہودیوں نے صہیونزم کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیتے ہوئے غزہ میں اسرائیل کے مظالم کی مذمت کی ہے۔

بین الاقوامی حقوق کے استاد وڈی آرمر نے اس حوالے سے کہا ہے کہ امریکی اور اسرائیلی حکام کی جانب سے یہود ستیزی کا نعرہ طلباء کی تحریک کو خاموش کرنے کی سازش ہے۔ اگر طلباء کے خلاف پرتشدد سلوک کیا گیا تو احتجاج میں مزید شدت آئے گی۔

امریکہ مخالف طلباء تحریک، جنگ ویتنام سے لے کر جنگ غزہ تک

1960 کی طلباء تحریک نے امریکی حکام کو شکست تسلیم کرنے پر مجبور کیا تھا۔ واشنگٹن حکام ماضی کے تلخ تجربے کو ذہن میں رکھتے ہوئے حالیہ طلباء تحریک کے حوالے سے شدید پریشان ہیں۔

News ID 1923606

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha