19 اپریل، 2024، 6:26 PM

امریکہ کو بتادیا تھا کہ ایران ہر حال میں حملہ کرے گا، عبداللہیان کی سی این این سے گفتگو

امریکہ کو بتادیا تھا کہ ایران ہر حال میں حملہ کرے گا، عبداللہیان کی سی این این سے گفتگو

ایرانی وزیرخارجہ نے امریکی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل پر حملے سے پہلے امریکہ پر واضح کردیا تھا کہ صہیونی حکومت کو ہر حال میں جواب دیا جائے گا۔

مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے دوران امریکی چینل سی این این کو انٹرویو میں کہا کہ شام میں ایرانی سفارت خانے پر حملے کے بعد ایران نے امریکہ پر واضح کردیا تھا کہ دہشت گرد حملے کے جواب میں صہیونی حکومت کے خلاف ایرانی کاروائی یقینی ہے۔

ایرانی وزیرخارجہ کے انٹرویو کا متن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے:

اسرائیل نے ایران پر جوابی حملے کا اعلان کیا ہے کیا آج رات ہی حملہ ممکن ہے؟

عبداللہیان: صہیونی حکومت کی جانب سے شام میں ایرانی سفارت خانے پر دہشت گرد حملے کے بعد ہم نے جوابی حملہ کیا جس میں کم ترین اہداف کو نشانہ بنایا گیا حالانکہ ہم اس سے بھی زیادہ سخت جواب دے سکتے تھے۔ ہم نے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہم نے کاروائی کی۔ ہمارا حملہ ختم ہوگیا ہے لیکن کسی جوابی اقدام کی صورت میں ہم فوری اور پہلے سے زیادہ وسیع حملہ کریں گے۔ ہم نے حملے کے بعد تہران میں سویٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے ذریعے امریکہ کو پیغام بھیجا کہ اگر صہیونی حکومت دوبارہ کوئی غلطی کرے تو ہمارا جوابی حملہ اسرائیل کو پیشیمان کردے گا۔ ہم خطے میں کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے ہیں۔ امید ہے اسرائیل بھی کوئی غلط اقدام نہیں کرے گا۔

آپ نے "ریڈ لائن" کا استعمال کیا اور کہا کہ پہلے سے زیادہ وسیع حملہ کریں گے، اس سے کیا مراد ہے۔ گذشتہ حملے میں 300 سے زائد ڈرون اور میزائل استعمال کئے اس سے زیادہ کتنے ہوں گے؟

عبداللہیان: جس ریڈ لائن کو اسرائیل نے عبور کیا وہ شام میں ہمارے سفارت خانے پر حملہ تھا جس میں ہمارے سات فوجی مشیر شہید ہوگئے۔ صہیونی حکومت نے ویانا کنونشن کو پامال کیا جس کے تحت سفارت خانوں کو سیکورٹی حاصل ہوتی ہے اس کے جواب میں ہمارا حملہ کم ترین سطح پر تھا کیونکہ صرف دو اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ نواتیم کا ہوائی اڈا اور ایک خفیہ اطلاعات کا مرکز جہاں سے ایرانی کے خلاف کاروائی ہوتی تھی اور شام میں سفارت خانے پر حملے کے لئے اسی اڈے سے طیارے نے اڑان بھری تھی۔ صہیونی حکومت کی جانب سے غلطی کی گئی تو ہمارا جواب اس سے زیادہ وسیع ہوگا۔ وسیع حملوں کو ہماری مسلح افواج نے متعین کررکھا ہے لہذا امید ہے کہ صہیونی حکومت فیصلہ کرنے میں کوئی ٖغلطی نہیں کرے گی۔

آپ کے اگلے حملوں کی تفصیلات کیا ہوسکتی ہیں۔ چنانچہ آپ نے کہا کہ ہم نے اقتصادی اور عوامی مراکز کو ہدف نہیں بنایا کیا اگلے حملے میں ان کو بھی نشانہ بنائیں گے؟

عبداللہیان: ہمارے ڈرون طیاروں اور میزائلوں نے اپنے اہداف کی مکمل درست نشاندھی کی اور صرف فوجی اہداف کو نشانہ بنایا۔ ہم نے اپنے ان حملوں کے ذریعے ثابت کیا کہ ہمارا ارادہ قوی ہے اور جہاں سے ہم پر حملہ ہوا تھا اسی کو ہم نے نشانہ بنایا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ ہم مقبوضہ علاقوں میں محدود حملہ کرکے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے سے گریز کیا۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کے مشیر جان کربی نے اسرائیل پر ایران کے حملوں کو شرمناک قرار دیا، اس حوالے سے کیا کہتے ہیں؟

عبداللہیان: دیکھیں! یہ بات واضح ہے کہ ہماری کاروائی اچانک نہیں ہوئی بلکہ ہم نے دس دن پہلے ہی اعلان کردیا کہ ہم اسرائیل پر حملہ کریں گے کیونکہ دمشق میں ہمارے سفارت خانے پر دہشت گرد حملہ ہوچکا ہے جو ہماری خودمختاری کا مسئلہ ہے۔ اس حوالے سے ہم نے امریکہ کو بتادیا تھا کہ ہم اسرائیل پر حملہ کریں گے۔ اس پیغام کو ہم نے کئی ممالک کے وزرائے خارجہ اور سویٹزرلینڈ کے سفارت خانے کے توسط سے امریکہ تک پہنچایا تھا۔ البتہ امریکہ اور 20 دیگر ممالک جن میں نیٹو کے رکن ممالک بھی شامل ہیں، نے ہمارے میزائلوں اور ڈرون طیاروں کو روکنے کی کوشش کی اس کے باوجود ہمارے میزائل اور ڈرون اپنے ہدف پر لگے۔ ہمارا حملہ اچانک نہیں تھا۔ ہمارے حریفوں کو حملے کے وقت اور دن کے بارے میں علم نہیں تھا تاہم بخوبی جانتے تھے کہ حملہ کسی بھی صورت ہوگا۔ ہم نے صہیونیوں کو واضح پیغام دیا ہے۔

یعنی آپ یہی چاہتے تھے کہ نتیجہ وہی نکلے جو دنیا نے دیکھ لیا یعنی 99 فیصد میزائل فضا میں تباہ کردیے گئے اور اسرائیل کو زیادہ نقصان نہیں پہنچا، کیا یہی درست ہے؟

عبداللہیان: ہمارا مقصد انتباہ کرنا تھا۔ ہماری مسلح افواج نے مقبوضہ علاقوں میں دو فوجی مراکز کو نشانہ بنالیا۔ ہم چاہتے تھے کہ صہیونی حکومت ہماری توانائی اور جوابی حملے کی صلاحیت کے بارے میں یقین کرے۔ میں دوبارہ کہتا ہوں کہ ہم خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلانے کا نہ پہلے ارادہ رکھتے تھے اور نہ اب رکھتے ہیں۔ نتن یاہو حکومت اپنے سیاسی کیرئیر کو بچانے کے لئے جنگ کا دائرہ پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔

کل امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ ہم اپنے دوستوں کے ساتھ ہیں اور ایران اور روس کو کامیاب ہونے نہیں دیں گے۔ پس اگر امریکہ اسرائیل کی مدد کرے چنانچہ اسرائیل بھی کہہ چکا ہے تو اس صورت میں وسیع حملوں سے آپ کی مراد امریکی تنصیبات پر حملہ ہے؟

عبداللہیان: اسرائیل کی طرف سے دوبارہ غلطی کی صورت میں ہمارے وسیع حملوں سے مراد مقبوضہ علاقوں میں حملے ہیں۔ ہم نے گذشتہ حملوں کے دوران بھی امریکہ کو بتادیا ہے کہ ہم امریکی تنصیبات پر حملہ نہیں کریں گے۔ ہاں اگر امریکہ صہیونی حکومت کے ساتھ خود کو بھی جنگ کا فریق بنادے تو ہم بھی کوئی دریغ نہیں کریں گے اور امریکہ بھی محفوظ نہیں رہے گا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان موضوعات پر بحث کرنے کے بجائے مشکلات کی اصل جڑ کے بارے میں گفتگو کریں۔ میں نے اقوام متحدہ کے سربراہ کے ساتھ ملاقات کے دوران بھی کہا ہے کہ خطے میں مشکلات کی اصل جڑ صہیونی حکومت کی نسل کشی اور غزہ اور غرب اردن میں جنگی جرائم ہیں۔ اگر غزہ کے خلاف جارحیت بند ہوجائے تو پورا خطہ پرامن ہوجائے گا اور ایران سمیت سب اس امن سے فائدہ اٹھائیں گے۔

اگر دوبارہ امریکہ ایرانی میزائلوں سے مقابلے کے لئے اسرائیل کی مدد کرے تو کیا امریکی تنصیبات پر حملہ کیا جائے گا؟

عبداللہیان: ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا۔ گذشتہ چھے مہینوں کے دوران ایران اور امریکہ کے درمیان ہونے والے پیغامات کے تبادلے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ امریکہ خطے میں جنگ کا دائرہ پھیلانے کا خواہشمند نہیں ہے کیونکہ یہ امریکہ کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ امید ہے کہ امریکہ صہیونی حکومت کو لگام دے گا اور کسی نئی مہم جوئی کی اجازت نہیں دے گا لیکن اگر دوبارہ غلطی کی گئی تو ایران کا جواب پہلے سے زیادہ مختلف ہوگا۔

کسی ایرانی فوجی افسر نے کہا ہے کہ اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے جاری رکھے تو ایران کی جوہری پالیسی بدل سکتی ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے؟

عبداللہیان: جوہری معاملے پر ایران نے کئی مرتبہ اپنا موقف واضح کردیا ہے۔ ہم اس حوالے سے اپنے شرعی اور دینی عقائد کے مطابق عمل کریں گے اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کا فتوی موجود ہے۔ ہم نے کئی مرتبہ کہا ہے کہ ہمارا جوہری پروگرام صلح پر مبنی ہے جس پر ہم خصوصی طور پر توجہ کرتے ہیں۔

دوسری طرف گذشتہ چند ماہ کے دوران ہم نے کئی مرتبہ مشاہدہ کیا کہ صہیونی حکام نے غزہ میں کامیابی کے لئے ایٹم بم استعمال کرنے کا بھی عندیہ دیا ہے۔ امریکہ کو اسرائیلی اس ممکنہ مہم جوئی پر توجہ دینا چاہئے کہیں غزہ میں کوئی ایٹمی بحران پیدا نہ ہوجائے۔ نتن یاہو کسی قانون کا پابند نہیں ہے لہذا اس کو لگام دینا ضروری ہے۔

حالیہ ایام میں خواتین پر حجاب کے معاملے میں دباو ہے البتہ سپریم لیڈر نے بھی اس موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے۔ سی این این کے ذرائع کے مطابق شہروں میں پولیس کی گشت بڑھ گئی ہے۔ ایک خاتون جو اپنا نام ظاہر کرنے پر تیار نہیں کہتی ہے کہ باہر خوف محسوس کرتی ہےا نہوں نے سی این این کو کہا کہ گذشتہ ہفتے اپنے شوہر کے ساتھ روسری کے بغیر بیٹھی تھی پولیس کی جانب سے حجاب کی رعایت نہ کرنے کے حوالے سے ان کو پیغام موصول ہوا جس میں اس کی گاڑی کی لائسنس تک کا نمبر لکھا ہوا تھا اور کہا گیا تھا کہ دوبارہ بے حجابی کی صورت میں گاڑی ضبط کی جائے گی۔ دو سال پہلے کسی لڑکی کی موت کے بعد وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے تھے۔ حجاب کے بارے میں نئے قوانین کے بعد اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی کیا سزا ہوگی؟

عبداللہیان: واضح طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ امریکہ اور مغربی ممالک متعدد مسائل پر دوغلی پالیسی کا شکار ہیں۔ میں نے چند روز پہلے یہاں ایک بڑے یورپی ملک کے وزیرخارجہ سے کہا کہ آپ کو یاد جب ایران میں ایک لڑکی کی مشکوک موت واقع ہوئی تو کیا آپ نے کتنا شور مچایا تھا؟ لیکن آج غزہ میں ہزاروں خواتین اور بچوں کو قتل کیا جارہا ہے پھر آپ کے کانوں پر جوویں تک نہیں رینگتی ہیں اور امریکہ اور یورپ کی طرف ان فلسطینی خواتین اور بچوں کے حق میں کوئی آواز نہیں سنتے ہیں۔

حجاب ایرانی ثقافت کا ایک جزء لاینفک ہے۔ دوغلی پالیسی کا شکار ممالک نے اس مسئلے پر خواتین کو ورغلا کر اپوزیشن بنانے کی کوشش کی۔ خواتین کو ایرانی معاشرے میں بڑا اہم مقام حاصل ہے اور سیاست اور دیگر شعبوں میں اہم مقامات پر فائز ہیں۔ ہماری خواتین سمجھ دار ہیں اور معاشرے میں بڑا کردار ادا کرتی ہیں۔ لہذا خواتین بخوبی جانتی ہیں کہ حجاب سمیت اجتماعی مسائل پر کیا موقف اختیار کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں اس وقت ایرانی خواتین کا حجاب خطے کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ خطے کا بڑا مسئلہ غزہ کے 34 ہزار سے زائد عوام ہیں جن میں خواتین اور بچوں کی بھی بڑی تعداد شامل ہے۔ ہمیں ان پر توجہ مرکوز کرنا چاہئے۔

بہت شکریہ

News ID 1923428

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha