مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق، ایرانی وزیرخارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکی ٹی وی چینل این بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ اصفہان کے آسمان پر تین کواڈ کاپٹر کا اڑنا بچوں کے کھیل کی مانند تھا۔
امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران خطے میں جنگ کی توسیع یا کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتا ہے۔ ہم نے دمشق میں اپنے سفارت خانے پر حملے کے بدلے میں اسرائیل پر اپنے حق دفاع کے تحت جوابی حملہ کیا۔ حملے کے فورا بعد ہم نے امریکہ کو پیغام دیا تھا کہ ایران صہیونی حکومت کے ساتھ جنگ جاری رکھنے کا خواہشمند نہیں ہے۔ ایران نے غزہ سے لے کر بحیرہ احمر تک ہر جگہ امن کے قیام کے لئے کوشش کی ہے۔
عبداللہیان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر صہیونی حکومت کوئی مہم جوئی کرے تو ایران پہلے سے زیادہ سخت اور موثر جواب دے گا۔ گذشتہ حملے میں ہم نے فقط دو دفاعی مراکز کو نشانہ بنایا تھا جہاں سے ایران کے خلاف سازشیں اور حملے ہوتے تھے۔ چند روز پہلے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کا ڈھونگ رچایا۔ ممکن اصفہان کے اندر سے کچھ چھوٹے ڈرون فضا میں اڑے ہوں جن کو دفاعی سسٹم نے فائرنگ کرکے گرادیا تھا۔ ابھی تک ثابت نہیں ہوا ہے کہ یہ واقعہ صہیونی حکومت کی کارستانی تھی لیکن اگر صہیونی حکومت اس طرح کا کوئی قدم اٹھائے تو ایران سخت جواب دے گا۔
انہوں نے کہا کہ شام میں صہیونی حکومت نے ہمارے سفارت خانے پر حملہ کرکے فوجی مشیروں کو شہید کردیا جو کہ ریڈلائن عبور کرنے کے مترادف تھا لیکن گذشتہ روز دو یا تین کواڈ کاپٹر اصفہان کی فضاوں کو دیکھے گئے اور بعد میں فوری طور پر تباہ کردیا گیا ابھی کسی نے اس کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی ہے۔ ہم واقعے کی تحقیقات کررہے ہیں۔ اب تک کی خبریں قابل اعتماد نہیں ہیں بلکہ اسرائیل کے حق میں ماحول سازی کی جارہی ہے چنانچہ صہیونی حکومت کی کوئی شرارت ثابت ہوجائے تو ہمارا جواب سخت ہوگا جس سے صہیونی حکومت کو پشیمانی ہوگی۔ گذشتہ دنوں پیش آنے والا واقعہ اسرائیل کی طرف سے حملہ نہیں تھا بلکہ دو یا تین کواڈ کاپٹر فضاوں میں پرواز کررہے تھے۔ اس طرح کے کواڈ کاپٹر ہمارے بچے آسمان میں اڑاتے رہتے ہیں۔
انہوں نے اسرائیل کے ساتھ کشیدگی کے حوالے سے مزید کہا کہ گذشتہ کئی مہینوں کے دوران اسرائیل نے ہمارے فوجی مشیروں کو شہید کیا ہے۔ ہم خطے میں کشیدگی بڑھانا نہیں چاہتے ہیں اس لئے صبر و تحمل سے کام لیا۔ نتن یاہو نے ہمارے صبر کا غلط فائدہ اٹھایا اور ہمارے سفارت خانے پر حملہ کیا۔ اس موقع پر بھی ایران نے پہلے سفارتی چینل کو استعمال کیا اور اقوام متحدہ کو بھی آگاہ کیا تاکہ ویانا کونشن کی روشنی میں صہیونی حکومت کے خلاف کوئی اقدام کرے لیکن امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے دباو کی وجہ سے ایک بیان بھی جاری نہیں کیا گیا۔ اس کے بعد ہمارے پاس فوجی کاروائی کا آپشن بچتا تھا۔ ہم تل ابیب اور حیفا کو نشانہ بناسکتے تھے۔ اسرائیلی بندرگاہوں کو ہدف بناسکتے تھے۔ سویلین کے علاوہ ہر حکومتی تنصیبات پر حملہ کرسکتے تھے لیکن ہم نے صرف ان دو مقامات کو نشانہ بنایا جہاں سے شام میں ہم پر حملہ کیا جاتا تھا۔ اس طرح ہم نے اپنے مفادات کے تحفظ کا عزم ظاہر کردیا۔ ہماری کاروائی ختم ہوگئی ہے۔ ہم نے امریکہ کو پیغام دیا ہے کہ جب تک اسرائیل کی طرف سے کوئی انتہائی قدم نہ اٹھایا جائے ہم دوبارہ حملہ نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ ایران کا ایٹمی پروگرام مکمل صلح آمیز ہے لہذا اس حوالے سے کسی کو کوئی پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ پریشانی صہیونی انتہاپسند وزیراعظم کے عزائم پر ہونا چاہئے جنہوں نے غزہ میں ایٹم بم استعمال کرنے کی کھلی دھمکی دی ہے۔
عبداللہیان نے کہا کہ حماس نے فلسطینی عوام کے دفاع کے لئے یہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصی آپریشن کیا ہے۔ ایران کو قبل از وقت کوئی اطلاع نہیں ملی تھی تاہم ایران حماس کی حمایت کرتا ہے۔ ہم غزہ میں جنگ بندی چاہتے ہیں چنانچہ نیویارک میں انتونیو گوتریش اور دیگر اعلی شخصیات سے ملاقات کے دوران ہم نے غزہ میں جنگ بندی، امدادی کاموں کی بحالی، صہیونی فورسز کے انخلاء اور قیدیوں کے تبادلے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
آپ کا تبصرہ