مہر خبررساں ایجنسی، دینی ڈیسک؛ شہید آیت اللہ سید محمد باقر صدر نے اپنی پوری زندگی دینی علوم کی نئے انداز میں تعلیم اور جدید فقہ کو عراقی عوام کی سیاسی و سماجی زندگی میں شامل کرنے میں صرف کردی۔ وہ انقلاب اسلامی ایران کو عراق کے مظلوم عوام کی نجات کا منفرد اور مؤثر نمونہ سمجھتے تھے اوراسی راہ اپنی جان، اپنی بہن اور اپنے پیروکاروں کی قربانی دی۔
آج 9 اپریل کو آیت اللہ سید محمد باقر صدر اور ان کی بہن سیدہ آمنہ بنت الہدیٰ کی شہادت کو 42 سال مکمل ہو گئے ہیں، جنہیں صدام کی بعثی حکومت نے 1983 میں شہید کر دیا تھا۔
ولادت
آیت اللہ سید محمد باقر 1934 میں کاظمین میں آیت اللہ سید حیدر صدر کے گھر میں پیدا ہوئے۔ چار سال بعد ان کی بہن آمنہ بنت الہدی پیدا ہوئیں۔ ان کی والدہ آیت اللہ شیخ عبدالحسین آل یاسین کی بیٹی تھیں۔ ان کے تین بچے تھے: اسماعیل، محمد باقر اور آمنہ۔ آیت اللہ سید حیدر، آمنہ کی پیدائش کے چند ماہ بعد انتقال کر گئے۔
سید اسماعیل، محمد باقر سے 12 سال اور آمنہ سے 16 سال بڑے تھے اور ماں، بھائی اور بہن کی کفالت کے ذمہ دار تھے۔
سید محمد باقر پانچ سال کی عمر میں مکتب گئے، جہاں ان کی غیر معمولی ذہانت کا مظاہرہ کیا۔ چند ماہ بعد انہیں اسکول بھیج دیا گیا اور انہوں نے 11 سال کی عمر میں اعلی سند حاصل کی۔ ان کے اساتذہ نے ان کی قابلیت دیکھتے ہوئے تجویز دی کہ وہ حکومت کے خرچ پر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ یا امریکہ جائیں، لیکن ان کی ماں اور بھائی نے یہ قبول نہ کیا کیونکہ وہ مغربی نظام تعلیم اور اس کی وابستگی کو ناپسند کرتے تھے۔
اپنے دو ماموؤں، آیت اللہ شیخ محمد آل یاسین اور آیت اللہ شیخ مرتضی آل یاسین کی مشاورت سے محمد باقر نے دینی تعلیم حاصل کرنے کا مصمم ارادہ کرلیا۔ انہوں نے دینی تعلیم کا آغاز اپنے بھائی سید اسماعیل سے "معالم الاصول" کی تعلیم سے کیا، اور دیگر ابتدائی دینی کتابیں خود مطالعہ کرکے حل کرلیں۔
12 سال کی عمر میں سید محمد باقر اپنے بڑے بھائی کے ساتھ کاظمین سے نجف اشرف چلے گئے تاکہ وہاں کے بڑے اساتذہ سے اعلی دینی تعلیم حاصل کریں۔ وہاں وہ روزانہ اوسطاً 16 گھنٹے تعلیم میں مشغول رہتے۔
انہوں نے فقہ اور اصول کی اعلی تعلیم آیت اللہ سید ابوالقاسم خویی اور آیت اللہ شیخ محمد رضا آل یاسین سے حاصل کی۔ اسلامی فلسفہ اور ملا صدرا کی "اسفار" انہوں نے شیخ صدرا بادکوبہای سے پڑھی۔ دیگر اسلامی علوم جیسے حدیث، رجال، درایہ، کلام اور تفسیر انہوں نے آیات اللہ سید محسن حکیم، آیت اللہ سید ابوالقاسم آل یاسین، سید محمد روحانی اور شیخ حسین حلی سے سیکھے۔ سید محمد باقر نے دینی دروس کے ساتھ ساتھ مشرقی و مغربی فلاسفہ کے نظریات کا مطالعہ اور تنقیدی جائزہ بھی لیا۔
سید محمد باقر صدر نے 20 سال کی عمر میں کتاب کفایۃ الاصول کی تدرس سے اصول فقہ کے اعلی درجے کے دروس کا آغاز کیا۔ انہوں نے 25 سال کی عمر میں اپنی مشہور کتاب "فلسفتُنا" تحریر کی۔ اسی دہائی کے آخر میں انہوں نے فلسفہ اور قرآن کی تفسیر بھی طلاب اور دینی علوم کے متلاشیوں کو پڑھانا شروع کیا۔
ایک عالمہ بہن
سید محمد باقر اپنی بہن سے خصوصی محبت اور عمر کے کم فرق کی وجہ سے ان کی تعلیم کے ذمہ دار بھی بنے۔ اپنے تعلیمی سفر کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی بہن آمنہ کو قرآن، ادب، تاریخ، حدیث، فقہ اور اصول کی تعلیم دی۔ آمنہ بنت الهدی نے کبھی عراق کے لڑکیوں کے اسکولوں میں قدم نہیں رکھا، جو اس وقت برطانوی اور یورپی تعلیمی نظام کے زیرِ اثر تھے۔ انہوں نے صرف اپنے بھائی محمد باقر اور کبھی کبھار اپنے دوسرے بھائی اسماعیل سے تعلیم حاصل کی۔ ان کی ذہانت اور تعلیم کی سطح ایسی تھی کہ وہ ایک عالمہ، شاعرہ، مصنفہ، مجاہدہ اور فقہ و اخلاق کی معلمہ بن گئیں۔
آیت اللہ باقر الصدر کی حیران کن صلاحیتیں
آیت اللہ سید محمد باقر صدر کی منفرد خصوصیات میں ان کی غیر معمولی ذہانت، اور 18 سال کی عمر سے پہلے اجتہاد اور فقاہت کے درجے پر پہنچنا شامل ہے۔ وہ 36 سال کی عمر میں آیت اللہ سید محسن حکیم کی وفات کے بعد عراق اور دیگر عرب علاقوں کے دینی مرجع بنے۔
شہید باقر الصدر اور سیاست
شہید باقر الصدر نے مذہبی امور کے ساتھ سیاسی امور میں حصہ لیا۔ انہوں نے تین شعبوں میں سیاسی سرگرمیاں انجام دیں:
1. کمیونسٹ نظریات کے خلاف مزاحمت
2. بعث پارٹی کی مخالفت اور اس کے نظریات کو کفرآمیز قرار دینا
3. امام خمینی اور ایرانی اسلامی انقلاب کی حمایت
1959 میں آیت اللہ باقر الصدر نے عراق کے پہلے صدر جنرل عبدالکریم قاسم کی ملحدانہ اور دین مخالف سرگرمیوں کے خلاف، دیگر شیعہ علما کے ساتھ مل کر "جمعیت علمائے نجف" قائم کی۔ اس جماعت نے دین مخالف اقدامات کے خلاف بیانات، اعلانات اور نظریاتی و سیاسی مضامین شائع کیے، جن میں "الاضواء" نامی رسالہ بھی شامل تھا۔ اس کے ابتدائی پانچ شماروں کے اداریے "رسالتُنا" کے عنوان سے خود آیت اللہ صدر نے لکھے۔
1960 میں آیت اللہ سید محسن حکیم کی تجویز پر انہوں نے اپنی کتاب "فلسفتُنا" میں کمیونزم کے فلسفیانہ نظریات کا رد پیش کیا اور اسلامی فلسفے کی برتری واضح کی۔ دو سال بعد انہوں نے دوسری کتاب "اقتصادُنا" میں اسلامی اقتصادی نظام کو سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ نظاموں کے مقابلے میں ایک جامع اور برتر متبادل کے طور پر پیش کیا۔
آیت اللہ سید محسن حکیم کے انتقال کے بعد 1971 میں آیت اللہ صدر کی مرجعیت کا دور شروع ہوا، اور عراق کے بہت سے لوگوں نے ان کی تقلید شروع کی۔ اس دوران انہوں نے عراق کی فکری اور سماجی تبدیلیوں کے مطابق ایک مؤثر اور موزوں دینی تنظیم و ڈھانچے کی تشکیل کی کوشش کی۔ ان کے خیال میں دورِ غیبت میں مثالی حکومت "اسلامی حکومت" ہے جو دو ستونوں پر قائم ہو: 1. ولایتِ فقیہ، 2. شورائی نظام
بعث پارٹی کی تکفیر
آیت اللہ سید محمدباقر صدر نے مرجعیت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ایک تاریخی فتوی کے ذریعے بعث پارٹی کو کافر قرار دیا۔ اس فتویٰ کا متن یوں تھا: تمام مسلمانوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ بعث پارٹی میں کسی بھی عنوان کے تحت شامل ہونا شرعا حرام ہے، اور اس کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون کرنا ظالم و کافر کی مدد اور اسلام و مسلمانوں سے دشمنی کے مترادف ہے۔
1973 میں صدام حسین اور بعث پارٹی نے خاص طور پر آیت اللہ باقر الصدر کی پارٹی حزب الدعوۃ الاسلامیہ کی سرگرمیوں سے خوفزدہ ہو کر انقلابیوں اور مخالفین کی گرفتاریوں میں اضافہ کردیا۔ بعثی حکومت کے سکیورٹی اہلکاروں نے آیت اللہ صدر کو، جو اس وقت نجف کے اسپتال میں زیر علاج تھے، گرفتار کر کے کوفہ اسپتال کے قیدیوں والے حصے میں منتقل کردیا اور ان کے ہاتھوں کو ہتھکڑی سے باندھ کر سخت نگرانی میں رکھا۔
جب عوام، علمائے دین اور مراجع کو اس گرفتاری کا علم ہوا، تو ملک بھر میں شدید احتجاج اور مظاہروں کی لہر دوڑ گئی۔ احتجاجات اس قدر شدید تھے کہ چند ماہ بعد بعثی حکومت کو آیت اللہ کو رہا کرنا پڑا۔
1975 میں بعثی حکومت نے آیت اللہ صدر اور دیگر شخصیات کو خوفزدہ کرنے کے لئے ان کے پانچ شاگردوں کو گرفتار کرکے سزائے موت دے دی۔
اربعین کے موقع پر قیادت
آیت اللہ باقر الصدر نے اربعین حسینی کے موقع پر کربلا اور نجف میں امام حسینؑ کے عزاداروں کے دسیوں ہزار افراد پر مشتمل جلوسوں کی قیادت کی۔ اگلے دن سکیورٹی اہلکاروں نے عزاداروں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کرکے قید و تشدد کا نشانہ بنایا، اور آیت اللہ صدر کو بھی دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ چند گھنٹوں کی جسمانی اور ذہنی اذیت کے بعد انہیں رہا کردیا گیا۔
بعثی حکومت نے آیت اللہ باقر الصدر کی سیاسی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے کچھ جعلی علما کو امام جماعت اور واعظ کے طور پر مختلف مساجد میں تعیینات کیا۔ مگر آیت اللہ صدر نے اس سازش کو پہچان لیا اور فتویٰ جاری کیا: تمام عراقی مسلمانوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ جو افراد مراجع مسلمین کی طرف سے مقرر نہ ہوں، ان کی امامت میں نماز جماعت پڑھنا شرعاً حرام ہے۔
1978 میں آیت اللہ صدر نے ایک مشہور فتوی جاری کیا جس میں عراقی عوام کو بعثی حکومت کے خلاف قیام کی دعوت دی۔ انہوں نے فتوی میں کہا کہ عراق کی مجاہد اور مسلمان قوم پر واجب کفائی ہے کہ وہ بعث پارٹی اور اس کے رہنماؤں کے خلاف مسلح قیام کرے اور اس کافر پارٹی کے سربراہوں کو قتل کر کے خود کو ان خونخوار درندوں سے نجات دلائے۔
اس فتوی کے بعد آیت اللہ صدر کے گھرکو سکیورٹی فورسز نے محاصرے میں لیا۔ سفیر ایران کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہ دی گئی۔ انہوں نے عوامی آگاہی کے لیے اپنا مشہور درس تفسیر قرآن دوبارہ شروع کیا، جس میں عوام کی بڑی تعداد شرکت کرتی تھی۔ یہ سلسلہ صرف 14 نشستوں تک ہی جاری رہ سکا کیونکہ بعثی حکومت نے اسے بند کرادیا تھا۔ حکومت نے پورے عراق میں آیت اللہ کے نمائندوں اور حامیوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا۔
آیت اللہ صدر نے 27 مارچ 1979 کو صدام کی حکومت کے غیر انسانی رویے کے خلاف ملک گیر ہڑتال کی کال دی، جس کے نتیجے میں بازار بند ہوگئے اور لوگ جوق در جوق آیت اللہ سے اظہار یکجہتی کے لیے ان کے گھر پہنچے۔
تیسری گرفتاری
اگلے دن آیت اللہ صدر کو تیسری بار گرفتار کرکے بغداد لے جایا گیا، لیکن عوامی احتجاجات کی شدت کے باعث دو دن بعد انہیں رہا کردیا گیا۔ تاہم، بعث حکومت نے انہیں خطرہ سمجھتے ہوئے ان کو شہید کرنے کی منصوبہ بندی کی، اور ان کے نجف کے گھر کو 9 ماہ تک سخت محاصرے میں رکھا۔
شہادت
بعثی حکومت نے آیت اللہ باقر الصدر کو خاموش کرنے کے لیے کئی نمائندوں کو ان سے ملاقات کے لیے بھیجا اور انہیں دو آپشن دیے: یا تو صدام کے ساتھ تعاون کریں یا موت کو گلے لگائیں۔
بعثی حکومت نے آیت اللہ باقر الصدر سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ اسلامی انقلاب اور امام خمینیؒ کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں اور ایک بیانیہ جاری کر کے بعث پارٹی کی حمایت کریں، حزب الدعوۃ سے اپنی وابستگی ختم کریں اور بعث پارٹی کے خلاف جاری کردہ فتوی واپس لیں۔ آیت اللہ باقر الصدر نے راہِ خدا میں شہادت کو چن لیا۔
5 اپریل 1980 کو آیت اللہ صدر اور ان کی بہن آمنہ بنت الهدی کو چوتھی بار نجف سے گرفتار کرکے بغداد لے جایا گیا۔ وہاں سکیورٹی حکام نے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینیؒ کے خلاف بیان دیں اور اپنی جان بچائیں مگر انہوں نے یہ مطالبہ صاف الفاظ میں مسترد کر دیا اور اپنے ارادے پر قائم رہنے کا اعلان کیا۔ نتیجتا کئی دنوں کی سخت ترین اذیت کے بعد 9 اپریل 1980 کو شہید کردیے گئے۔
ان کے مقدس جسد کو سخت ترین سکیورٹی میں نجف اشرف کے شرفالدین خاندانی قبرستان میں دفن کیا گیا۔
امام خمینیؒ کے ساتھ وابستگی
شہید آیت اللہ باقر الصدر نے ایران میں 1964 میں شروع ہونے والی اسلامی تحریک کے آغاز سے ہی امام خمینیؒ کی بھرپور حمایت کی۔ جب امام خمینی کو ترکی جلا وطن کیا گیا، تو آیت اللہ صدر نے ہمدردی کا اظہار کیا۔ اور جب امام نجف اشرف جلا وطن ہوکر پہنچے تو آیت اللہ نے شہر کے دیگر علما کے ساتھ ان کا پرجوش استقبال کیا اور امام کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلقات قائم کیے، جو ان کے 13 سالہ قیام نجف کے دوران قائم رہے۔
انقلاب اسلامی سے پہلے آیت اللہ صدر اسلامی انقلاب کی بھرپور حمایت کرتے رہے اور روز بروز امام سے ان کی وابستگی گہری ہوتی گئی۔ امام خمینیؒ کی فرانس جلاوطنی کے دوران آیت اللہ صدر نے انہیں ایک خط لکھا، انقلابِ اسلامی کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
آیت اللہ صدر نے انقلاب اسلامی اور امام خمینیؒ کی حمایت میں مشہور فتوی صادر کیا:
"بسم الله الرحمن الرحیم۔ جو لوگ ایران میں اسلام اور مسلمانوں کے دفاع کے لیے قیام کرتے ہیں اور قتل ہو جاتے ہیں، وہ شہید ہیں، اور ان شاءاللہ خدا انہیں امام حسینؑ کے ساتھ جنت میں محشور کرے گا۔ سید محمدباقر صدر"
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد بعثی حکومت نے شہید آیت اللہ الصدر پر دباؤ بڑھا دیا، لیکن وہ امام خمینیؒ کی اطاعت اور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے ڈٹ کر کھڑے رہے۔ نجف میں ایک مرتبہ تفتیش کے دوران سکیورٹی ادارے کے سربراہ نے ان سے پوچھا: "تم عرب ہو، ایران اور اس کے انقلاب کی حمایت کیوں کرتے ہو؟ اپنی تمام سرگرمیاں ایران اور خمینی کی مدد کے لیے کیوں مختص ک رکھی ہیں؟ ایک فارسی بولنے والے ایرانی ملا (مطہری) کے لیے نجف میں مجلس کیوں برپا کرتے ہو؟ خمینی سے خط و کتابت کیوں کرتے ہو؟"
آیت اللہ صدر نے جواب دیا: میں ایک مسلمان ہوں، اور پوری دنیا کے مسلمانوں کے سامنے جواب دہ ہوں۔ مجھے اپنے فریضے پر عمل کرنا ہے۔ یہ عرب اور عجم، ایران اور غیر ایران کا مسئلہ نہیں، اور میں اس راہ سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔
آخری گرفتاری کے وقت، عراق کے سکیورٹی چیف نے انہیں دھمکی دی کہ اگر وہ انقلاب اسلامی اور امام خمینیؒ کے خلاف چند جملے لکھ دیں تو ان کی جان بخشی ہوسکتی ہے، لیکن آیت اللہ صدر نے کہا: "میں شہادت کے لیے تیار ہوں!"
امام خمینیؒ کا ردعمل
چند دن بعد جب یہ مظلوم بھائی بہن شہید کر دیے گئے تو امام خمینیؒ نے ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے تعزیتی پیغام جاری کیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا: "انا لله و انا الیه راجعون۔ بہت افسوس کے ساتھ، مرحوم آیت اللہ شہید سید محمدباقر صدر اور ان کی محترمہ مظلوم ہمشیرہ، جو علم و اخلاق کی معلمہ، اور علمی و ادبی دنیا کی مفاخر میں سے تھیں، نہایت دل خراش انداز میں دونوں بہن بھائی مقام شہادت پر فائز ہوگئے۔ میں اس علمی و جہادی شخصیت کے احترام میں جو حوزہ ہائے علمیہ، مراجعِ دینی اور مفکرینِ اسلام کا فخر تھی، تین دن کے لیے عام سوگ کا اعلان کرتا ہوں اور اس عظیم نقصان کے ازالے کے لیے خداوند متعال سے دعا گو ہوں۔"
شہید آیت اللہ باقر الصدر علمی آثار
اگرچہ آیت اللہ سید محمدباقر الصدر کی پوری زندگی دین خدا کے دشمنوں سے جہاد اور مزاحمت میں گزری، مگر انہوں گرانبھا علمی آثار بھی ورثے میں چھوڑے۔
ان کی مایہ ناز تحریریں درج ذیل موضوعات اور کتابوں پر مشتمل ہیں:
فدک فیالتاریخ
نہایة الفکر فی علم الاصول
فلسفتُنا (ہمارا فلسفہ)
اقتصادُنا (ہمارا معاشی نظام)
الفتوی الواضحة (واضح شرعی فتاوی)
البنک بلا ربا فی الإسلام (اسلام میں بغیر سود کے بینک کا تصور)
الإمام المهدی (امام مہدی علیہ السلام کی شخصیت اور ظہور)
ملحمة من نور
الولایة من منظور العقل والفطرة (عقل و فطرت کی روشنی میں ولایت)
دور الأئمة في الحياة الإسلامية (اسلامی زندگی میں آئمہ کا کردار)
نظام العبادة في الإسلام (اسلام میں عبادات کا نظام)
یہ تمام تصانیف آج بھی اسلامی فکر، فلسفہ، معاشرت اور فقہ میں تحقیق کرنے والوں کے لیے عظیم سرمایہ اور رہنما ہیں۔
آپ کا تبصرہ