7 اپریل، 2025، 4:19 PM

جنت البقیع سے غزہ تک—امت مسلمہ کے زخموں کا تسلسل

جنت البقیع سے غزہ تک—امت مسلمہ کے زخموں کا تسلسل

تاریخ بعض اوقات فقط واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ ایک المیے کی شکل میں چیختی ہے، آنسو بہاتی ہے اور روحوں کو بیدار کرتی ہے۔ جنت البقیع کا انہدام اور غزہ کی بربادی دو سانحات نہیں، بلکہ ایک تسلسل ہیں۔

مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک- سید احمد رضوی: تاریخ بعض اوقات فقط واقعات کا مجموعہ نہیں ہوتی بلکہ ایک المیے کی شکل میں چیختی ہے، آنسو بہاتی ہے اور روحوں کو بیدار کرتی ہے۔
جنت البقیع کا انہدام اور غزہ کی بربادی دو سانحات نہیں، بلکہ ایک تسلسل ہیں۔ ایسا تسلسل جو ایک مخصوص دشمن کی مکاری اور اسلام دشمنی کا عکس ہے۔

تاریخ اسلام میں کچھ زخم ایسے ہیں جو وقت کے مرہم سے بھی نہیں بھرتے ہیں۔ یہ زخم جسم پر نہیں بلکہ روح پر لگتے ہیں۔ انہدام جنت البقیع اور غزہ کی بربادی دو ایسے سانحات ہیں جو ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ دشمن صرف ہماری زمینوں پر نہیں، ہماری شناخت، عقیدے، تاریخ اور انسانیت پر بھی مسلسل حملہ آور ہے۔

جنت البقیع، صرف مٹی کے ڈھیر نہیں، بلکہ تاریخ کا مقدس خزینہ

8 شوال 1344 ہجری ایک دلخراش دن

وہ مقدس مقام، جہاں اہل بیتؑ، صحابہ کرامؓ، امہات المومنینؓ، اور اولیاء اللہ اپنے رب کے حضور آرام فرما رہے تھے، اچانک ظالموں کے قدموں تلے روند دیا گیا۔

وہ قبور، جن پر فرشتے سلام بھیجتے تھے، جنہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہوتا تھا، جن کی مٹی میں تاریخ کی خوشبو بسی ہوئی تھی۔ انہیں مسمار کر کے صرف پتھر نہیں توڑے گئے، بلکہ پوری امت کی روح پر کاری ضرب لگائی گئی۔ یہ واقعہ محض قبروں کا انہدام نہیں تھا، بلکہ ایک ایسی سازش کا حصہ تھا جس کا مقصد امت مسلمہ کے عقائد کی جڑوں کو کاٹ دینا تھا۔
ایک مخصوص فکری گروہ کو برطانوی استعمار اور صیہونی استکبار نے اپنا آلہ بنایا، تاکہ مسلمان اپنی روحانی اور تاریخی اساس سے بیگانہ ہوجائیں۔

غزہ: عصر حاضر کی کربلا

آج جب ہم فلسطین، خصوصا غزہ کی طرف نگاہ کرتے ہیں، تو وہاں ہمیں ایک زندہ کربلا نظر آتی ہے۔ جہاں یزیدیت کا ظلم، اور حسینیت کی مظلومیت
روز عاشور کو دہرا رہی ہے۔ معصوم بچوں کے کٹے ہوئے جسم، ماؤں کی سسکیاں، بوڑھے والدین کی لاشوں پر نوحہ کرتی بیٹیاں ہماری خاموشی پر نوحہ  کناں ہیں۔ یہ وہی دشمن ہے جو چودہ سو سال پہلے مدینہ میں بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع کے نام سے سازشیں کرتا تھا۔ آج وہی چہرہ جدید فوجی وردی، میڈیا نیٹ ورکس اور سیاسی معاہدوں کی آڑ میں ہمارے قبلۂ اول کے تقدس کو پامال کررہا ہے، ہمارے بچوں کو یتیم اور ہماری ماؤں کو بیوہ بنا رہا ہے۔

ماضی سے حال تک صہیونیت کی فکری یلغار

قرآن کی روشنی میں یہود کی فطرت واضح ہے: "لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِّلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ... یقیناً آپ اہل ایمان کے سب سے بڑے دشمن یہود کو پائیں گے۔" ان کا طریقۂ واردات مختلف ہے:  کبھی جنگ کے میدان میں شبخون مارتے ہیں، کبھی فکری محاذ پر اور کبھی معاہدوں کی شکل میں حملہ آور ہوتے ہیں۔ جنت البقیع کو مسمار کرنے والے گروہ، غزہ کو تباہ کرنے والی فوج، اور سوشل میڈیا پر اسلام کو بدنام کرنے والے اکاؤنٹس سب صہیونیزم کے آلہ کار ہیں۔ > "كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا... جب بھی وہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں، اللہ اسے بجھا دیتا ہے،

بیداری، اتحاد، اور عملی مقاومت وقت کی ضرورت

سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف ان سانحات کو یاد کرکے آہیں بھرتے رہیں گے؟ یا ان زخموں سے سبق لے کر بیدار ہوں گے؟ یہ وقت ہے کہ ہم جنت البقیع کو اپنی شناخت کا حصہ سمجھیں، غزہ کو امت کے دل کا زخم مانیں اور ایک امت بن کر کھڑے ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ اپنی تاریخ، شعائر اور عقائد کی حفاظت کریں؛ دشمن کی فکری یلغار، میڈیا جنگ اور سیاسی مکاری کو پہچانیں؛ مظلوموں کی آواز بنیں، نہ صرف زبان سے بلکہ عمل سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس وصیت کو عملی جامہ پہنائیں: 
> "المسلم أخو المسلم، لا يظلمه ولا يُسلمه۔ "مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے؛ نہ اس پر ظلم کرتا ہے، نہ اسے دشمن کے حوالے کرتا ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم فقط کف افسوس ملتے رہ جائیں گے؟
یا پھر بقیع سے غزہ تک ایک دیوار، ایک آواز، اور ایک امت بن کر اٹھ کھڑے ہوں گے؟ سوچیے اور جاگ جائیے۔

News ID 1931682

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
  • captcha