مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، روزنامہ رائ الیوم نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ گزشتہ دنوں سعودی حکام نے شام میں سیاسی نفوذ کے لئے اپنے خفیہ سرگرمیاں شروع کر دی ہیں۔ اس دوران دمشق میں غیر ملکی سفارت کار شام کی نئی تبدیلی کے حوالے سے سعودی خارجہ پالیسی کے زاویوں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔
ان میں سے بعض کا خیال ہے کہ 40 ماہرین پر مشتمل ایک انتہائی فعال سعودی وفد دمشق کے اہم ہوٹلوں میں تعینات ہے۔ اس ملک نے قطری اور ترک فریقوں کو مطلع کیا ہے کہ وہ شامی عوام کی مدد کے حوالے سے آنے والے ہفتوں میں ان کے ساتھ ضروری انتظامات کرنے کو تیار ہے۔
دمشق کی نئی حکومت کے ساتھ تعامل کے لیے ریاض کے اقدام نے دمشق میں مغربی سفارت کاروں کی توجہ مبذول کرائی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ سعودی شاہی طبقہ انتہائی خاموشی کے ساتھ میڈیا کے تنازعات سے دور اس ملک کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے براہ راست احکامات کے مطابق، اپنے آپ کو دمشق کے نئے فیصلہ سازوں کے قریب کر رہا ہے۔
باخبر ذرائع نے رائے الیوم کے ساتھ بات چیت میں اس بات پر زور دیا کہ ریاض شام میں ترکی کے پلان کے قریب پہنچ رہا ہے اور نہ صرف وسیع اور ٹھوس اقدامات کر رہا ہے بلکہ وہ تحریر الشام سے وابستہ گروہوں کو پیغامات بھی بھیج رہا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ سعودی عرب شام میں ہونے والی پیش رفت میں اثر و رسوخ کے حوالے سے قطر کے ساتھ مقابلے کے لیے خود کو تیار کر رہا ہے۔
یہ ملک درحقیقت شام کی نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے لگا ہے جب کہ یہ مسئلہ عقبہ اجلاسوں میں سعودی عرب کے موقف سے یکسر مختلف ہے۔
شام میں سعودی عرب کی سیاسی، لاجسٹک اور انٹیلی جنس سرگرمیاں مسلح قابض گروہوں کی باقیات کے بارے میں معلومات جمع کرنا ہیں۔
وہ تکفیری عناصر جو سعودی عرب نے 13 سال قبل شہزادہ بندر بن سلطان کے منصوبوں کے فریم ورک میں شام بھیجے تھے!
اس سلسلے میں دستیاب رپورٹوں میں تحریر الشام میں سلفی تحریکوں کے پانچ ہزار سعودی ارکان کی موجودگی کا بھی ذکر ہے۔
مبصرین کے مطابق سعودی عرب اپنے شدت پسند سلفی عناصر کے ذریعے شام میں امریکی صیہونی اہجنڈے کی تکمیل کے لئے تگ و دو کر رہا ہے۔
آپ کا تبصرہ