مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: بشار الاسد کے اقتدار سے رخصت ہونے اور دہشت گرد تنظیم ہیئت تحریر الشام کے دمشق میں مرکزی قوت کے طور پر ابھرنے کے بعد شام کا میدان کارزار علاقائی اور عالمی طاقتوں کے لیے ایک جغرافیائی شطرنج بن چکا ہے۔ ایسے ماحول میں سعودی عرب، جو عرب دنیا کا ایک روایتی ستون سمجھا جاتا ہے، دو متضاد سمتوں کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے: ایک طرف وہ دمشق میں قائم نئی حکومت سے محتاط انداز میں روابط بڑھا رہا ہے جس کی حکمت عملیاں اور سمت تاحال غیر واضح ہیں، جبکہ دوسری طرف اسے اس امر کا اندیشہ ہے کہ اگر وہ خاموش یا غیر فعال رہا تو طاقت کا وہ خلا جلد ہی ترکی، ایران، قطر یا اسرائیل جیسے حریفوں سے پر ہو سکتا ہے۔ یہ تضاد بشار الاسد کے بعد شام میں ریاض کو درپیش چیلنجوں کی بنیادی وجہ ہے۔
اس تناظر میں سعودی عرب شام کی بدلتی ہوئی صورت حال میں مرکزی کردار ادا کرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ تبدیلیوں کی نبض پر ہاتھ رکھ سکے اور مشرقِ وسطی کے مستقبل میں ایک ناگزیر کردار ادا کرسکے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے: کیا ریاض بیک وقت دمشق حکومت سے روابط برقرار رکھتے ہوئے اپنے حریفوں کو طاقت حاصل کرنے سے روک بھی سکتا ہے؟ کیونکہ یہ ایک ایسا میدان ہے جہاں ہر قدم بارودی سرنگ پر پڑسکتا ہے۔
اسٹریٹیجک رقابتیں: پراکسی جنگوں سے بین الاقوامی طاقتوں تک
شام اس وقت ایک ایسی پیچیدہ جنگی بساط بن چکا ہے جہاں ہر طاقت اپنی مخصوص حکمت عملی اور وسائل کے ذریعے اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس منظرنامے میں سعودی عرب کو بیک وقت کئی محاذوں پر نبرد آزما ہونا پڑرہا ہے۔ سب سے پہلے ترکی کا کردار قابل ذکر ہے، جو سیرین نیشنل آرمی کی بھرپور حمایت کے ساتھ شام کے شمالی علاقوں جیسے عفرین اور حلب وغیرہ پر کنٹرول رکھتا ہے۔ ان علاقوں میں اثر و رسوخ بڑھا کر انقرہ نے نہ صرف اپنی سرحدوں کے ساتھ ایک حفاظتی بفرزون قائم کیا ہے بلکہ اپنے حامی گروہوں کے ذریعے شام کے اندرونی علاقوں تک اپنی رسائی کو مستحکم کیا ہے۔ اس حکمت عملی نے شمالی شام میں طاقت کا توازن ترکی کے حق میں بدل دیا ہے، اور مشرقی شام کے علاقے مثلا دیر الزور اور رقہ جیسے عرب اکثریتی علاقوں میں سعودی عرب کی موجودگی پس منظر میں چلی گئی ہے۔ ریاض بخوبی جانتا ہے کہ شام کے ہر اس انچ پر جو ترکی کے زیر اثر آتا ہے، عرب دنیا میں اس کا روایتی دائرہ اثر محدود ہوتا جاتا ہے۔
اسرائیل کا توسیع پسندانہ سیکیورٹی ماڈل بھی سعودی عرب کے لیے گہری تشویش کا باعث ہے۔ شام میں اسرائیلی فضائی حملے، جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دمشق کے دفاعی نظام کا 70 سے 80 فیصد حصہ تباہ کر دیا گیا ہے، محض طاقت کی تقسیم کا ایک پہلو ہیں۔ جولان کی پہاڑیوں پر قبضہ اور اس علاقے میں یہودی آبادکاروں کی تعداد دوگنی کرنے کی کوششیں اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ تل ابیب کمزور شام کو اپنی سیکیورٹی اور توسیع کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔ سعودی عرب کے لیے یہ پیش رفت طویل المدتی سرحدی کشیدگی اور مقاومتی بلاک کی تقویت کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔ ایران اور قطر بھی ریاض کے لیے اہم حریف بن کر سامنے آتے ہیں، جو غیر روایتی اور غیر متوازن ذرائع استعمال کرتے ہوئے سعودی اثر و رسوخ کو چیلنج کر رہے ہیں۔
سعودی حکمت عملی: معیشت اور سفارت کاری کا امتزاج
شام کی خطرناک اور الجھی ہوئی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے سعودی عرب نے ایک سہ جہتی حکمت عملی اپنائی ہے جو معیشت، قبائلی روابط اور سیکیورٹی پر مبنی سفارت کاری پر مشتمل ہے۔
ریاض اس وقت معیشت کو نرم جنگ کے ایک آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ بارہ سالہ خانہ جنگی کے تباہ کن اثرات کے بعد شام کی معیشت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے اور اسے از سر نو بحالی کے لیے بڑے پیمانے پر مالی وسائل درکار ہیں۔ سعودی عرب اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے عبوری شامی حکومت سے تعاون کے بدلے بڑے پیمانے پر تعمیر نو کی پیشکش کررہا ہے۔ اس حکمت عملی کے دو اہم فوائد ہیں: اول، سعودی عرب خود کو شام کی تعمیر نو میں ایک ناگزیر فریق کے طور پر پیش کر سکتا ہے؛ دوم، وہ اقتصادی اثر و رسوخ کے ذریعے شام کی متنازعہ حکومت کی بین الاقوامی قانونی حیثیت کو سعودی مفادات سے ہم آہنگی سے مشروط کرسکتا ہے۔
دوسری طرف مشرقی شام خصوصا دیر الزور، الحسکہ اور رقہ میں عرب قبائل فیصلہ کن کردار ادا کررہے ہیں۔ سعودی عرب ان قبائلی رہنماؤں سے براہ راست روابط قائم کرنے کے علاوہ انہیں مالی اور لاجسٹک مدد فراہم کرکے ایک غیر رسمی مگر مؤثر طاقت کا نیٹ ورک تشکیل دے رہا ہے، جس سے وہ زمینی سطح پر اثر و رسوخ حاصل کررہا ہے۔
سعودی عرب کی دفاعی سفارت کاری تلوار کی دھار پر چلنے کے مترادف ہے۔ ایک طرف وہ ایک ایسی جامع عبوری قومی حکومت کے قیام کی حمایت کر رہا ہے جو کرد مسئلے کو پرامن مذاکرات کے ذریعے حل کرے، اور دوسری طرف وہ بالواسطہ طور پر ان گروہوں کی پشت پناہی کررہا ہے جو شام میں ترکی اور ایران کے اثر و رسوخ کے مخالف ہیں۔ یہ دو طرفہ سفارتی موقف دراصل شام میں طاقت کے کنٹرول شدہ توازن کو قائم رکھنے کی سعودی کوشش کا عکاس ہے تاکہ کوئی بھی فریق مکمل غلبہ حاصل نہ کرسکے۔
اسٹرکچرل چیلنجز: ریاض کو درپیش بڑی رکاوٹیں
مختلف ذرائع اور حکمت عملیوں کے باوجود سعودی عرب کے سامنے ساختاری طور پر کچھ اہم رکاوٹیں ہیں۔ شام کی عبوری حکومت کے ساتھ مختصر مدت کا تعاون سعودی عرب کو سفارتی لچک فراہم کر سکتا ہے، لیکن اگر سعودی عرب اس حکومت کو طویل مدت تک مضبوط کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک درد سر بن سکتا ہے۔ قطر کے ساتھ رقابت بھی ایک قسم کی پراکسی جنگ بن چکی ہے، جو میڈیا اور لابنگ کے پلیٹ فارمز پر جاری ہے۔ جہاں ریاض خلیج تعاون کونسل میں سیاسی اور اقتصادی برتری رکھتا ہے، وہیں قطر الجزیرہ جیسے عالمی میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے شام کے تنازعے کا اپنا بیانیہ پھیلانے اور سول اداروں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔
حاصل سخن
بشار الاسد کے بعد شام میں سعودی عرب ایک ایسے کھلاڑی کی مانند ہے جو بیک وقت کئی شطرنج کی بساطوں پر چالیں چلنے پر مجبور ہے۔ ایک طرف اسے دمشق میں نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے شام کی تعمیر نو میں اہم کردار ادا کرنا ہے، تو دوسری طرف وہ ترکی کے عزائم، اسرائیل کی توسیعی پالیسیوں اور قطر کے ممکنہ اثرات کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ سعودی عرب کی موجودہ حکمت عملی شام کے حالیہ اندرونی بحران کی نوعیت کی وجہ سے کمزور نظر آتی ہے۔
آپ کا تبصرہ