مہر خبررساں ایجنسی، سیاسی ڈیسک: شام میں ایرانی سفارت خانے پر صہیونی حکومت کے دہشت گرد حملے اور کئی فوجی مشیروں کی شہادت کے بعد ایران نے ہفتے کی رات مقبوضہ فلسطین میں صہیونی فوجی تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملے کئے۔ سپاہ پاسداران انقلاب کی جانب سے درجنوں ڈرون اور میزائل فائر کئے گئے جس میں بڑی تعداد صہیونی فوجی اہداف پر لگے۔
مہر نیوز نے ایران کے حملے اور اسرائیل پر اس کے اثرات کے بارے میں پاکستانی معروف صحافی اور تجزیہ نگار مظہر برلاس سے رابطہ کیا۔ ان کی گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہے۔
مہر نیوز: ایران کے ڈرون اور میزائل حملے کے بارے میں اپ کا تجزیہ کیا ہے؟
مظہر برلاس: میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ممالک میں سے کسی نے بھی غیرت کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس وقت پوری امت مسلمہ خواب خرگوش کی نیند سوئی ہوئی ہے۔ بہت سے مسلمان ممالک ہیں جو مفادات کے لیے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ میں عمدا ساتھ کا لفظ استعمال کروں گا کیونکہ جو غزہ کے ساتھ کھڑے نہیں ہیں وہ اسرائیل کے ساتھ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بہت سے ایسے ممالک ہیں خاص طور پر ہمارے عرب ممالک جنہوں نے امریکہ کو اڈے فرام کر رکھے ہیں۔ وہ چاہتے تھے کہ امریکہ بھی اس حملے میں شریک ہو جائے تاکہ ان کی بھی دال روٹی چلے۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ مسلمان ملکوں میں سے میں ایران کو شاباش دیتا ہوں۔ کہ اس نے غیرت کا مظاہرہ کیا۔ امت محمدیہ کی حمیت کا خیال کیا آبرو کا خیال کیا تو میں تو اس کو بہترین کہوں گا اس لیے کہ کسی نے تو جواب دیا ورنہ مسلمان تو خاموش تھے۔ اسرائیل غنڈہ گردی کرتا پھر رہا تھا۔ وہ اسرائیل جو کئی ماہ سے بمباری کر رہا تھا ہمارے مسلمان بہن بھائیوں کو اور ہمارے بچوں کو کچل رہا تھا۔ ایران کے حملے کے بعد یہ ہوا کہ وہی اسرائیل جنگ بندی کے لیے کوششیں کرنے لگ گیا اب اس کو سلامتی کونسل کی یاد بھی اگئی اب اس کو اور بھی بہت سی یادیں اگئی لہذا میں ایران اور مزاحمتی گروہوں کو شاباش دیتا ہوں۔ آج جنت میں شہید قاسم سلیمانی کی روح خوش ہوگی انہوں نے جن لوگوں کی رہنمائی کی تھی وہ لڑ رہے ہیں اللہ کے راستے میں جہاد کر رہے ہیں اور دشمن کو نابود کر رہے ہیں دشمن کا جو خیال تھا کہ ہم 24 گھنٹے میں فتح کر لیں گے وہ 24 گھنٹے میں تو کچھ بھی نہ کرسکے۔ شہید سلیمانی نے عرب ممالک کے مزاحمتی گروپوں کو بہت ٹرینڈ کیا انہوں نے آج اس کا نتیجہ دے دیا۔ اگر تصادم ہوا تو ایک طرف ایران ہوگا اور دوسری طرف امریکہ اور اس کے اتحادی ہوں گے۔ دیکھیں روسی صدر پیوٹن نے ایسے ہی ایران کے حق میں بیان نہیں دیا ہے بلکہ اس کے پیچھے بڑی حقیقت ہے کہ دنیا میں طاقت کا توازن مغرب سے ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے۔ اب امریکہ بہادر اتنا طاقتور نہیں رہا۔ یورپی ممالک کی طاقت بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ علامہ اقبال کا ایک مصرع ہے کہ تہران ہو کر گر عالم مشرق کا جنیوا شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے۔
مہر نیوز: یہ حملہ جو ہوا اب کی نظر میں کتنا کامیاب رہا اور اسرائیل پر اس کے کیا اثراتب ہوئے؟
مظہر برلاس: یہ ایک ٹیکنیکل سی بات ہے اس کی اثرات کیا مطلب انہوں نے جو دھوم مچارکھی تھی کہ ہم نے ایسا حفاظتی نظام بنارکھا ہے جو اسرائیل کو محفوظ رکھتا ہے کوئی گولی بھی نہیں آسکتی بھائی کوئی میزائل نہیں آسکتا۔ پچھلے سال اس غرور کو حماس کے جوانوں نے توڑ دیا تھا۔ اب اس کو ایران نے چھلنی کر دیا ہے لیکن اس میں جو سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ جو منہ زور گھوڑے تھے ان کے سامنے کوئی بول نہیں رہا تھا جن کے سامنے کوئی کھڑا نہیں ہو رہا تو ایران نے کھڑا ہو کے بتا دیا ہے کہ اپ کے سامنے بولا بھی جاسکتا ہے اپ کے سامنے کھڑا بھی ہوا جاسکتا ہے اپ کے ساتھ لڑا بھی جاسکتا ہے تو وہ جو ایک قول تھا نا کہ ہمارے مقابلے میں تو سب زیرو ہے کوئی ہمارے مقابلے میں نہیں آسکتا وہ خول ٹوٹ گیا ہے تو بنیادی طور پر یہ ایک نفسیاتی شکست ہے۔ ان کا دفاعی نظام نابود ہوگیا ہے۔ وہ ہل کے رہ گئے ہیں۔ ایران کے حملے نے انہیں پہلی دفعہ شدید پریشان کیا ہے پہلی دفعہ پسپا کیا ہے اور ان کے جو اتحادی ہے امریکی جن کی آشیرباد سے وہ لڑتے ہیں تو امریکہ نے بھی یہ کہہ کر کہ اگر اسرائیل دوبارہ ایران پر حملہ کیا تو ہم ساتھ نہیں دیں گے۔ اس طرح امریکہ نے شکست کا اعتراف کیا ہے۔
مہر نیوز: پاکستان نے ردعمل میں فریقین تحمل سے کام لینے کو کہا، کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟
مظہر برلاس: دیکھیں بانی پاکستان قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اسرائیل کو ہم کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔ انہوں نے اس وقت کے امریکی ٹرومین کو ایک خط میں لکھا کہ اسرائیل ایک ناجائز بچہ ہے ناجائز ریاست ہے ہم اسے کبھی بھی تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان میں مختلف وقتوں میں مختلف لابیاں سامنے آتی رہی ہیں جیسے ہمارے پچھلے نگران وزیراعظم دو ریاستی فارمولے کی بات کی۔ دو ریاستی فارمولے سے مراد تو یہ ہے کہ آپ نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو میرا خیال ہے پاکستانی لوگ اسرائیل کو تسلیم نہیں کریں گے پاکستان کی قوم کے دل اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں وہ کبھی بھی تسلیم نہیں کرتے۔ جب پچھلے دور میں ڈیل آف سنچری کی باتیں ہورہی تھیں تو اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان پر بڑا پریشر تھا کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے ان کے ملک سے بھی کئی لوگوں کا پریشر تھا تو عمران خان نے انکار کر دیا اور عمران خان کا وہ انکار ایسا تھا کہ آج عمران خان پوری عرب دنیا کا ہیرو ہیں۔ وہ جیل میں بند ہیں مگر انہیں جب بھی موقع ملتا ہے وہ فلسطین کے لیے بات کرتے ہیں اسی لیے بیت المقدس کے عوام کہتے ہیں کہ ہم ہر روز دعاؤں میں عمران خان کا تذکرہ کرتے ہیں اور میں بھی بطور پاکستانی یہ کہہ سکتا ہوں یا کہنے پہ مجبور ہوں کہ اگر عمران خان جیل سے باہر ہوتے تو یہ صورتحال نہ ہوتی۔ وہ ایران کے ساتھ مل کر بہت اچھی طرح فلسطین کا مقدمہ لڑتے۔
آپ کا تبصرہ